عورتوں سے زیادتی کے بڑھتے کیسز


1400 سال سے زائد عرصے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج عورتوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ انتہائی قابل افسوس اور جس حد تک یہ حیوانیات بڑھتی جا رہی ہے دوران ماہ اگست میں لاہور سمیت پاکستان میں لڑکیوں اور عورتوں کو انسانی شکل میں جو حیوانات موجود ہے انھوں نے کے گھناؤنی حرکت کر کے اپنی ہوس کا شکار بنایا ہے وہ انتہائی قابل افسوس ناک ہے جتنی مذمت کی جائے کم ہے مجھے بطور مرد شرم محسوس ہوتی ہے اور میں گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ مرد تو عورت کے لیے ایک حفاظتی شیلڈ کی طرح ہوتا ہے یہ کس قسم کے مرد ہے جو اپنی ہوس کی آگ بجھانے کے لیے معصوم لڑکیوں اور عورتوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

مجھے حیرانی ہوتی ہے اس معاشرے کے ان لوگوں پر جو ظلم ہونے کے بعد مظلوم کا ساتھ دینے کی بجائے اس کی کردار کشی شروع کر دیتے ہیں اور اس کے کپڑوں اور ذاتیات پر بحث شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ کس کی طرف جا رہا ہے؟ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہے یا پھر مظلوم کی کردارکشی کر کے گھناؤنی حرکت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے؟ بظاہر تو اکثریت عورت کو ہی قصور وار ٹھہراتے نظر آتے ہیں کہ مرد کے بغیر بازار کیوں گئی اتنی رات کو کیوں گئی وغیرہ وغیرہ۔

تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہٴ دراز سے عورت مظلوم چلی آ رہی تھی۔ یونان میں، مصر میں، عراق میں، ہند میں، چین میں، غرض ہر قوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنے عیش و عشرت کی غرض سے خریدوفروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی برا سلوک کیا جاتا تھا۔ اسلام کی آمد سے قبل زمانہ جاہلیت میں اہل عرب عورت کے وجود کو موجب عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔

ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا عرب کے علاقوں میں لڑکی کی پیدائش کے بعد اسے زندہ دفنا یا جلا دیا جایا کرتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی خدا تعالیٰ کو ضرورت محسوس ہوا تو بانی اسلام حضرت محمدﷺ کی ولادت ہوئی اور پھر آپﷺ نے خدا تعالیٰ کے حکم و فضل سے دنیا میں تاقیامت زندہ رہنے والے مذہب دین اسلام کا پرچم لہرایا اور لوگوں کو زمانہ جاہلیت سے نکالنے کی کوشش کا آغاز فرمایا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لے تو ہمیں پتہ چلاتا ہے کہ اسلام دنیا کا واحد ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت و پستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گوارا کرنے سے بھی انکار کیا جا رہا تھا۔ آپﷺ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالا۔ اور اس زندہ دفن کرنے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے اور قومی و ملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپیں۔

ایک مشہور نعرہ ہے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ہے مگر کیا آج ہم واقعی اس کا مطلب پورا کر رہے ہیں؟ آزادی کے مہینے میں ہونے والے مینار پاکستان سمیت دیگر تمام زیادتی کے واقعات نے اس نعرے کی اہمیت پر اور ہمارے معاشرے کے لیے بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ کیا خواتین کے لیے پارکس محفوظ ہے؟ کیا خواتین کے لیے رکشہ ڈرائیور محفوظ ہے؟ کیا خواتین کے لیے جاب انٹرویو کے لیے جانا محفوظ ہے؟ کیا خواتین کا سوشل میڈیا کا استعمال محفوظ ہے؟

کیا خواتین اپنے ہی گھروں میں محفوظ ہے؟ خواتین کس پر بھروسا کرے؟ شوہر پر کرے؟ بھائی پر کرے؟ کس پر کرے؟ ہر رکشہ والا خواتین کو باجی کہہ کر پکارتا ہے، جاب انٹرویو پر جانے والی لڑکی سر یا بھائی کہتی ہے۔ تو ہم نے کیا کیا ان کے ساتھ؟ رکشہ والے نے ساتھی کے ساتھ مل کر ماں بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ جاب انٹرویو پر آئی لڑکی کو گروپ نے زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ یہ اہمیت ہے رشتوں کی؟ یہ ہم نے مان پورا کیا؟

اس طرح کے جب واقعات ہوتے ہیں تو یہ بہت اثر انداز ہوتے ہیں ایک پہلو تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ خبردار ہو جاتے ہیں پولیس اور دوسرے محکمے حرکت میں آ جاتے ہیں اور دوسرا وہ پہلو ہے جو شاید سب سے زیادہ خطرناک ہے وہ جو مستحق خواتین کے لیے مزید مشکلات میں اضافہ۔ جو خواتین جاب کرنا چاہتی ہے اپنے مستقبل کے حوالے سے زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کیوں کہ اہل خانہ معاشرے میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے ان کو زندگی اور مستقبل بنانے کی کی دوڑ سے باہر نکال دیں گے۔

کئی خواتین کے خواب صرف اس وجہ سے چھین لیے جائے گے کہ معاشرے کے حالات ٹھیک نہیں ہے۔ یہ نہیں کرنا، وہ نہیں کرنا، ادھر نہیں جانا، وہاں نہیں جانا، گھر والوں کی فکر بے شک ٹھیک ہے مگر ان خواتین کا کیا قصور ہے جو اس معاشرے میں مرد کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس ملک و قوم کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہتی ہیں؟ اس معاشرے کو اب صرف ایک ہی چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے ’تربیت‘ کی۔ اس کے لیے والدین یعنی ماں اور باپ دونوں کو اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کریں۔

کیوں کہ چھوٹے بچے زیادہ وقت ماں کے ساتھ گزارتے ہیں اور باپ فکر معاش میں مصروف ہوتا ہے تو خواتین کو چاہیے اپنے بچوں کی تربیت کرے اور باپوں کو بھی چاہیے وہ اپنے بچوں کی حرکتوں پر نظر رکھیں کہ وہ تربیتی لحاظ سے کس طرف جا رہے ہیں نیز کہ والدین کو اپنے بچوں کو اپنی تہذیب و تمدن کے بارے میں بتائے، اسلامی معاشرے میں رہن سہن کے طور طریقے بتائے سب سے اہم کہ اپنے آبا و اجداد کے بارے میں بتائے تاکہ بچوں کو پتہ چلے کہ ان کا اصل کلچرل کیا ہے وہ کس تہذیب و تمدن سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرا اس بات پر مکمل یقین ہے کہ اگر والدین دونوں مل حقیقی معنی میں اپنی بچوں کی تربیت پر توجہ دے گے تو ان کی آنے والی نسلیں سنور جائے گی اور ایک بہترین معاشرے کا قیام ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments