بے باک


زندگی کی غلیظ ترین حقیقت ہے۔ تمہیں ایک شے ایک میکنزم کے طور پر استعمال کیا جانا کتنی گندی بات ہے۔ عورت خود کو استعمال کیے جانے پر مرد کو معاف نہیں کر سکتی۔ ” (اوشو)
عورت مارچ سے لے کر حقوق نسواں تک مرد کے مقابل آتی عورت رشتے میں یا تو اس کی دوست ہے یا پھر بیوی۔ حقوق نسواں میں کبھی مائیوں یا بہنوں کے لئے اجتماعی کوششیں ہوتی نظر نہیں آئی۔

خون کے رشتے جسم کے رشتوں پہ فوقیت رکھتے ہیں۔ چھوٹی بہن کی چوٹیاں یاد رہ جاتی ہیں پر بیمار بیوی کی دوا بھول جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے کا تقاضا ہے کہ جسمانی تعلقات کے لئے باقاعدہ نکاح کا حق دیا جائے۔ اسلام نے بہت خوب صورتی کے ساتھ اس تعلق کو متعین کیا ہے۔ لیکن عام روایت یہی دیکھی گئی ہے کہ شادی شدہ عورت اس تعلق کو نبھاتے نبھاتے کبھی کینسر جیسے مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے یا پھر لیبر روم کے بیڈ پر ہی اپنی آخری سانس لیتی ہے۔

منٹو اور اوشو کو پڑھو تو لگتا ہے کہ ان مردوں نے عورت کی روح کو پڑھا ہے انہیں اس بات سے سروکار نہیں کہ عورت کی زلفیں سیاہ ہیں۔ آنکھیں ہرنی جیسی ہیں یا کمر صراحی جیسی ہے۔ وہ عورت کے اس کرب کو لکھتے رہے جو انہیں نظر آیا۔

معاشرے میں ایک طرف عورت تیزاب ڈال کر بد صورت بنائی جا رہی ہے تو دوسری طرف اپنے سکون کے لئے اٹھائے کے اقدام پر اسے بدکردار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔

اولاد کی ذمہ داریاں ڈال کر مرد سنگ دل اپنی ذمہ داریوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور یہی سے وہ خلا پیدا ہوتا ہے جو کمزور عورت کو اس کے گھر سے دور کرنا شروع کر دیتا ہے اور بالآخر وہ اپنی نامکمل خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ دیتی ہے یا پھر اس مرد کو ہی ختم کر کے نیا ساتھی چننے کے لئے غلط راستہ اختیار کر لیتی ہے۔ جہاں ایک نہیں کئی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔ کاش اس طرح کے واقعات رونما ہونے سے پہلے اس پہلو پہ کونسلنگ ہوا کرے، مرد کو اس کی ذمہ داری بتائی جائے وہ عورت کو مشین کے میکنزم کی طرح استعمال کرنے کے بجائے اسے تحفظ کا احساس دلائے۔

دنیا معرض وجود میں آئی تو پہلا قتل ہونے کی وجہ ایک عورت ہی تھی اس وقت روٹی کپڑا مکان کی جنگ نہیں تھی جنگ تھی تو عورت تو اب اس دور میں ہم عورت کی اہمیت کو کیونکر بھلا سکتے ہیں۔ عورت معاشرے میں ایک اہم کردار رکھتی ہے اگر معاشرہ بگاڑ کی طرف جا رہا ہے تو اس کی اصل وجہ بھی عورت ہے۔ میں بذات خود یہ تجربہ رکھتی ہوں کہ مرد صرف عورت میں دلچسپی لیتا ہے اسے اس کی عمر اس کی جسامت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا وہ ایک نقطہ بچہ ہے وہ بچہ جو ہر چیز حاصل کرنا چاہتا ہے چاہے اس کے پاس ہر نعمت موجود ہو اب یہ عورت پہ منحصر ہے کہ اسے ڈپٹ کر بھگا دے یا اس کی لالچ کا فائدہ اٹھائے اور اس کی لالچ کا فائدہ اٹھاتے اٹھاتے اپنا نقصان کر بیٹھے۔

ہرطرف واقعات کا انبار ہے۔

جب منٹو ”ٹھنڈا گوشت“ لکھتا ہے تو اسے پڑھنے کے لئے ہر گھر پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ لیکن پھر جب یہ خبر آتی ہے کہ قبر کے پاس عورت کی برہنہ لاش ملی اسے قبر سے نکال کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو منٹو بہت یاد آتا ہے۔

اتنے حساس معاملات پہ لکھنے والوں کو لوگ آزاد خیال بے شرم اور لبرل جیسے القابات سے نوازتیں ہیں شاید ہی کبھی تحریر کو چسکے سے زیادہ لیا گیا ہو۔ دماغوں کو ایسی حدود میں قید کر دیا گیا ہے کہ انہیں کھولنے کے لئے الیکٹرک شاک دینا پڑے۔

آپ کیا اخذ کرتے ہو یہ آپ پر ہے میرے نزدیک ہم اپنی اخلاقی روایات سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے ہم اپنے آس پاس موجود رشتوں اور تعلق رکھنے والے افراد کو غیر متناسب مقام دیتے رہیں گے ہمیں معاشرے میں بگاڑ نظر آئے گیں۔

اگر گلی محلے قبرستان محفوظ نہی تو امیر طبقہ بھی ان واقعات سے محفوظ نہیں۔ جسے آپ زیادتی کہتے ہیں اسے پوش علاقوں میں ہراسمنٹ کہتے ہیں غریب کی بچی بچے کی خبر اخبار کی زینت بنتی ہے جبکہ امیر طبقہ ایسے واقعات کو دبا دیتا ہے۔

یہ نفس کی جنگ روز اول سے ہے تا قیامت رہے گی۔ اسے ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن اخلاقی اقدار کے دائرے متعین کر لینے سے روک تھام کی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments