لندن کا عجائب خانہ ہجرت (1)


جب ہم لندن کے علاقے لیؤشام پہنچے تو ساڑھے تین بج چکے تھے۔ ٹھیک پانچ بجے یہ مائیگریشن میوزیم بند ہوجاتا ہے۔ مختصر وقت میں نمائش کے لئے رکھے جن عجوبوں نے ہماری توجہ کھینچ لی ان کا احوال نذر قارئین ہے۔

میوزیم کے ماحول کو دلچسپ بنانے کے لئے داخلے کے ساتھ دو کاؤنٹر بنے ہوئے ہیں جن پر ائرپورٹ کی طرح ارائیول اور ڈیپارچر لکھا گیا ہے۔ آمد کے کاؤنٹر پر پولش نژاد آنا معاونت کے لئے موجود ہے اس نے ہمیں بتایا کہ اس انوکھے میوزیم کے قیام کا خیال لیبر پارٹی کی سابقہ رکن پارلیمنٹ باربرا روش کو آیا جن کے والدین دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنی کے ہولوکاسٹ سے بچ کر اس ملک میں آ بسے تھے۔ آنا نے ہمیں قدیم انسانی ہجرتوں اور پچھلے چار سو سالوں کی ہجرت میں فرق کے بارے میں بھی بتایا۔

انسانی تہذیب اور ہجرت کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ سولہویں صدی میں انگلستان اور کئی دیگر یورپی اقوام میں ایک نئے معاشی نظام کی ابتدا ہوئی جسے دنیا اب سرمایہ داری نظام کے نام سے جانتی ہے۔ ان ملکوں کی پالیسیاں جو پہلے جاگیرداروں کے مفادات کی پرتو تھیں بدل گئیں۔ چھوٹے بڑے سفینوں پر سوار مہم جو دوردراز علاقوں میں اپنی قسمت آزمانے اور نئی دنیا بسانے نکل کھڑے ہوئے۔ سرمایہ داری سے قبل دوسری اقوام کو تسخیر کرنے کے مقاصد اور مضمرات مختلف ہوتے تھے۔ یہی وہ سرمایہ دار ممالک تھے جنہوں نے محکوم علاقوں کو نوآبادیات بنایا اور ایمپائر قائم کیں۔

نامراد نسلیں۔ ونڈرش
میوزیم کے ایک کمرے میں ایک ترتیب سے لگی ہوئی تصاویر نے یہ کہانی سنائی۔

22 جون 1948 ء کی کہر آلود صبح ہے۔ ایک بڑا سا بحری جہاز جس پر ایمپائر ونڈرش لکھا ہے لندن کے قریب لنگر انداز ہو رہا ہے۔ اس سفینے پر سوار مسافر اتنے اہم ہیں کہ ساحل پر اس کی آمد سے ایک روز قبل ہی لندن کے اخبار ایوننگ سٹینڈرڈ نے باقاعدہ ہوائی جہاز بھیج کر فضائی تصاویر حاصل کرلی ہیں جو آج کے اخبار کے صفحۂ اول پر شائع کی جائیں گی۔ ”ایمپائر کے بچے گھر آرہے ہیں“ ایک اخبار نے شہ سرخی لگائی۔ یہ بچے کون ہیں؟ یہ وہی نامراد نسل ہے جسے ستر سال بعد ونڈرش کا سایہ بھوت بن کر ڈرائے گا۔

1945 ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جب برطانیہ کی نو آبادیات ایک ایک کر کے آزاد کی جانے لگیں تو یہ بحث بھی چھڑ گئی کہ تمام سابقہ محکوم اقوام کو بھی یہاں آ کر رہنے اور کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس غرض سے 1948 ء کا برطانوی شہریت کا ایکٹ بنایا گیا جو نوآبادیاتی باشندوں کو یہ حق تفویض کرتا تھا۔

یہ وہی وقت تھا جب برطانوی معیشت سنبھلنا شروع ہو رہی تھی اور نوجوان اور نسبتاً غیر ماہر لیبر کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ اس غرض سے لائی جانے والی انسانوں کی پہلی کھیپ ایمپائر ونڈرش سے لندن پہنچی جو دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی طرف سے لڑنے والے سابقہ جمیکن فوجیوں پر مشتمل تھی۔ یہ فوجی برطانوی سلطنت کے ساتھ لڑنے والی دیگر تمام نسلوں اور قومیتوں کے فوجیوں کی طرح برطانیہ کو اپنی ماں قرار دیتے تھے اور آج ان کی خوشی اور شادمانی کا وہی عالم تھا جو ماں کی گود میں چڑھنے والے بچوں کا ہوتا ہے۔ 1948 سے 1970 تک برطانیہ پہنچنے والے ہندوستانی سکھوں، پاکستانی کشمیریوں اور مختلف الاقوام سیاہ فام باشندوں کو جنہوں نے اس ملک میں ڈاکخانہ، ٹرین، انڈر گراؤنڈ، بسوں اور صنعتوں کو بنیادی افرادی قوت فراہم کی ونڈرش نسل کہا جاتا ہے۔

برطانیہ میں ان ”رنگ دار“ شہریوں کی اتنی بڑی تعداد میں آمد سے یہاں کا نسلی توازن بدلنے لگا۔ تعصب کا شکار تو غیر برطانوی سفید فام اور آئرش اور اسکاٹش بھی بنتے آ رہے تھے لیکن سیاہ فام اور بھوری رنگت کے خلاف نفرت ابھارنا زیادہ آسان تھا۔ ایمپائر ونڈرش کے لندن اترنے کے ٹھیک دس سال بعد لندن کے ہی ایک علاقے نوٹنگ ہل میں پہلے نسلی فسادات ہوئے۔ اس کے بعد نسلی فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جن میں سے آخری آج سے دس سال قبل پیش آیا۔

نسل کی بنیاد پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے برطانوی شہریتی قانون میں اب تک کئی ترامیم کے ذریعے بیرونی افراد کے داخلے پر نت نئی قدغنیں لگائی جا چکی ہیں۔ 2014 ء میں اس وقت کی وزیر داخلہ تھریسا مے نے نئی امیگریشن پالیسی متعارف کرائی جس نے کسی بھی شخص کی برطانوی شہریت سے محروم کرنے کی راہ ہموار کردی۔

پاولیٹ ولسن جو دس برس کی عمر میں جمیکا سے برطانیہ پہنچیں کا تعلق بھی ونڈرش نسل سے تھا۔ پچاس سال تک برطانیہ کو اپنا وطن سمجھنے، لندن میں نوکری کر کے ٹیکس ادا کرنے والی پاولیٹ کو 2015 ء میں وزارت داخلہ سے آنے والے ایک خط سے پتہ چلا کہ اب اس کی حیثیت غیر قانونی مہاجر کی ہے چنانچہ اس کی پینشن بند کی جاتی ہے اور صحت اور رہائش سمیت تمام حقوق معطل ہیں۔ پاولیٹ نے اس زیادتی کے خلاف احتجاج اور سرکار کے ساتھ جوابی مراسلہ نگاری شروع کی لیکن 2017 میں اسے گرفتار کر کے ہیتھرو ائرپورٹ پہنچا دیا گیا تاکہ زبردستی جمیکا لے جایا جاسکے لیکن بالکل آخری لمحات میں ایک رکن پارلیمان کی مداخلت پر اس کی برطانیہ سے روانگی روک لی گئی۔ اخبارات میں اس طرح کے سینکڑوں کیسز رپورٹ ہونے سے ونڈرش اسکینڈل سامنے آیا۔ جس پر باقاعدہ برطانیہ کی وزیر اعظم کو تمام متاثرین سے معافی مانگنی پڑی۔ یاد رہے کہ اب تک یہ معاملہ پوری طرح حل نہیں ہوسکا ہے۔

میں یہ سب پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اگر اخبارات صرف مثبت رپورٹنگ کر رہے ہوتے، نام نہاد کہلانے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں چپ ہو کر بیٹھی رہتیں اور مخصوص قوتیں پاولیٹ کو لبرل اور غیر محب وطن قرار دینے میں آزاد ہوتیں تو کیا یہ اسکینڈل دنیا کے سامنے آ پاتا؟

روانگی

اس کاؤنٹر پر ہماری رہنمائی کرنے کے لئے سیاہ فام ریان موجود ہیں جن کے دادا نے ویسٹ انڈیز سے ہجرت کی تھی۔ وہ ہمیں دوسری طرف لے گئے جہاں چھوٹے چھوٹے کمروں میں تصاویر اور پراجیکٹر کی مدد سے ذرا مختلف کہانیاں سنائی جا رہی تھیں۔

مئے فلاور

بالکل اسی طرح جیسے ایمپائر ونڈرش کی تاریخ آمد تاریخ میں امر ہو گئی ہے اسی طرح برطانیہ میں مذہبی تعصب سے بچنے کے لئے فرار ہونے والے انگریز تارکین وطن سے بھرے بحری جہاز مے فلاور کی 21 نومبر 1620 کو میسا چوسٹس لنگر اندازی بھی جدید ہجرت کا انتہائی اہم واقعہ سمجھا جاتا ہے۔ سفید فام افراد کے یہی جتھے تھے۔ جنہوں نے نئی دنیا New World کہلانے والے اس علاقہ میں برطانوی نوآبادیات قائم کیں بالآخر 1776 ء میں برطانیہ سے آزاد ہو کر ایک نیا ملک وجود میں آ گیا جسے ہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نام سے جانتے ہیں۔

نوجوان انگریز خواتین جو نوکرانیاں بن کر کینیڈا گئیں

ایک شیلف پر اشتہارات سجے ہوئے ہیں جن میں نوجوان برطانوی خواتین کو کینیڈا میں موجود مواقع کے بارے میں بتا کر وہاں جانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ایسے محسوس ہوا جیسے انتہائی غریب ممالک سے گھریلو خدمت گار بن کر امیر خلیجی ریاستوں میں جانے والی خواتین کا ذکر ہو۔

آپ یقین کریں گے کہ ایک لاکھ پینسٹھ ہزار خواتین برطانیہ چھوڑ کر تن تنہا دوسرے ممالک گئیں!
جھوٹ بول کر آسٹریلیا بھیجے گئے یتیم بچوں کا المیہ
ایک چھوٹے سے ہال میں کئی تصویریں لگی ہیں اور پراجیکٹر پر فلم بھی چل رہی ہے۔

اینی میکفرسن جو ایک امیر خاتون اور عیسائی تحریک ایونجلیکل کویکر سے وابستہ تھیں نے 1869 ء میں انگلستان سے یتیم بچوں کو آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ممالک میں بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا جو پھر تقریباً ایک سو سال تک جاری رہا۔ تین سال سے سترہ سال کے ان بچوں کو بہتر زندگی، اعلی تعلیم اور روشن مستقبل کے خواب دکھا کر بیرون ملک لے جایا گیا۔

1986 ء میں مارگریٹ ہمفری نامی برطانوی سوشل ورکر کو آسٹریلیا بھیجی جانے والی ایسی ہی ایک یتیم مہاجر بچی کا خط موصول ہوا جو کہیں سے اپنا برتھ سرٹیفکیٹ حاصل کرنا چاہتی تھی۔ مارگریٹ نے تحقیق کی تو جیسے ایک پنڈورا بکس کھل گیا۔ معلوم ہوا کہ اس اسکیم کے تحت کم و بیش ڈیڑھ لاکھ بچے آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور رہوڈیشیا بھیجے جا چکے ہیں جہاں ان کے ساتھ ہر طرح کا جسمانی، جنسی اور مالی استحصال کیا گیا۔ یہ تکلیف دہ انکشاف بھی ہوا کہ بہت بڑی تعداد میں یہ بچے یتیم بھی نہ تھے بلکہ ان کے والدین کی غربت کے پیش نظر انہیں ان کی گود سے چھین کر سمندر کے اس پار پہنچا دیا گیا۔ یہ روح فرسا تفصیلات جب اخباری رپورٹس، کتابوں اور کئی فلموں کی صورت میں عوام تک پہنچیں تو 2009 میں آسٹریلوی وزیر اعظم اور 2010 میں برطانوی وزیر اعظم کو اپنی پچھلی حکومتوں کی اس بے حس اور ظالمانہ پالیسی پر باقاعدہ متاثرین سے معافی مانگنی پڑی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments