جھوٹ ایک پھندا ہے


جھوٹ ایک معاشرتی ناسور ہے، جو اس وقت تک اچھا نہیں ہوتا جب تک اسے سچ کا غسل نہ دیا جائے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ ایسے بولا جاتا ہے، جیسے اس کے دریا بہتے ہیں۔ اور اگر کوئی بیچارا سچ بولتا ہے تو وہ پیاسا مارا جائے گا۔ یعنی جھوٹ اپنی انا پرستی کے دریا بہاتا ہے، جس سے چھوٹی چھوٹی نہریں اور ندیاں بھی بہتی ہیں۔ لیکن وہ آبی بخارات میں تبدیل ہو کر سو کہ جاتی ہیں، بلا آخر وہ بنجر زمین کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

البتہ سچ میں اتنی طاقت ہے کہ اگر اس کا بیج بنجر زمین میں بھی بو دیا جائے تو وہ اگ کر تنا آور درخت بن جاتا ہے۔

کیونکہ اس کی جڑیں زمین میں اس قدر پیوست ہوتی ہیں۔ جنہیں ہر وقت نمکیات کی فراہمی ہوتی ہے۔ اس لئے جو پودا پانی کی ندیوں کے پاس لگایا جاتا ہے، وہ ہمیشہ ہرا بھرا رہتا ہے نہ وہ سوکھتا ہے اور نہ وہ کملاتا ہے۔

اگر ہم معاشرے میں اس ناسور کا تجزیہ کریں تو یہ ایسا بھیانک گناہ ہے، جو ہمارے اعتماد کی شہ رگ کاٹ دیتا ہے۔

جس کا انجام ذلت و رسوائی ہوتا ہے۔ یہ وہ سماجی ناسور ہے اگر خدانخواستہ ہماری زبان کو لگ جائے تو یہ جلدی اچھا نہیں ہوتا بلکہ اس کے اجزاء زبان کا اس وقت تک گوشت کھاتے ہیں، جب تک یہ لوتھڑا ختم نہیں ہو جاتا۔

کہنے کو تو زبان ایک چھوٹا سا عضو ہے لیکن جب اس میں جھوٹ کی آمیزش شامل ہوتی ہے تو اس میں لکنت آ جاتی ہے۔

کیونکہ انسان اپنے ضمیر کی آواز سننے میں عار محسوس کرتا ہے، اس لیے زبان رک رک کر اپنا اظہار کرتی ہے اور چہرے پہ ندامت کی سلوٹیں اس قدر اپنا تاثر دیتی ہیں، کہ جھوٹ کو جتنا مرضی سلیقے سے بولا جائے لیکن چہرے پر اس کی ندامت کے اثار ضرور دکھائی دیتے ہیں۔

جو جھوٹ بولتا ہے اسے اس کی لاج رکھنے کے لئے سو بار جھوٹ بولنا پڑتا ہے، لیکن وہ پھر بھی جھوٹ ہی رہتا ہے۔

یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جو طاقت سچ بولنے میں

پنہاں ہے، مصنوعی طریقے سے بولا گیا لاکھ جوٹ بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ انسانی فطرت کا یہ خاصا ہے، کہ یہ وضاحت کی ہمیشہ پرتیں کھرچتی ہے اور اس وقت تک اعتبار نہیں کرتی جب تک سچ کا شگوفہ نکل نہ آئے۔

اگر اس بات کا فطری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنی فطرت میں کس قدر شفاف ہے، لیکن جب اس میں غیر ضروری کثافتیں مل جاتی ہیں تو اس کی فطرت میں غیر فطری رویے پیدا ہو جاتے ہیں۔ جو کئی اشکال بن کر انسان کے سامنے آتے ہیں۔ جن میں ندامت، خوف و ہراس، الجھنیں، قباحتیں، اور گندگی و غلاظت کے ڈھیر شامل ہوتے ہیں۔ مذکورہ اشکال کی بدولت نہ انسان میں دلیری کی روح آتی ہے اور نہ اس کے ہاتھ میں طاقت کا عصا، لیکن جو صاحب کردار ہے وہ باوقار بھی ہے اور با عمل بھی رہتا ہے۔ دراصل عمل وہ نمونہ ہے جس کے سائے میں سچ کی ٹھنڈک شامل ہوتی ہے۔ اور جو لوگ زندگی میں ایسا وصف اپنا لیتے ہیں ان کے کردار سے نسلیں زندگی کی وہ برکات پا لیتی ہیں جن کا انہیں تصور بھی نہیں ہوتا۔

جہاں جھوٹ معاشرتی طور پر انسان کا دشمن ہے وہاں اسے وہ روحانی طور پر بھی پراگندہ کرتا ہے۔ آج کا انسان سماج کے ایک ایسے دائرے میں بند ہو چکا ہے۔ جہاں اسے دو طرح کا زوال پیش آتا ہے پہلا جسمانی اور دوسرا روحانی۔

اس ضمن میں راقم کا ایک اختصاریہ پڑھیے۔
” جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے لیکن وہ پاؤں میں بیڑیاں ضرور ڈال دیتا ہے“

ذرا سوچیں یہ کیسی بات ہے؟ کہ جھوٹے انسان کو کس طرح قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ کبھی وہ چلنے سے عاری بنا دیتا ہے تو کبھی وہ کردار کو مشکوک۔ بس انسان ایک ایسی سوچ کا غلام بن جاتا ہے کہ میں چالاک ہوں اور دوسرے بے وقوف ہیں۔ میں آسانی سے دوسروں کو دھوکہ دے سکتا ہوں۔ میری عقل کی لاٹھی طاقتور ہے میں جسے چاہوں آسانی سے ہانک سکتا ہوں۔ شاید یہ اس کا محض خیالی پلاؤ ہوتا ہے جو اپنے ذائقہ میں بدمزہ اور باسی ہوتا ہے۔

شاید ایک ایسی بھول اور عقل کا دھوکا جو اپنی ہی ذات کو نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے۔ جو ہماری فطرت کو اس طرح جکڑ لیتا ہے۔ جیسے کسی چیز کو رسیوں سے باندھ کر کس دیا ہو۔ اگر جھوٹ کے متعلق یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ آرائی نہ ہوگی کیونکہ یہ وہ اژدہا ہے جو ہماری شخصیت کو آسانی سے نگل جاتا ہے۔

لیکن افسوس!

لوگ پھر بھی اس بت کی پوجا کرتے ہیں۔ اس کے سامنے اپنی منتیں اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ تاکہ ہمارے دل کی مرادیں پوری ہو جائیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر لگتی ہے کہ اس بت کی اس قدر کشش کیوں زیادہ ہے؟ جہاں ہمارے دل کی ٹشوز آسانی سے پگھل کر اسے سجدہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

یقین کیجیے یہ بے بسی اور لاچاری کی وہ تصویر ہے، جس سے جھوٹ کے دریا بہتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو انا پرستی گردن میں سریا بن کر اٹک جاتی ہے۔ جس سے نہ گردن سیدھی ہوتی ہے اور نہ چال۔ اکثر اس کے مضر اثرات اعصاب میں رعشہ پیدا کر دیتے ہیں۔ یوں یہ حقیقت انسان کو بے بسی کی بند کوٹھڑی میں پھینک دیتی ہے، جہاں اندھیرا اور تاریکی کے بادلوں سے اندھا بنا دیتے ہیں تاکہ وہ دیکھ نہ سکیں۔

یہ دنیا ایک ایسی ڈگر پر چل رہی ہے، جہاں جھوٹ کے بتوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ ہر کوئی خوش حالی کا دامن پکڑنے کے لیے اس کا سہارا لیتا ہے، لیکن اس کی دیواروں سے کرنٹ کی وہ لہریں نکلتی ہیں جن سے انسان کو ایسے وولٹ کا دھکا لگتا ہے، جہاں وہ ادھ موا ہو کر گر پڑتا ہے۔

سچ ایک تعمیری کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ اور روحانیت کی اس تصویر کو پیش کرتا ہے، جہاں سچ بولنے والے کرب کی بھٹی میں جل کر بھی اپنا کردار نہیں کھوتے نہ وہ جھکتے ہیں اور نہ وہ بکتے ہیں اور نہ وہ نفسانی حربوں سے گمراہ ہوتے ہیں۔ آپ کبھی خود سے قول و اقرار کر کے دیکھیں کہ آپ کا ضمیر کس آواز سے چوکنا ہوتا ہے جھوٹ یا سچ سے۔ آپ کو خود ہی اس بات کا تسلی بخش جواب مل جائے گا کہ میرے اندر قوت ارادی کی فکری توانائی کیسی ہے؟

اگر آپ اپنا امتحان لینا چاہتے ہیں تو آپ ایمان کی سیڑھی پر قدم رکھ کے دیکھیں اور بغیر سہارے کے سیڑھی پر چڑھنا شروع کر دیں۔ چند ہی منٹوں میں آپ کو اپنے ایمان کی طاقت کا اندازہ ہو جائے گا۔ کیونکہ انسان کے اندر کبھی احساس کمتری کی کشتی ڈوبتی ہے اور کبھی احساس برتری کا کھدو۔ اگر اس کھدو کو کھول کر دیکھا جائے تو اس میں انسان کی شخصیت

تار تار نظر آئے گی اور کبھی کبھی انسان اپنے مفاد کی خاطر جھوٹ بھی اس انداز سے بولتا ہے کہ اس پر یقین کرنا پڑتا ہے۔

یہ دنیا دھوکے کا گھر ہے۔ اس میں اعتماد کی حدود بہت محدود اور سطحی ہے۔ چونکہ انسان کی سرشت میں مفاد پرستی اور خودغرضی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔

بعض اوقات انسان جھوٹ کو اعتماد کا حصہ سمجھتا ہے۔

وہ سمجھتا ہے کہ میرے جھوٹ بولنے سے مجھے آرام کا سہارا مل جائے گا۔ میں دنیا میں سرخرو ہو جاؤں گا۔ لیکن وہ نہیں سمجھتا کہ دھوکے کی فضا اسے کس طرح آلودہ کر رہی ہوتی ہے۔

دھوکہ پر لکھا ہوا راقم کا ایک اختصاریہ!
” بھروسے کا نوالہ چبا چبا کر کھانا چاہیے تاکہ غیر ضروری کثافتیں الگ الگ ہو جائیں“

کسی بھی انسان پر اعتماد کرنے سے پہلے اس کی آستین میں چھپا ہوا سانپ ضرور دیکھ لینا چاہیے۔ کیونکہ وہ آپ کو کسی وقت بھی ڈس سکتا ہے، جیسے جسمانی آنکھیں ہوتی ہیں اسی طرح پرکھ کے لئے روحانی آنکھیں بھی ہونی چاہیے۔

کچھ لوگوں کو جھوٹ بولنے کا اس قدر سلیقہ آتا ہے۔ جہاں انسان کو اعتماد کی چادر بچھانا ہی پڑتی ہے۔ لیکن جب اعتماد کھوتا ہے تو بدن کی حالت ایسے ابتر ہوتی ہے جیسے زخموں پر نمک چھڑکا گیا ہے۔ انسان کی قوت حیات سلب ہوجاتی ہے، اس پر نزع کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ وہ ٹھوکر کے باعث بری طرح گر جاتا ہے، اس کے سامنے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہو جاتے ہیں۔

ان باتوں کے باوجود اگر آپ کے اندر سچ کا شعلہ جلتا ہے، تو آپ جھوٹ کو راکھ بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ جسم اور روح کے درمیان فساد کی ایسی جڑ ہے، اگر اگ آئے تو آسانی سے کاٹی نہیں جاتی اور جب یہ جھوٹ انسان کے گلے پڑتا ہے تو اس کے اعتماد کی شہ رگ کاٹ دیتا ہے۔ پھر ہمارے گلے شکوے باتوں کی زنجیر بن جاتے ہیں اور ہماری چیخ و پکار میں ایسی آوازیں پیدا ہوتی ہیں، جیسے کسی کو آگ کی بھٹی میں ڈالا جاتا ہے۔ انسان ہائے ہائے کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اوہ میرا اعتماد چھن گیا، میری روحانیت کھو گی، مجھے تضاد و تعارض نے رسوا کر دیا، میری شکل و صورت بگڑ گئی، میرے چہرے کے داغ دھبے بڑھ گئے، میرے احساسات و جذبات مجروح ہو گئے، سب میرا ساتھ چھوڑ گئے۔

اب میں اکیلا بچا ہوں۔ میں کسی کو اپنا منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوں۔ انسان ہر وقت اپنی ذات کو کوستا ہے۔ وہ خود کلام ہو کر کہتا ہے میرے خیالات میں تفکرات کا ہجوم ہے۔ میرے قدموں کو زنجیروں نے جکڑ لیا۔ اب دنیا کی ٹھوکروں اور تنہائیوں نے مجھے اس بات کا درس دیا ہے جہاں میری ڈھارس بندھانے والا کوئی نہیں۔ اب میں ان ساری باتوں کو پس پشت ڈال کر سوچتا ہوں کہ شاید میرے لیے یہ آخری موقع ہے۔

کاش! میں اپنے گناہوں سے توبہ کر لوں اور میری آنکھوں سے گناہ کے ککرے اتر جائیں تاکہ میں بینا ہو جاؤ۔ اور میرے گلے سے یہ پھندا کٹ جائے تاکہ اب میں کہہ سکوں نہ میں کنگال ہوں اور نہ رسوا۔ بلکہ میرا سچ ہڈیوں کو تازگی اور روح کو شادمانی بخشتا ہے۔ اب میرے دل کی دھڑکن نارمل ہے اور میرا جسم بیماری سے پاک ہے۔ کیونکہ تاریکی کی گھٹاؤں کو صرف سچ کے بادل اڑا سکتے ہیں۔

اب میں بلند حوصلہ ہوں میرے جذبات آفاقی صداقتوں کی تمنا کرنے لگے ہیں۔ میں خدا سے جو چیز مانگوں گا وہ مجھے دے گا۔ اور جس چیز کو میں چھوؤں گا وہ سونا بن جائے گی۔ میرے ارد گرد رشتوں کا ہجوم ہو گا۔ سب مجھے عزت و وقار سے دیکھیں گے۔ کیوں کہ میرا دل بطالت سے پاک ہے اور سچ میری طاقت بن کر لڑ رہا ہے۔ وہی میرے سب دشمنوں کے منصوبوں کو ناکام بنائے گا۔ میں جہاں بھی جاؤں گا میرے پاؤں کا تلوا ٹک جائے گا کیونکہ وہ میری سپر اور ڈھال ہے۔ جس خدا نے میرے باطن میں سچ کا بیج بویا ہے اب وہ بڑھ کر تناور درخت بن گیا ہے۔ اب مجھے ہر وقت احساس کے نمکیات ملتے ہیں۔ یقیناً میرے سچ نے جھوٹ کا پھندا کاٹ دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments