پنجاب کالج اور پروفیسر کی موت


اب انسانی جان کا مول بھی مارکیٹ کا بھاؤ تاؤ دیکھ کر لگایا جاتا ہے۔ کسی کمشنر کا کتا گم ہو جائے تو خبر مین سٹریم میڈیا میں آجاتی ہے اور کئی کئی بار دہرائی جاتی ہے اور کہیں مجبور پروفیسر، ظالم پرنسپل کے ستم کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتا ہے تو کوئی خبر ہی نہیں بنتی۔ میں نے کچھ عرصہ قبل بھی عوام کی آنکھوں سے پرائیویٹ مافیا کی باندھی ہوئی کالی پٹی ہٹائی تھی مگر لوگ کب یقین کرتے ہیں جب تک اپنا نقصان نہ کروا لیں جس کا خمیازہ انہیں صدیوں اور نسلوں تک بھگتنا پڑے۔ پنجاب کالج سرگودھا اس وقت پنجاب گروپ آف کالجز کا ایک بڑا ادارہ ہے۔ ادارے محنت سے ہی اپنا نام بناتے ہیں مگر جب یہ محنت اتنی خونخوار ہو جائے کہ اس سے انسانی جانوں کا زیاں ہونے لگے تو سمجھ لیں کہ کسی نئے فرعون کا جنم ہو چکا ہے جو اپنا اہرام بنانے کے چکر میں لوگوں کو زندگیوں کو داؤ پر لگا رہا ہے۔

گزشتہ روز 28 اگست 2021 کو پنجاب کالج سرگودھا کے ایک پروفیسر اسد منیر صاحب جو سرگودھا یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالر بھی تھے ایسے ہی پرنسپل راؤ آ صف کے ستم کا نشانہ بنتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ پنجاب کالج میں پرنسپل میں سٹاف کی چھٹی سختی سے بند کی ہوئی ہے۔ لوگ مجبوری کی حالت میں بھی کام کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کی روزی روٹی کا مسئلہ ہے۔ ریاستی بے روزگاری نے صورتحال یہ بنا دی ہے کہ 30,40 ماہانہ والی پرائیویٹ نوکری کئی لوگوں کے پیٹ پال رہی ہے۔ اسد منیر صاحب کے بوڑھے والد بیمار تھے۔ بحالت مجبوری انہوں نے کالج سے باقی وقت کی چھٹی مانگی تاکہ والد کو ڈاکٹر کے پاس لے جاسکیں۔ مگر پرنسپل نے چھٹی دینے کی بجائے ایک کلاس اور پڑھانے کا حکم دے دیا۔ پروفیسر صاحب نے اس بات کا اتنا سٹریس لیا کہ کلاس روم میں گئے اور جاتے ہی روسٹرم پہ گر گئے۔ طلبا بھاگے سٹاف آ یا اور انہیں ہسپتال لے جایا گیا مگر ہسپتال جاتے ہی ڈاکٹر نے ان کی موت کی خبر دی۔

ایک واقعہ ہو گیا۔
ایک پروفیسر اچانک صدمے سے یا ذہنی دباؤ سے مر گیا۔
ایک پریشان بیٹا مر گیا۔
ایک ننھی بچی کا باپ مر گیا۔
ایک جوان عورت کا شوہر مر گیا۔
ایک بوڑھی ماں کا بیٹا مر گیا۔
طلباء کا استاد مر گیا۔
اساتذہ کا ہم کار ساتھی چلا گیا۔

مگر پرنسپل کے لیے اس کی حیثیت کیا تھی کہ نہ کالج بند ہوا نہ کلاسوں کا سلسلہ رکا۔ سب کام روٹین سے چلتے رہے اور وہ شخص ہسپتال تک نہیں گیا کہ جا کے پوچھ ہی لیتا۔

کیا محض اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ وہ ایک بڑے مافیا کا کل پرزہ ہے؟ اس کا کسی نے کیا بگاڑ لینا ہے؟

مجبور اساتذہ، بے فکرے طلبا، ایک بیمار باپ، بوڑھی ماں، ننھی بچی اور نوجوان بیوہ اس کا کیا بگاڑ لیں گے؟

ایک شخص کے مرنے سے اس کے ادارے کو کیا فرق پڑے گا۔ اگلے ہی دن سینکڑوں لوگ سی وی اٹھائے اس کی چوکھٹ پہ کھڑے ہوں گے۔

مگر ایسے لوگ یاد رکھیں موت ہر ایک کے ہی تعاقب میں ہیں۔ چھوڑنا اس نے کسی کو نہیں، آپ اگر آج قاتل ہو کر بھی بچ نکلتے ہیں تو کل آپ کی اولاد اس کا خمیازہ بھگتے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments