الفاظ سوچ کے اوزار


امریکہ سے تعلق رکھنے والی شاعرہ امیلی ڈکنسن کہتی ہیں کہ اس جہاں میں کچھ بھی ایسا نہیں جو لفظوں سے زیادہ طاقتور ہو۔ لفظوں میں زندگی ہوتی ہے اور ان کی طاقت اور اثر ایک اٹل حقیقت ہے۔ لفظوں کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ اور یہ سننے والے پر اپنا منفی یا مثبت اثر ضرور چھوڑتے ہیں۔ اسی لئے شاید کہتے ہیں کہ تیر کے گھائل کو اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی لفظوں کے گھائل کو ہوتی ہے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہنر مندوں، فنکاروں اور تخلیق کاروں کے شہ پا روں کو دوام بخشنے میں ہنر کے ساتھ ساتھ اوزار نہایت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں، تخلیق کار چاہے کتنا ہی ہنرمند کیوں نہ ہو، بنا اوزاروں کے ادھورا ہی ہوتا ہے۔ یعنی ہنر خود کو اوزار میں سموکر ہی کسی شاہکار کی معراج تک پہنچ پاتا ہے۔ بالکل اسی طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اوزار ہی کام کو آسان اور ممکن بنانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔

اسی طرح انسان کی زندگی میں اس کے الفاظ جو وہ کہتا ہے یا لکھتا ہے اس کی شخصیت کی پہچان ہوتے ہیں۔ جو اس کی سوچ اور اس کی فہم و فراست کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہی الفاظ اقبال کو علامہ سر محمد اقبال، مرزا اسد اللہ خان کو غالب اور ارسطو کو شہرت دوام بخشتے ہیں۔

آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ اچھا سوچو اچھا ہوگا، انسان جیسا سوچتا ہے ویسا ہی بولتا ہے، اور پھر ویسے ہی اعمال کرتا ہے، یعنی الفاظ انسان کی سوچ کے اوزار ہوتے ہیں، جو معاشرے میں اس کی شخصیت کے سفیر بھی ہوتے ہیں۔ الفاظ ہی سوچ کے وہ اوزار ہیں جن کے ذریعے انسان اپنے ارد گرد کے ماحول کی ترتیب مرتب کرتا ہے۔ یا ان ہی سوچ کے اوزاروں کے ذریعے فلسفہ، ادب، تدریس، سائنس اور تحقیق کے میدانوں میں کارہائے نمایاں کر پاتا ہے، اور اپنے لفظوں کے اوزاروں سے ایسے ایسے شاہکار تخلیق کر دیتا ہے جو بنی نوع انسان کے لئے رہتی دنیا تک نفع و تسکین کا سبب بنے رہتے ہیں۔

یوں تو دنیا بھر کے دانشوروں کے کام کی ابتداء سوچ و فکر سے ہی شروع ہوتی ہے، سوچ بعد میں الفاظ کا روپ دھار کر ذریعہ اظہار بن جاتی ہے اور پھر فلسفہ، شعر، منطق، تصویر، ریاضی کی گتھیاں، کمپیوٹر کی جدید ایجادات، کار، جہاز، راکٹ، روبوٹ اور جانے کیا کیا تخلیق ہوتا چلا جاتا ہے، یعنی جیسی سوچ ہوتی ہے اسی کے تناظر میں شاہکار تخلیق پاتے چلے جاتے ہیں جو اپنے تخلیق کار کی سوچ کے عکاس ہوتے ہیں، اب اس تخلیق میں کون کون سے اوزار استعمال ہوئے یہ تو تخلیق کار ہی جانتا ہے مگر، سوچ کے لفظوں میں بدلتے اوزار ہی کسی عام کو خاص اور کسی شعر، قول، ایجاد یا تصویر کو شاہکار بنا پاتے ہیں۔

سوچتے تو سب ہی ہیں مگر انداز فکر یہ وضع کرتا ہے کہ اس سوچ کے نتیجے میں جنم لینے والے الفاظ امر ہو جائیں گے یا بس مر جائیں گے۔ اس کی مثال بعض فلسفیوں اور عالموں کے صدیوں پہلے کہے ہوئے اقوال ہیں، شاعروں کی لکھی ہوئی شاعری ہے، مصنفین کا لکھا ہوا ادب ہے، جب وہ سوچ سے لفظوں میں تبدیل ہوئے تو اپنے اپنے اوزاروں کے بمطابق امر ہوتے چلے گئے۔ اور صدیاں گزرنے کے باوجود نہ صرف لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں بلکہ مشعل راہ بھی ہیں۔

یہ الفاظ ہی ہیں جو سوچ کی تاثیر لئے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں علم و دانش، خیر و شر، خوشی اور غم، فلاح و ناکامی کی تمثیل لکھی جاتی ہے۔ جو براہ راست معاشرے کے ماحول پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اور معاشرتی رویوں کے رجحانات کی ترتیب میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ان ہی لفظوں کے اوزاروں سے آپ گل و گلزار تخلیق کر سکتے ہیں اور ان ہی لفظوں کے اوزاروں سے آپ جنگ و جدل، تباہی و بربادی پھیلا سکتے ہیں، فرق صرف استعمال اور موقع کا ہوتا ہے۔ جیسے ہم ایک ہی ترتیب کے جملے میں لفظوں میں لحظہ بھر کے توقف سے معانی و مطالب کا بہت بڑا بدلاؤ لا سکتے ہیں جیسے، روکو۔ مت جانے دو، کا مطلب ہوا کہ روک لو مگر روکو مت۔ جانے دو کا مطلب ہوا کہ جانے دیا جائے۔ یعنی لفظوں میں ایک لحظہ بھر کے توقف کے بدلاؤ نے جملہ کے معنی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔

لفظوں اور جملوں کی خاص تاثیر ہوتی ہے، جو معاشرے پر منفی یا مثبت اثرات مرتب کر رہی ہوتی ہے جس کا اندازہ با آسانی الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈز سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہی سوچ کے اوزار لفظوں کا روپ دھار کر کسی بے گناہ کو گناہگار اور کسی چور لفنگے کو متقی پرہیزگار ثابت کر سکتے ہیں، جس کی زندہ مثال عدالتیں، نیوز چینلز اور سوشل میڈیا ہیں جو ہمیں روز ایک نئے تجربے سے روشناس کرا رہے ہوتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مثبت سوچا جائے تاکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے الفاظ اور الفاظ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات بھی مثبت و سازگار ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments