ڈیجیٹل درباری


ہم سب اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہماری موجودہ نسل میں قابلیت اور لیاقت کے وہ جوہر موجود ہیں جن کے نشانات اہل مغرب میں دور دور تک نہیں ہیں۔ ہم اس لیاقت اور قابلیت کے اظہار کے لئے ایک مخصوص لفظ۔ ”جگاڑ“ استعمال کرتے ہیں۔ پاکستانی جہاں جگاڑ میں بہت آگے ہیں وہاں ہمارے لوگوں میں ایک اور خصوصیت بھی پائی جاتی ہے کہ ہم ہر نئی ایجاد سے بھر پور لطف اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس کا کباڑا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجاد کے ساتھ جیسے جیسے لوگوں میں فاصلے کم ہوتے گئے، ویسے ہی ہم نے بھی سماجی اور معاشرتی فاصلوں کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ اس ڈیجیٹل ایجاد سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور اس شعبے میں اپنے نام کے جھنڈے گاڑنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے میدان عمل میں آتے ہی، ہم نے اپنے جوہر کیسے دکھائے؟

برصغیر پاک و ہند میں سیکڑوں سال سے قائم بادشاہت نے اس خطے کو سائنسدان، انجنئیر، ڈاکٹر اور با صلاحیت افراد بے شک نہ دیے ہوں مگر ایسے درباری کثیر تعداد میں دیے ہیں جن کی روزی روٹی بادشاہوں کی قصیدہ گوئی سے وابستہ ہے۔ راوی لکھتا ہے کہ مغل شہنشاہ اکبر کے دربار میں خوشامد ایک روایت بن چکی تھی۔ ایک دفعہ بادشاہ نے بینگن کھائے تو کھانے کے بعد بہت خوش ہوا تو درباریوں نے بھی بینگن کی تعریف کے پل باندھ دیے۔ دوسرے دن بادشاہ نے جب بینگن کھائے تو اس کے پیٹ میں گڑ بڑ شروع ہو گئی۔

بادشاہ نے کہا کہ یہ تو ایک خراب سبزی ہے۔ درباریوں نے پھر ہاں میں ہاں ملانا شروع کی۔ اکبر نے جب یہ سنا تو اپنے نو رتنوں میں سے ایک رتن بیربل سے پوچھا کہ کل تو اس کی تعریف کی جا رہی تھی اور آج اس کی برائیاں کی جا رہی ہیں۔ بیربل نے بادشاہ سلامت سے عرض کیا کہ ہم تو بادشاہ کے غلام ہیں بادشاہ نے کہا کہ اچھی سبزی ہے۔ ہم نے تعریف شروع کردی۔ بادشاہ نے فرمایا کہ بینگن ایک خراب سبزی ہے تو ہمیں بینگن سے کیا لینا دینا، ہمارے مائی باپ تو آپ ہیں۔

تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ ایک بادشاہ سلامت کے دربار میں اس کے وزراء اور مشیران کرام کی کثیر تعداد موجود ہوتی تھی جو حسب حیثیت بادشاہ سلامت کی ہاں میں ہاں ملانے کے لئے ہر وقت موجود ہوتے تھے۔ جہاں خدام مورچھل سے عالی جاہ کی ٹھنڈک کے سامان کر رہے ہوتے تھے، وہاں ظل الہی کے ذوق کی تسکین کے لئے خوبصورت حسینائیں بھی پیچھے نہیں رہتی تھیں۔ وقت گزرتا گیا، بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی۔

جمہور پسند حکمرانوں نے اپنی ذاتی انا اور ذوق کی تسکین کے لئے نہ صرف محلات کی خادماؤں کو اعلیٰ عہدوں سے نوازا بلکہ اپنی دل بستگی کے سامان بھی پیدا کر لئے۔ بازار حسن ختم ہو گئے۔ طوائفیں اور دلال پوش علاقوں میں آباد ہو گئے۔ شرفاء کا لبادہ اوڑھا۔ ہاتھ میں گلدستہ تھاما، کوئی چھوٹا موٹا تحفہ لیا اور بڑے صاحب کے کمرے میں جا دھمکے۔ ایک دو سیلفیاں لیں اور سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کر دیں۔ صاحب بھی اس جائز خوشامد پر بے انتہا خوش اور درباری بھی رعایا کو مرعوب کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب صاحب سلامت کو تو یہ علم نہیں کہ اس سیلفی سے درباری نے کیا فائدہ اٹھانا ہے۔ حال ہی میں میرے سامنے سے بہاولپور کے ایک نوسر باز کی گرفتاری کی خبر گزری، جو افسران اعلیٰ کے ساتھ ان سیلفیوں کو وائرل کر کے عوام سے مختلف حیلوں بہانوں سے رقم اینٹھ لیتا تھا۔

موجودہ دور کے یہ ڈیجیٹل درباری ہمیں ہر شعبہ زندگی میں ملتے ہیں۔ سیاست ہو یا صحافت، دفتر ہو یا بازار، ان کا کام عام درباریوں سے قدرے مختلف ہے، ان کی خوشامد کے انداز بھی وکھرے ہیں۔ یہ آپ کی ناقص کار کردگی کو بہترین کارکردگی میں بدل سکتے ہیں۔ آپ ایک ہی لمحے میں ایک دیانتدار، امن پسند اور منصف افسر کے ساتھ ساتھ شفیق اور دبنگ افسر بن سکتے ہیں۔ اپنے مقصد کے حصول کے لئے، آپ کو اب کوئی پبلک ریلیشن افسر تعینات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

آپ صرف ایک کام کریں، اپنے ارد گرد موجود خوشامدی اور درباری لوگوں کو پہچانیں اور ان کے ساتھ مختلف اوقات میں ایک خوبصورت ماڈل جیسی مسکراہٹ دیتے ہوئے سیلفی بنوا لیں۔ اگر آپ کے ارد گرد کوئی ایسا فرد موجود نہیں تو ایک کام اور کریں، تھوڑا سا اپنی جیب کو ہوا لگوائیں۔ ایک خوشامدی قسم کی این۔ جی۔ او تلاش کریں اور اس کے کرتا دھرتا افراد کو ایوارڈ اور فنکشن کے خرچے کی مد میں قائد اعظم کی تصویر والے چند کاغذ دیں۔ فنکشن والے دن آپ کے ارد گرد نہ صرف سیلفی بنانے والوں کا رش ہو گا بلکہ کچھ نام نہاد دانشور اور فلاسفر بھی آپ کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے کے لئے ہر جگہ موجود ہوں گے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی دفتر، محکمے یا احباب کی محفل میں خوشامدیوں اور درباریوں کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کے بغیر کام بہتر طور پر چل سکتا ہے، پھر بھی یہ ہر جگہ اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لئے کمر بستہ رہتے ہیں۔ پہلے یہ مختلف روپ میں موجود ہوتے تھے، یہ شاعر بھی ہوتے تھے، نثر نگار بھی، تاریخ دان بھی، فنکار بھی، تخلیق کار بھی، یہاں تک زندگی کے ہر کردار کا روپ بدل کر موجود ہوتے تھے لیکن بھلا ہو ڈیجٹل دور کا، اب آپ کو اپنی تعریف اور خوشامد کے لئے شاعر، نثر نگار، تاریخ دان، فنکار اور تخلیق کار ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں، اب کاپی پیسٹ کی بدولت یہ سارے کام ایک فرد بھی انجام دے سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ سچا اور کھرا خوشامدی ہو۔

سیاست ہو یا صحافت، دفتر ہو یا کسی بڑے صاحب کا گھر ہمارے ملک میں درباری حضرات کی کوئی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ درباری اور خوشامدی نہ صرف ہر فن مولا ہوتے ہیں بلکہ انتہائی چرب زبان اور حاضر جواب بھی ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں ایک درباری، خوشامدی کے گھر میں انڈوں سے چوزے نکلے اور ”بادشاہ سلامت زندہ باد“ کے نعرے لگانے لگے درباری نے وہ چوزے شاہی محل میں پہنچا دیے۔ دوسرے دن بادشاہ نے غضب ناک ہو کر پوچھا: ”یہ کیا گستاخی ہے!

یہ چوزے کیا بک رہے ہیں؟“ درباری نے بادشاہ سلامت کو اقبال کی بلندی کی دعا دیتے ہوئے بتایا کہ وہ زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ جب چوزے دربار میں منگوائے گئے تو چوزے ”بادشاہ سلامت مردہ باد“ کا نعرہ لگانے لگے۔ گھبراہٹ میں درباری کو کوئی اور بات نہ سوجھی تو جلدی سے بولا ”حضور! میرے گھر میں تو یہ چوزے زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے مگر اس وقت تک ان کی آنکھیں نہیں کھلی تھیں“ ۔ درباری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انتہائی کے ڈھیٹ بھی ہوتے ہیں۔

بے شک آپ جتنے چالاک اور اور فرد شناس انسان ہوں، یہ لوگ آپ کی کسی نہ کسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خوشامد کا عنصر ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ دیکھا جائے تو یہ کسی بھی معاشرے اور فرد کے لئے ایک زہر قاتل سے کم نہیں ہیں لیکن بندہ بشر ٹھہرا میاں مٹھو، جو نہ صرف اپنی تعریف کو پسند کرتا ہے بلکہ اگر طاقت کے زعم میں مبتلا ہو تو کوشش کرتا ہے مغل شہنشاہ اکبر کی طرح اپنے ارد گرد نو رتن کا جمگھٹا لگا کر رکھے تاکہ اس کی انا کو تسکین ملنے کے ساتھ ساتھ رقیب بھی حسد میں مبتلا ہو جائیں۔

میرے خیال میں فی زمانہ اگر آپ نے اپنے کام کی تشہیر کرنی ہے اور چاہتے ہیں کہ اعلیٰ افسران، آپ کی کار کردگی سے نہ صرف مطمئن رہیں بلکہ آپ کی اکر گزاری کی تمام رپورٹ ان تک پہنچتی رہے تو آپ سوشل میڈیا کا سہار لے سکتے ہیں اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے اپنے ارد گرد ایک ایسا ٹولہ تشکیل دیں جو آپ کی کارکردگی کا تصویری ثبوت سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا رہے، امید واثق ہے کہ آپ جلد ہی اپنے شعبے میں اقتدار کے سنگھاسن پر برا جمان ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments