کشمیر میں فوٹوگرافی کا شوق


فوٹوگرافی کے شوق نے مجھے سارا آزاد کشمیر دکھا دیا۔ میں اس کے عشق میں دن بدن مبتلا ہوتا چلا گیا۔ مجھے جنت نظیر یا جنت جیسے کا مطلب سمجھ نہیں آتا تھا۔ اور اس کو سمجھنے کے لئے میں بار بار آزاد کشمیر گیا۔ کبھی میر پور آزاد کشمیر، کبھی مظفر آباد، کبھی نیلم ویلی، کبھی لیپہ ویلی، کبھی باغ، کبھی راولاکوٹ، کبھی بھمبر، کبھی باغ سر فورٹ، کبھی سدھن گلی، کبھی سمہانی سارا آزاد کشمیر گھومتا رہا تصویریں بناتا رہا اور اس کے سحر میں جکڑتا چلا گیا۔ ایک سے بڑھ کر ایک جگہ تھی۔ جب میں پہلی دفعہ کیل اور تاو بٹ گیا تو میں وہیں کا ہو کر رہا گیا۔ پھر اگلی دفعہ میں اڑنگ کیل گیا تو مجھے آج تک یقین ہی نہیں آیا کہ یہ اصل دنیا ہے میں نے کبھی خواہش نہیں کی تھی جنت یا دوزخ بارے اس دن سوچا اگر جنت ایسی ہوگی تو میں پھر پوری کوشش کروں گا کہ جنت میں ہی جاؤں۔

میں پہاڑوں، آبشاروں، درختوں، دریا کے سحر سے ہی نہیں نکل سکا۔ پھر جب 2005 کا زلزلہ آیا تو اس نے آزاد کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا بہت جانی اور مالی نقصان ہوا میں اس وقت میں بھی کشمیری بھائیوں کے ساتھ تھا اور آج بھی ہوں۔ مجھے پاکستان میں کبھی اتنی خوبصورتی نظر نہیں آئی تھی اور جو نیلم ویلی کے لوگوں کی سادگی اور بھولا پن اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ میں مختلف اداروں کے لئے ڈاکیومینٹری فلمیں بنانے بھی گیا اور میں نے خوب کشمیر دیکھا سفید مکئی اور پن چکی کو بھی چلتے دیکھا۔

زلزلے کی مصیبت کی گھڑی میں میں نے ان کو مسکراتے بھی دیکھا۔ اسلام آباد کے ہسپتالوں میں شدید زخمی بچوں اور بڑوں کو بھی دیکھا جو ہمیشہ مسکرا کر ملتے تھے۔ یہ محبت جاری تھی کہ میری ملاقات میر الیاس سے ہوئی جو مقبوضہ کشمیر سے ہیں اور پڑھنے پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ فوٹوگرافی میں میرے شاگرد ہیں بعد میں ان سے دوستی ہو گئی۔ پھر ہم نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی میں ساتھ ساتھ پڑھاتے بھی رہے اور میں ان کو آزاد کشمیر کی خوبصورتی بیان کرتا تو وہ زیر لب مسکراتے رہتے۔

کبھی مجھے لگتا کہ شاید طنز کر رہے ہیں۔ ایک دن کہہ ہی دیا میر صاحب مجھے آپ کی یہ عادت پسند نہیں ہے کہنے لگے سر جی آپ اگر ایک دفعہ مقبوضہ کشمیر کو دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو وہ کتنا خوبصورت ہے اس کا کا اس سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ اس لئے مسکراتا ہوں کہ اصل خوبصورتی تو آپ نے ابھی تک دیکھی ہی نہیں۔ اب میری تشنگی بڑھنے لگی درخواست کی میر صاحب کیا میں ویزہ لے کر مقبوضہ کشمیر جا سکتا ہوں تو کہنے لگے استاد جی آپ کو تو لے جا سکتے ہیں پر آپ کے کیمرے نہیں جا سکتے کیا مطلب۔

استاد جی میں وہاں کا رہائشی ہوں وہ مجھے کیمرہ نہیں لے جانے دیتے آپ کو کہاں اجازت ملے گی۔ میرے دل میں خواہش جاگ اٹھی کہ میں مقبوضہ کشمیر میں ایک دن فوٹوگرافی کرنے ضرور جاؤں گا جب اس کو بتایا تو میر صاحب کہنے لگے استاد جی پر کیسے۔ میں نے کہا میر صاحب فوٹوگرافی کے لئے آج تک جن جن جگہوں کی اللہ تعالی سے درخواست کی اس نے قبول کی، وہ سیاچن ہو، وہ گوادر ہو، وہ وزیرستان ہو، وہ زرغون ہو، وہ چولستان ہو، وہ تھرپارکر ہو، وہ فورٹ منرو ہو، وہ فیر میڈوز ہو، وہ خنجراب ہو، وہ شنگریلا ہو جو سوچا میرے اللہ نے پہنچا دیا، میرے الفاظ یاد رکھنا مقبوضہ کشمیر جس دن آزاد ہوگا وہاں جانے والا پہلا فوٹوگرافر محمد اظہر حفیظ ہوگا۔

اور کشمیر پاکستان ہوگا میر صاحب میرے عزم اور یقین کو دیکھ رہے تھے اور ان کو بتا دیا یہ کسی اور کے لئے ہو نہ ہو پر میرے لیے میری فوٹوگرافی کے لئے انشاءاللہ آزاد ہوگا اور میری زندگی میں ہی ہوگا۔ انشاءاللہ جلد ہی مجھے آئی ایس پی آر سے کال آئے گی۔ کیا مصروفیت ہے آج کل کیوں کشمیر جانا ہے آپ کو کیسے پتہ چلا میں انتظار کر رہا تھا۔ جب کہیں۔ دیکھیں زیادہ دن لگیں گے سارا کشمیر کور کرنا ہے۔ حاضر جناب

میں کل سے ٹریل فائیو پر جانا شروع کر رہا ہوں تاکہ وہاں پہاڑ چڑھنے میں دشواری نہ ہو۔ بس ایک کال کا انتظار ہے۔ سری نگر کون سا دور ہے۔ پھر میں اور کشمیر جنت نظیر ایک ہونگے اور ساتھ میر الیاس بھی ہوگا اور میری دوست مشال ملک بھی ہوگی۔ ان کا یسین ملک صاحب کے ساتھ فوٹو شوٹ بھی کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments