داردستان اور اسکا لسانی گلدستہ


ہندوستان کی برطانوی حکومت سے منسلک کئی پڑھے لکھے اہلکاروں اور محققین نے پہاڑی سلسلوں ہندو کش، قراقرم اور مغربی ہمالیہ پر مشتمل وادیوں اور آبادیوں کو ”داردستان“ کا نام دیا ہے۔ اس علاقے کو داردستان اس میں مقیم بڑی نسلی گروہ ( دارد، دارادا یا داردلے ) کی وجہ سے دیا گیا ہے جو آریہ نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسی زبانیں اب بھی بولتے ہیں جو کہ وادیٔ سندھ اور وادیٔ گنگا کے نشیبی علاقوں میں بولی جانے والی ہندآریائی زبانوں کی شاخ سے تعلق رکھتی ہیں تاہم کئی لحاظ سے ان بڑی زبانوں سے مختلف ہیں۔

اس علاقے کے لئے ایک نامناسب لفظ ”کافرستان“ کو بھی کئی سفرنگاروں، محققین اور بشری علوم کے ماہرین نے استعمال کیا ہے جن کا تعلق مغل سلطنت، ایران، افغانستان یا وسطی ایشیا سے رہا ہے۔ انہوں نے ان لوگوں کو ”کافر“ اس لئے لکھا کہ یہ لوگ اپنے مخصوص مذاہب کے پیروکار تھے جن کا تعلق دنیا کے بڑے مذاہب سے نہیں بنتا تھا۔ اس طرح کے مذاہب کے آثار اب بھی جنوبی چترال کے کالاش کمیونیٹی میں پائے جاتے ہیں۔

نوابادیت (colonization) کے ابھرنے کے ساتھ ہی مقامی آبادیوں کو زیر کیا گیا، قتل کیا گیا، ان کو ان کی زمینوں سے نکال دیا گیا اور ان زمینوں کو آبادکاروں میں تقسیم کیا گیا۔ اسی نوابادیت کی کوکھ سے پہلے سلطنتیں بن گئیں اور بعد میں ”قومی ریاستیں“ ۔ ایسا براعظم امریکا میں ہوا، اسڑیلیا میں ہوا، قفقاز میں ہوا، افریقہ میں ہوا اور وسطی ایشیا و جنوبی ایشیا میں بھی ہوا۔ ان نئی ”قومی ریاستوں“ نے بچی ہوئی آبائی آبادیوں کو ریاستی سرحدوں کی نئی تشکیل سے ایک دوسرے سے الگ بھی کر دیا۔ قبل از نوآبادیت ایک ایسا علاقہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے دوراہے پر موجود تھا جسے داردستان کہا گیا۔ اسی علاقے میں ہندوکش، قراقرم، پامیر اور مغربی ہمالیہ کی چوٹیاں، وادیاں، ندیاں اور چراگاہیں شامل ہیں۔

اس طبعی اور ثقافتی لحاظ سے ایک جیسے علاقے کو داردستان کا نام مشہور مستشرق، ماہر تعلیم اوراس وقت گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر گوٹلیب وہیلم لیٹنر (Dr۔ Gottlieb Wilhelm Leitner ( 1840۔ 1899 ) ، ) نے اپنی کتاب ”داردستان“ مطبوعہ 1861 ء (Dardistan 1861 ) میں دیا۔ اگرچہ تحقیقی حلقوں اور بڑی حد تک مقامی لوگوں میں اب بھی یہ نام مستعمل ہے تاہم اس جغرافیائی نام پر کئی جغرافیہ دانوں اور علوم بشریات و سماجیات کے ماہرین کے بیچ مباحثہ جاری رہتا ہے۔ اسی طرح کے مباحث اس علاقے میں بولی جانے والی زیادہ ہندآریائی زبانوں کے ذیلی گروہ ”داردی زبانوں“ (Dardic languages) پر بھی ماہرین لسانیات کے بیچ جاری ہیں۔ تاہم ان اصطلاحات کا اطلاق اس علاقے اور زبانوں پر اب بھی ماہرین اور محققین کی بڑی تعداد کرتی ہیں۔

بعض ماہرین نے اس علاقے کو ”یاغستان“ بھی کہا ہے۔ ایک دوسرے برطانوی افیسر ( Edmund George Barrow ( 1852۔ 1934 ) ) نے اپنی کتاب ”Dardistan and Kafiristan“ مطبوعہ 1885 ء میں لکھا کہ داردستان نام کا کوئی الگ ملک نہیں ہے۔ یہ یاغستان کی طرح ہے اور داردستان کی اصطلاح اس علاقے کو محض ایک جیسی نسلی گروہ کی وجہ سے دیا گیا ہے۔

دادرستان کی اصطلاح معروف کتاب ”Caste in India: its nature، function and origins“ میں بھی استعمال ہوا ہے جہاں مصنف جھان ہنری ہٹن (John Henry Hutton ( 1885۔ 1968 ) ) لکھتے ہیں، ”پٹھان وطن کے دھانے پر، داردستان کی طرف اب بھی سیاہ و سرخ کافر پائے جاتے ہیں جو کہ کسی طرح پٹھان حملوں سے بچ گئے ہیں“ ۔

داردستان کو گریٹ گیم (Great Game) کے زمانے میں بہت جنگی حکمت علمی کی اہمیت (strategic significance) حاصل تھی۔ ”گریٹ گیم“ کی اصطلاح برطانوی جاسوس ارتھر کونولے (Arthur Conolly) نے پہلی بار اپنی جاسوسی مہمات کی یاداشت

( ’Journey to the North of India, Overland from England, Through Russia, Persia and Afghanistan‘ , )

میں استعمال کی تھی جن کا ذکر پیٹر ہوپکرک (Peter Hopkirk) نے اپنی کتاب (The Great Game) مطبوعہ 2006 ء میں یوں کیا کہ اسے خبیر اور قفقا کے بیچ غیر آباد اور باغی علاقے کا جائزہ لینے بھیجا گیا تھا جہاں سے روسی حملوں کا خدشہ تھا۔ بعد میں گریٹ گیم کی اصطلاح کو روڈی یارڈ کمپلنگ (Rudyard Kipling) نے اپنے ناول ”کیم“ Kim میں 1905 ء کو ناول کے ہیرو کے ذریعے یہ کہلوا کر عام کیا کہ ”اب میں دور دور شمال میں جاؤں گا اور گریٹ گیم کھیلوں گا“ ، ”Now I shall go far and far into the North، playing the Great Game۔“ ) ۔

اس جنگی حکمت عملی والے گریٹ گیم کا ایک اہم حصہ ”گلگت گیم“ Gilgit Game تھا جس کا ذکر جھان کیے (John Keay) نے اپنی کتاب ”The Gilgit Game۔ The Explorers of the Western Himalaya“ مطبوعہ 1979 ء میں یوں کیا ہے، ”سادہ الفاظ میں گلگت گیم اس کشمکش کا نام تھا جس کے ذریعے اس ویرانی پر قبضہ اور حکمرانی مقصود تھی۔ اس کو گلگت گیم اس لئے کہا گیا کیوں کہ یہ گریٹ گیم کا ایک اہم حصہ تھا۔ گریٹ گیم وہی ایک صدی پر محیط برطانوی ہند اور روس کے بیچ وسطی ایشیا پر قبضہ کرنے کی مخاصمت کا نام ہے“ ۔ گریٹ گیم کے اس پورے عرصے میں گلگت کو براستہ کشمیر کھولاگیا تاکہ جنوب سے یا مغرب سے کوئی ایسا راستہ نہ ہو جہاں سے روس اس خطے میں آ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمن ماہر جغرافیہ ہرمن کریوٹزمین ( (Hermann Kreutzmann شمالی پاکستان پر بھارت اور انڈیا کے تنازعہ کو گریٹ گیم کا تسلسل سمجھتے ہیں۔

گلگت اب پورے داردستان میں سب سے اہم سٹریٹجیک علاقہ ہے جہاں سے چائنہ پاک تجارتی راہداری (China Pakistan Economic Corridor) گزرتا ہے جو چین کے اس بڑے تجارتی اور سٹریٹیجک منصوبے (One Belt One Road) کا حصہ ہے۔

داردستان کے اس علاقے کو ایک اور نام ”پرستان“ دینے کی بھی تجویز دی گئی۔ اطالوی ماہرین علوم بشریات (Ablerto Cacopardo اور Augusto Cacopardo ) نے اپنی تحقیقی تصنیف (Gates of Peristan: history، religion and society in the Hindu Kush) مطبوعہ 2001 ء میں آفغان صوبے نورستان، کنڑ، پاکستانی علاقے چترال، بالائی دیر و سوات، دریائے گلگت اور دریائے سندھ کے بالائی علاقوں کو پرستان لکھا۔ ان محققین اور مایہ ناز آسٹری ماہر علوم بشریات کارل یٹمار (Dr Karl Jettmar) نے اس پورے علاقے کو ایک ”ثقافتی علاقہ“ (culture area) قرار دیا جس سے ان کی مراد پورے خطے کی ثقافتی یکسانیت تھی۔

مذکورہ بالا آطالوی ماہرین نے اس علاقے کو ”پرستان“ یہاں کے قدیم مذاہب اور رسوم میں دیؤمالائی مخلوقات جیسے پریوں، جنوں اور پاسٹورل ائیڈیالوجی یعنی چرواہی عقائد کی بنیاد پر کہا۔ کارل یٹمار نے اپنی 1961 ء کے تحقیقی مقالے ”Ethnological Research in Dardistan“ میں لکھا، ”اسی لحاظ سے قراقرم کے دارد، ہندوکش کے دارد اور کافر، ہندوکش اور پامیر کے ایرانی اور بروشسکی بولنے والے لوگ سب ایک یکساں ثقافتی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں“ ۔

اس علاقے کو مارکو پولو نے بلور (Bolor) بھی کہا۔ اس کو سولہویں صدی کے فارسی تواریخ میں بلور یا بلورستان لکھا گیا۔ مرزا محمد حیدر دوغلت کی ”تاریخ رشیدی“ جسے مشہور اطالوی محقق ولفگینگ ہولزورتھ (Wolfgang Holzwarth) نے یوں منقول کیا ہے، ”ایک چشم دید گواہ مرزا حیدر، جب انہوں نے 1527 ء اور 1528 ء کو بلور پر حملے کیے، نے دیکھا کہ یہاں کی پوری آبادی غیر مسلم ہے۔ اس (مرزا) نے اگے لکھا،“ بلور ایک کافر ملک ہے اور اس کے باشندوں کی اکثریت پہاڑی ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں ہے ”۔ مرزا حیدر کے مطابق،“ بلور یا بلورستان سیاسی طور پر ایک انتہائی منقسم پہاڑی علاقہ ہے جس کی سرحدیں بدخشان سے، واخان سے، بلتستان، کشمیر، سوات، کابل اور لغمان سے ملتی ہیں ”۔

چاہے داردستان ایک جغرافیائی علاقہ ہو یا نہ ہو یہ نسلی نسبت ”دارد“ اور اس کے مختلف نام ان پہاڑی لوگوں کے لئے قدیم زمانوں سے استعمال ہوتے آئے ہیں۔ معروف اطالوی مستشرق اور ماہر ہندوستانیات ڈاکٹر ژویپسی ٹوچی (Dr Giusepe Tucci 1894۔ 1984 ) جنہوں نے پاکستان کے سوات وادی میں ارکیالوجی پر بنیادی کام کیا، اپنی تحقیق ”On Swat: The Dards and Connected Problems“ مطبوعہ 1977 ء میں لکھتے ہیں، ”دادیکئی، داراداس، دارد یونانی مؤرخ ہیروڈیطن کی فہرست کے مطابق انتظامی لحاظ سے اکیمننئین سلطنت (Achaemedian Empire) کا ساتواں صوبہ (satrapy) تھا جو اس سلطنت کو خراج دیتا تھا۔ دادیکئی“ دارد ”ہیں، پرانیک (Puranic) جغرافیائی فہرست کے داراداس (Daradas) ہیں، کرٹیئیس (Curtius) کے ڈایڈیلے ہیں“ ۔ ڈاکٹر ٹوچی اگے رقمطرا ز ہیں، ”دارادا کے بارے میں کئی بار ذکر سنسکرت کے پرانے مسودوں جیسے رامایانا (Rāmāyana) اورسدھارماسممیریوپاستھانا (Saddharmasmṛtyupasthānā) میں ہوا ہے۔

برطانوی مستشرق ایچ ایچ ویلسن (H۔ H Wilson ( 1786۔ 1860 ) ، ) جو اکسفورڈ یونیورسٹی میں سنسکرت پڑھاتے تھے نے 1825 ء میں شائع شدہ سفرناموں کے ایک مجموعے، جسے ایسٹ انڈیا کی طرف سے ہمالیہ، وسطی ایشیا اور تبت کے جائزے پر مامور سکالر ویلیئم مورکروفٹ (William Moorcroft ( 1767۔ 1825 ) نے شائع کیا تھا، لکھتے ہیں، ”دنیا میں چند ہی لوگ ایسے ہیں جیسے کہ یہ دارد لوگ جنہیں قدیم تاریخ میں کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔ جن کو سنسکرت میں لکھے گئے جغرافیائی کتابوں میں“ داراداس ”کہا گیا اور جو سٹرابو (Strabo) کے ہاں داردے یا دارادرے (Dardae or Daradrae) ہیں۔ انہی لوگوں کو مسلمانوں نے“ کافر ”لکھا ہے“ ۔ سٹرابوپہلی صدی عیسوی کے اواخر میں ایک یونانی جغرافیہ دان اور فلسفی گزرے ہیں۔

ایک مقامی کشمیری محقق عزت اللہ جن کو مورکروفٹ (Moorcroft) نے ہمالیہ کا تحققی دورہ کرنے بھیجا تھا، 1825 ء کو جریدے Quarterly Magazine Review of Cashmir ”میں اس وطن کے بارے لکھتے ہیں،“ اس وطن میں میتائین/ سے اوپر کے علاقے میں گھر کافی بوسیدہ اور کھنڈرات کی صورت میں ہیں جہاں سے کچھ افراد کو چند لوگوں نے اٹھایا تھا جن کو ”داردی“ کہتے ہیں۔ یہ ایک آزاد پہاڑی قبیلہ ہے جو دراس سے تین چار دن کی مسافت پہ ہیں۔ یہ لوگ پشتو اور داردی زبان بولتے ہیں۔ ان کے مذہب کے بارے میں معلوم نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان داردیوں کے وطن سے ہو کر کشمیر تا بدخشان دس مراحل (ten stages) کی مسافت ہے ”۔

مندرجہ بالا تاریخی حوالوں اور تفصیلات کی روشنی میں اس علاقے کو ”داردستان“ کا نام دینا کافی مناسب لگتا ہے جو کہ پہاڑی ہے اور جو اونچی چوٹیاں، بڑے بڑے گلشئیرز، لالازار، مرغزار اور سرسبز چراگاہوں اور ذرخیز وادیوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقے میں اسلام سے پہلے، ثقافتی یکسانیت، تھی جس کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ اس خطے کی آبادی کی اکثریت دارد قوم کی مختلف قبائل پر مشتمل ہے۔ اس لئے اس علاقے کو اس کی بڑی نسلی شناخت ”دارد“ کے ساتھ فارسی زبان کی روایت پر ”ستان“ لگا کر داردستان کہنا مناسب لگتا ہے۔

اس کے اردگرد کئی ایسے ملک آباد ہیں جن کے نام وہاں مقیم بڑی قوم اور ”ستان“ کے میلاپ سے بنے ہیں مثلاً تاجکستان، افغانستان، ترکمنستان، ازبکستان اور قازقستان وغیرہ۔ تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ یہ داردستان لسانی اور نسلی لحاظ سے کلی طور پر یکساں ہے اور نہ ہی یہاں کی ساری زبانوں کے لئے ”داردی“ کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ہے۔

داردستان لسانی اور نسلی لحاظ سے دنیا کے سب سے زیادہ متنوع علاقوں میں سے ایک ہے۔ ناروے کے مایہ ناز ماہر لسانیات جارج مورگن سٹئیرن (George Mogenstierne) اس علاقے کو پورے ایشیا میں سب سے زیادہ لسانی تکثریت کا حامل (polyglot) کہتے ہیں۔

جیسے کہ اوپر بحث سے معلوم ہوا داردستان ایک ثقافتی جغرافیائی (geo۔ cultural) اکائی ہے تاہم آیا صدیوں کے لسانی ارتباط، اخذ و قبول اور میل جول کی بدولت یہ ایک ”لسانی علاقہ“ (linguistic area) بنتا ہے کہ نہیں اپنی جگہ ایک اہم سوال ہے۔ اپنے 1956 ء کے ایک تحقیقی مقالے ”India as a Linguistic Area ’“ میں ماہر لسانیات ایم۔ بی ایمینیو (M۔ B Emeneau) لسانی علاقہ (Sprachbund) کی تعریف یوں کرتے ہیں، ”لسانی علاقے سے مراد وہ علاقہ ہے جہاں ایک سے زیادہ خاندانوں کی زبانیں بولی جاتی ہوں مگر ان کے اپسمیں میں وہ لسانی خصوصیات موجود ہو جو وہاں دوسرے لسانی خاندانوں میں نہیں پائی جاتی ہوں“ ۔

سویڈن سے تعلق رکھنے ولاے ماہر لسانیات ڈاکٹر ہنرک لیلجیگرین (Dr Henrik Lilgegren) جو ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ کی زبانوں پر گزشتہ دو دہائیوں سے تحقیقی کام کر رہے ہیں، نے یہاں کی زبانوں کے حوالے سے اپنی ایک حالیہ تقابلی تحقیقThe Hindu Kush۔ Karakorum and linguistic areality‘ ”مطبوعہ 2021 ء میں دلیل دیتے ہیں کہ ہندوکش۔ قراقرم کا علاقہ ایک لسانی علاقہ نہیں ہے جیسا کہ“ لسانی علاقے ”کی روایتی طور پر تفہیم کی جاتی ہے یعنی“ ایک ایسا جغرافیائی حدود کا علاقہ جہاں جغرافیائی سرحدیں متعین ہوں جس کے اندر ساری یا زیادہ تر زبانیں اپنی گروہی (phylogenetic) شناخت کے باوجود ایک دوسری سے کافی تعداد میں مخصوص لسانی خصوصیات شریک کرتے ہوں جو طویل المدتی اخذ و قبول اور میل جول کی وجہ سے پیدا ہو چکی ہو ”۔

ڈاکٹر لیلجیگرین اگے لکھتے ہیں،“ ہندوکش۔ قراقرم کا علاقہ ایک لسانی علاقہ اس وقت کہلائے گا اگر اس سے مراد میلاپ کا علاقہ (convergence zone) ہو جس کا ایک مرکز ہوجہاں مقامی اخذ و قبول کی وجہ سے کچھ لسانی خصوصیات مشترک ہوجو طویل تاریخ کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو اور اس علاقے کے اردگرد کچھ ذیلی علاقے ایسے ہو جہاں زبانیں ایک دوسرے سے ساری خصوصیات نہیں بانٹتی ہوں بلکہ صرف ذیلی شاخوں تک اپسمیں کچھ خصوصیات کا تبادلہ کرتی ہوں ”۔

یہ خطہ لسانی طور پر متنوع ہے۔ یہاں کی زبانیں چھ بڑی لسانی گروہوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہاں ہند آریائی، ایرانی، نورستانی، ترکی، سائنو تبتی اور منفرد و یکتا زبان بروشسکی بولی جاتی ہیں۔ ہنند آریائی گروہ سب سے بڑا ہے جس میں تقریباً 30 ایسی زبانیں بھی شامل ہیں جن کو عموماً ”داردی زبانیں“ کہا جاتا ہے جو ہند آرائی کی شمال مغربی شاخ ہے۔ ان زبانوں کو داردی مشہور ماہرین جیسے کہ جھان بڈلف، جارج گرئیرسن، جرارڈ فسمین، جارج مورگن سٹئیرن، ژوج ایڈیلمین، ریچرڈ سٹرینڈ، ایلنا بشیر اور ہرمن کڑوئٹزمن (John Biddulph، George Grierson، Gérard Fussman، George Morgenstierne، Džoj Edelman، Richard Strand، Elena Bashir، and Hermann Kreutzmann) نے کہا ہے اگرچہ ان میں کئی محققین کو ایسا لکھنے میں ترددو رہا ہے اور ان کے نزدیک یہ خالصتاً لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ ان زبانوں کو ایک کلی نام دیا گیا ہے جو ایک مخصوص جغرافیائی خطے میں بولی جاتی ہیں۔ یہاں کا دوسرا بڑا لسانی گروہ ایرانی ہے جبکہ اس کے بعد نورستانی اور سائنو تبتی گروہ ہیں۔

دارداستان میں تقریباً 50 زبانیں اور ان کے مختلف لہجے بولی جاتی ہیں جن میں 30 کے لگ بھگ زبانیں داردستان کے بڑے حصے ”شمالی پاکستان“ میں بولی جاتی ہیں اور ان 30 زبانوں میں مندرجہ بالا پانچ گروہ کی زبانیں اور منفرد و یکتا زبان بروشسکی شامل ہیں۔

یہاں صرف شمالی پاکستان میں ان لسانی گروہوں اور ان میں شامل زبانوں کو ایک جدول سے واضح کرتے ہیں۔ شمالی پاکستان سے مراد پاکستان کے صوبے بالائی خیبر پختون خوا، بالائی ہزارہ اور گلگت بلتستان کا علاقہ ہے جو کہ پاکستانی حدود میں آتے ہیں جبکہ داردستان میں شمالی پاکستان سمیت مشرقی آفغانستان اور کشمیر و لداخ اور مغربی تبت بھی شامل ہیں۔

داردستان کا بڑا حصہ اب شمالی پاکستان ہے۔ شمالی پاکستان سے میری مراد خطہ گلگت بلتستان، صوبہ خیبرپختون خوا کے بالائی علاقے جیسے کہ چترال، دیر، سوات، بونیر، شانگلہ، مانسہرہ، کوہستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بالائی علاقوں پر مشتمل پہاڑی علاقہ ہے۔

شمالی پاکستان میں مٹنے کے خطرے سے نبردازما زبانوں کے بارے کسی بھی پاکستانی حکومت یا سرکاری ادارے سے سنجیدگی نہیں دکھائی۔ میڈیا، تعلیم اور سرکاری اعداد و شمار میں پاکستان کی صرف چند ایک زبانوں جیسے اردو، پشتو، سندھی، پنجابی، بلوچی اور سرائیکی کا ذکر ہوتا ہے جبکہ باقی ماندہ زبانوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے کسی بھی ادارے نے شمالی پاکستان کی ان زبانوں پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی ان کو لاحق خطروں کا کوئی جائزہ لیا گیا۔

جو تھوڑا بہت کام ان زبانوں پر تحقیق کی صورت میں یا ان کو نئی زندگی دینے میں ہوا ہے اس کا سہرا زیادہ تر غیر ملکی محققین، غیر سرکاری اداروں یا پھر مقامی طور پر مقیم چند ایک غیرسرکاری ادارو ں اور افراد نے کے سرہے۔

ڈاکٹر لیٹنر نے شمالی پاکستان کی زبانوں اور قوموں پر کام کیا اور اس کو 1877 ء میں اپنی کتاب ”Languages and Races of Dardistan“ کی صورت میں شائع کیا۔ ان کے بعد ایک دوسرے برطانوی فوجی افیسر جھان بڈلف (John Biddulph) نے ان زبانوں پر یادگار کام کیا جسے انہوں نے 1880 ء میں ہندوکش کے قبائل (Tribes of Hindoo Koosh) کے نام سے کتابی صورت میں چھپوایا۔ ہندوستانی زبانوں پرضخیم سروے کے لئے معروف ماہر لسانیات سر جارج گرئیرسن (Sir George Abraham Grierson) نے ہندوستان کی 364 زبانوں کا سروے کیا اور اسے ”Linguistic Survey of India“ کے نام سے چھاپا۔

اس سروے میں اور اس کے بعد پشائی زبانوں پر گرئیرسن کی تحقیق ”The Pišača Languages of North۔ Western India“ میں شمالی پاکستان کی زبانوں پر تحقیق شامل ہے۔ ان کے بعد اگلہ اہم ترین کام ناورویجئن ماہر لسانیات جارج مورگن سٹئیرن (Georg Morgestierne) کیا ہے جنہوں نے شمالی ہندوستان کی زبانوں پر کام ”Report on a Linguistic Mission to North۔ Western India“ مطبوعہ 1932 ء اور کئی زبانوں پر الگ الگ تحقیقی نوٹس لکھ کر کیا۔

ڈاکٹر لیٹنر نے ہنزہ اور نگر کی بروشسکی زبان پر بھی کام کیا۔ ان کے بعد برطانوی عالم اور فوجی افیسر ڈیویڈ لوکارٹ روبرٹسن لوریمر (David Lockhart Robertson Lorimer) بروشسکی زبان پر کام کیا۔ بعد میں آنے والے ماہرین لسانیات اور علوم بشریات نے شمالی پاکستان کی زبانوں اور ثقافتوں پر کام کیا ان میں کارل یٹمار، فریڈریک بارتھ، کولن میسیکا، رچرڈ سڑینڈ، ایلنا بشیر، کیکوپرڈو برادرز وغیرہ نمایاں ہیں۔

1980 ء کی دہائی میں ایک غیر سرکاری بین الاقوامی ادارے سمر انسٹیٹیوٹ آف لینگوئسٹک (Summer Institute for Linguistics) نے قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور لوک ورثہ پاکستان کے ساتھ مل کر شمالی پاکستان کی زبانوں کا سماجی سروے کیاجسے پانچ جلدوں میں ”Sociolinguistic Survey of Northern Pakistan) کے نام سے 1992 ء کو شائع کیا۔

شمالی پاکستان کی ان زبانوں کا تقابلی مطالعہ مذکورہ بالا ماہرین خصوصاً گرئیرسن، مورگن سٹئیرن، رچرڈ سٹرینڈ، ایلینا بشیر وغیرہ نے کافی حد تک کیا بھی ہے اور انہی کی تحقیق کی بنیاد پر لسانی گروبندی بھی کی گئی یا اس میں ترامیم کی گئیں۔ مثلاً پہلے کافری/نورستانی زبانوں کو داردی زبانوں سے الگ نہیں کیا جاتا بلکہ دونوں کو ہندآریائی مانا جاتا۔ تاہم مورگن سٹئیرن نے ان نورستانی زبانوں کو نہ صرف داردی زبانوں سے الگ سمجھا بلکہ ان کو ہند ایرانی گروہ میں شمار کیا۔

1968 ء کو رالف لیلے ٹرنر (Sir Ralph Lilley Turner) نے ہندآریائی زبانوں کی تقابلی لغت ”A Comparative Dictionary of Indo Aryan Languages“ شائع کی جس میں قدیم، وسطی اور جدید ہند آریائی زبانوں کا بھی لغوی موازنہ شامل ہے۔

یہاں کی زبانوں کا کچھ تقابلی مطالعہ سمر انسٹیٹیوٹ آف لینگوئسٹک (SIL) نے بھی کیا تاہم انہوں نے اس لسانی گروہ بندی کو نہ چھیڑا تاہم ایک ورڈ لسٹ کی مدد سے ان زبانوں کے باہمی اشتراک کا جائزہ لیا گیا۔ یہ ورڈ لسٹ (الفاظ کی فہرست) لغوی تھی اور یہ تقابلی مطالعہ ظاہر ہے لغوی اور صوتی ہے اور ان میں لسان کے دیگر خصوصیات پر زور نہیں دیا گیا۔ البتہ ایک بہت ہی حالیہ تقابلی مطالعے ”The Hindu Kush۔ Karakoram and Linguistic Areality“ مطبوعہ اپریل 2021 ء میں سویڈن سے تعلق رکھنے والے ماہر لسانیات ڈاکٹر لیلجیگرین (Dr Henrik Liljegren) نے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔

طلسماتی شمالی پاکستان میں بولی جانے والی ہر زبان کا ایک مختصر تعارف ان قارئین کے لئے دلچسپ ہوگا جن کو اس گوشہ جنت بہ جبیں ارض کے بارے میں تجسس ہو۔ ہر زبان کے بولنے والوں کی درست آبادی کے بارے میں بتانا مشکل ہے کیوں کہ پاکستان میں اب تک چھ قومی مردم شماریوں میں ان زبانوں کو شامل نہیں کیا گیا سوائے پشتو اور ہندکو کے۔ ان زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں بھی ہے اور لاکھوں میں بھی۔ ان میں سے کئی زبانیں ایسی ہیں جو پاکستان کے پڑوسی ممالک آفغانستان، بھارت، چین اور تاجکستان میں بھی بولی جاتی ہیں۔

ماہرلسانیات کرسٹوفر موزیلے (Christopher Moseley) کی ادارت میں 2008 ء کو معروف اشاعتی ادارے روٹلیج (Routledge) کی طرف سے شائع شدہ دنیا میں خطرے سے نبردازما زبانیں کے قاموس (Encyclopaedia of World ’s Endangered Languages) کے جائزے کے مطابق ان ساری زبانوں کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے۔ ان میں سے دسیوں کو ایسا سخت خطرہ ہے جبکہ کئی ایک موت کے دہلیز پر ہیں یا پھر مٹ چکی ہیں۔

آئیے شمالی پاکستان کی ان زبانوں کے بارے میں ان کے لسانی خاندان کے مطابق مختصر جانتے ہیں۔
ا: یکتا زبان (language isolate) :

بروشسکی: یہ پاکستان کی وہ واحد زبان ہے جس کی اب تک کسی لسانی گروہ میں درجہ بندی نہیں کی جاسکی۔ اسی لئے اس کو ”یکتا زبان“ کے طور پر رکھا گیا کیوں کہ یہ اپنے پڑوس میں کسی بھی زبان سے لسانی خاندان شریک نہیں کرتی۔ یہ زبان گلگت بلتستان کے علاقوں ہنزہ، نگر اور ضلع غزر کے یاسین وادی میں بولی جاتی ہے۔

ب: سائنو تبتی (Sino۔ Tibetan) :

پاکستان میں اس لسانی خاندان کی صرف ایک زبان ”بلتی“ بولی جاتی ہے جسے اس بڑے گروہ کی ذیلی شاخ تبتی برمی (Tibeto۔ Burman) میں رکھا جاتا ہے۔ یہ زبان گلگت بلتستان کے علاقے بلتستان خاص کر سکردو، شیگر، گھانچے اور خارمنگ میں بولی جاتی ہے۔

پ: ترکی (Turkic) :

اس لسانی گروہ کی بھی ایک ہی زبان شمالی پاکستان میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کو ”کرغز“ کہا جاتا ہے۔ یہ بالائی چترال کے بروغل وادی میں چند خاندانوں کے ہاں بولی جاتی ہے۔

ت: نورستانی (Nuristani) :

اس لسانی گروہ کو یہ نام اس کے علاقے نورستان کی نسبت سے دیا گیا ہے جو آفغانستان کا ایک صوبہ بنتا ہے۔ اس علاقے کو درہ نور کہا گیا۔ اسلام سے پہلے اس علاقے کو کافرستان بھی کہا جاتا اور یہاں کی ان زبانوں کو ”کافری“ زبانیں کہا گیا۔ اب ان زبانوں کے گروہ کا نام نورستانی ہے۔ پاکستان میں نورستانی گروہ کی زبانیں چترال میں بولی جاتی ہیں جہ کہ درجہ ذیل ہیں۔

1۔ مشرقی کٹیویری (Eastern Kativiri) : پاکستان میں یہ زبان چترال کی لوٹکوہ وادی، بمبوریت، رمبور اور ارٹسن کے گاؤں میں بولی جاتی ہے۔

2۔ کمویری /شیخانی (Kamviri or Sheikhani) : یہ زبان بھی پاکستان کے چترال میں بولی جاتی ہے۔ چترال میں لنگوربٹ اور بدروگل کے گاؤں میں یہ زبان بولی جاتی ہے۔

ج: ایرانی زبانیں ( Irani languages) :
اس لسانی گروہ میں شامل زبانیں درجہ ذیل ہیں جو کہ شمالی پاکستان میں بولی جاتی ہیں۔

1۔ مدخلشتی زبان: پاکستان میں یہ زبان خیبر پختون خوا کے ضلع چترال کی شیشیکو وادی میں لوگوں کی ایک کم آبادی بولتی ہے۔

2۔ وخی زبان: اس ایرانی زبان کو پاکستان میں بالائی ہنزہ، گوجال کی وادیوں جیسے گلمت، پھسو، چپرسن، شمشال میں وخی لوگ بولتے ہیں۔ ان علاقوں کے علاوہ اس زبان کو ضلع غزر گلگت بلتستان کے یاسین وادی اور بالائی چترال کے یارخن گاؤں میں لوگ مادری زبان کی حیثیت میں بولتے ہیں۔

3۔ یدغا: یدغا ایک ایرانی زبان ہے جسے چترال کے لٹکوہ تحصیل میں گرم چشمہ کے علاقوں میں لوگ بولتے ہیں۔

4۔ پشتو: ویسے تو پشتون پاکستانی کی دوسری بڑی زبان ہے۔ شمالی پاکستان کے جنوبی علاقوں میں یہ زبان بولی جاتی ہے جن میں سوات اور دیر کے زیریں علاقے، بونیر، شانگلہ، تورغر اور بٹیگرام شامل ہیں۔

5۔ سریقولی: اس ایرانی زبان کو بالائی چترال کے بروغل وادی میں چند خاندان بولتے ہیں۔

6۔ بدیشی: خیبر پختون خوا کے ضلع سوات کے علاقے مدین کی مشرق میں بشیگرام وادی میں یہ زبان بولی جاتی تھی۔ اب اس کے بولنے والے صرف 3 سے 5 تک لوگ رہ گئے ہیں۔

د: داردی زبانیں (Dardic languages) :

شمالی پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں کا تعلق ہندآریائی زبان کی ذیلی شاخ ”داردی“ سے ہے جس کو شمال مغربی ہندآریائی گروہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں اس گروہ میں مندرجہ ذیل زبانیں شامل ہیں :

1۔ بٹیڑی (Bateri) : یہ زبان لوئر کوہستان میں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے بشام شہر کے قرب میں بٹیڑہ گاؤں میں بولی جاتی ہے۔

2۔ چھیلیسو (Chilliso) : اس زبان کو علاقہ کوہستان کے مشرقی جانب کئی گاؤں میں منتشر آبادی بولتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ زبان تقریباً مٹ چکی ہے مگر اس کے کئی الفاظ اب بھی محفوظ ہیں۔

3۔ دمیلی/دامیاں بھاشہ (Dameli ) : جنوبی چترال میں دریائے چترال کے کنارے آباد دامیل وادی جو آرندو اور دروش کے بیچ واقع ہے دمیلی زبان بولی جاتی ہے۔

4۔ ڈوماکی (Domaaki) : خطرے سے دو چار یہ داردی زبان گلگت بلتستان کے علاقوں ہنزہ اور نگر میں منتشر گاؤں میں لوگ بولتے ہیں۔ ان لوگوں نے اب اپنی زبان کا نام داودی رکھا ہے۔

5۔ گوارباتی (Gawarbati) : جنوبی چترال میں دریائے چترال کے کنارے پاک افغان سرحد پر یہ داردی زبان بولی جاتی ہے۔ پاکستان میں اس کا مرکزی گاؤں آرندو ہے جو جنوبی چترال میں واقع ہے۔

6۔ گاؤری (Gawri) : صوبہ خیبر پختون خوا کے اضلاع سوات اور دیر بالا کے مشہور سیاحتی علاقوں کالام اور کمراٹ میں گاؤری زبان بولی جاتی ہے۔ گاؤری لوگوں کے پاس پاکستان کے یہ خوب صورت سیاحتی علاقے ہیں جن میں کالام وادی سوات اور کمراٹ وادی بالائی دیر شامل ہیں۔

7۔ کلاشہ (Kalasha) : مشہور غیر مسلم اقلیتی برادری کالاش کے بارے میں کافی لوگ جانتے ہیں۔ یہ لوگ جنوبی چترال کے بمبوریت، بریر اور

ربمور وادی میں بستے ہیں اور اپنی زبان کلاشہ بولتے ہیں۔ اس داردی زبان بولنے والوں کی کچھ تعداد چترال کے ارسٹسن وادی میں بھی رہتی ہے۔

8۔ گؤرو (Gowro) : اس زبان کے بولنے والوں کو گبر خیل کہا جاتا ہے جو علاقہ کوہستان کے مشرقی حصے میں بعض گاؤں میں رہتے ہیں۔ اس زبان کے بولنے والے بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔

9۔ کلکوٹی (Kalkoti) : اس داردی زبان کو ضلع اپردیر کے وائی پنجکوڑہ (دیر کوہستان) کے گاؤں کلکوٹ میں لوگ بولتے ہیں۔ اس زبان کے بولنے والے بھی اپنی زبان کو تیزی سے چھوڑ رہے ہیں۔

10۔ کشمیری (Kashmiri) : پاکستان میں یہ زبان آزاد کشمیر کے علاقے میں لوگ بولتے ہیں جبکہ زیادہ تر یہ ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں بولی جاتی ہے۔

11۔ کھوار (Khowar) : صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع چترال کی سب سے بڑی زبان کھوار ہے جو کہ داردی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ کالام سوات کے مٹلتان اور اوشو گاؤں میں کچھ لوگ اس زبان کو بولتے ہیں۔ یہ زبان گلگت بلتستان کے ضلع غزر میں بھی بولی جاتی ہے۔

12۔ کوہستانی (Kohistani) : اس زبان کو آباسین کوہستانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ضلع خیبر پختون کے ضلعوں لوئیر اور اپر کوہستان کے علاقوں خصوصاً دریا سندھ کے مغربی جانب بولی جاتی ہے۔

13۔ کنڈول شاہی (Kundol Shahi) : یہ داردی زبان آزاد کشمیر کے نیلم وادی کے ایک گاؤں کنڈول شاہی میں بولی جاتی ہے۔ اس کو بھی معدومی کا سخت خطرہ لاحق ہے۔

14۔ مانکیالی (Mankiyali) : چند سو لوگ اس زبان کو ضلع مانسہرہ خیبر پختون خوا کے گاؤں ڈنہ میں بولتے ہیں۔ اس زبان کو تراوڑ بھی کہا جاتا ہے۔

15۔ پلولا ( Palula) : پلولا ایک اور داردی زبان ہے جسے جنوبی چترال میں لواری ٹاپ سے چترال کی طرف اترتے ہوئے راستے میں جو گائں اشریت اور بیوڑی پڑتے ہیں وہاں کے میں مقیم لوگ بولتے ہیں۔

16۔ شینا (Shina) : شینا زبان گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ اس کے علاوہ یہ مشرقی کوہستان میں بھی بولی جاتی ہے۔ نیلم وادی کے گاؤں تھاؤبٹ اور پھلوائی میں بھی شینا بولنے والے موجود ہیں۔ بلتستان کے علاقے کے چند گاؤں میں بھی شینا زبان بولی جاتی ہے۔ داردی زبانوں میں یہ کشمیری کے بعد دوسری بڑی زبان ہے۔

17۔ توروالی (Torwali) : توروالی ایک دردی زبان ہے جو سوات کے علاقوں وادیٔ بحرین اور وادی بشیگرام میں بولی جاتی ہے۔ وادیٔ بشیگرام مدین قصبے کے مشرق میں واقع ہے جبکہ وادیٔ بحرین دریائے سوات کے مشرق و مغرب میں مدین تا پشمال والے علاقے کو کہا جاتا ہے۔

18۔ اوشوجو (Ushojo) : سینکڑوں لوگ اس داردی زبان کوسوات کے قصبے مدین سے مشرق کی جانب وادیٔ بشیگرام کے گاؤں کس، کڑدیال اور مغل مار میں بولتے ہیں۔ اس زبان کو بھی معدومی کا شدید خطرہ درپیش ہے۔

شمالی پاکستان میں بولی جانے والی دوسری ہند آریائی زبانیں :

1۔ گوجری (Gojiri) : شمالی پاکستان میں گوجری زبان بولنے والوں کی آبادیاں پورے خطے میں منتشر پڑی ہیں۔ سوات، بونیر، دیر، چترال، کوہستان اور گلگت بلتستان کے بعض علاقوں میں گوجری زبان بولنے والے رہتے ہیں۔ ان کی کافی تعداد آزاد کشمیر میں بھی رہتی ہے۔

2۔ ہندکو (Hindko) : یہ صوبہ خیبر پختون خوا کی دوسری بڑی زبان ہے۔ شمالی پاکستان میں اس زبان کے بولنے والے مانسہرہ، ابیٹ آباد اور آزاد کشمیر کے بعض علاقوں میں رہتے ہیں۔

3۔ پہاڑی (Pahari) : شمالی پاکستان میں پہاڑی آزاد کشمیر کے علاقے پیر پنجال سلسلہ کوہ میں بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مری اورہزارہ خصوصاً ناران و کاغان میں بھی یہ زبان بولی جاتی ہے۔

شمالی پاکستان کی ان زبانوں میں اکثریت اب بھی بولنے کی حد تک ہے۔ ان کو تحریر میں لانے کا بندوبست نہیں ہوا تاہم کئی زبانوں میں اب تحریری ادب کی کتابیں شائع ہو رہی ہیں تاہم نوازئدہ ہونے کی وجہ سے اب بھی ان زبانوں کی خواندگی بہت کم ہے۔ کئی زبانوں کے تحفظ و فروغ پر مقامی کارکنوں، لکھاریوں اور محققین نے اپنے تئیں کام شروع کیا ہے مگر ریاستی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے ان کو سخت مالی و فنی مشکلات کا سامنا ہے۔

عالم گیریت، قومی ریاستی شناخت اور ذرائع ابلاغ میں تیز انقلابات کی وجہ سے ان زبانوں کو نئے اور انوکھے خطرات کا سامنا ہے۔ ریاست کی عدم توجہی کے ساتھ ساتھ نئے دور کے نئے مسائل اور وسائل نے ان زبانوں کو مزید خطرے سے دو چار کیا ہے۔

چونکہ ان زبانوں میں آبائی تاریخ، دیسی علم و حکمت کے خزانے، مقامی ادب و اسطور اور مقامی ابی و ماحولیاتی وسائل سے متعلق آبائی علم وافر پڑا ہے اس لئے ان زبانوں کے مٹنے سے علمی و تحقیقی دنیا کو سخت نقصان ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ زبانیں ان لوگوں کی شناخت، ثقافت، ان کی فکر اور نکتہ ہائے نظر کے بھی آمین ہیں لہذا ان کے مٹ جانے سے یہ لوگ شناخت اور نکتہ نظر کے مسائل سے دوچار ہوں گے اور یوں نفسیاتی مسائل مزید گھبیر ہوجائیں گے۔

ریاست کو چاہے کہ وہ ان زبانوں اور ان سے جڑی غیر مادی و مادی ثقافتوں کے بچاؤ اور فروغ کا بروقت فکر کرے ورنہ یہ پورا خوب صورت گلدستہ جلد مرجھا جائے گا اور پاکستان اپنے کلتوری حسن کا اہم ترین حصے سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

مصنف کے بارے میں :

زبیر توروالی محقق، لکھاری، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔ وہ گزشتہ 15 سالوں سے تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بحرین سوات میں قائم پورے شمالی پاکستانی کی زبانوں، ادب اور کلچر و تعلیم کے لئے کام کرنے والی تنظیم ادارہ برائے تعلیم و ترقی ( اب ت IBT) کے بانی اور سربراہ ہیں۔ زبیر توروالی انگریزی، اردو اور توروالی زبان میں لکھتے ہیں۔ اب تک ان کی ایک انگریزی کتاب، درجن سے زیادہ تحقیقی مقالے اور سینکڑوں مضامین انگریزی اور اردو میں شائع ہوچکے ہیں۔ زبیر توروالی نے چند بین الاقوامی تحقیقی کتب میں ابواب بھی لکھے ہیں۔ وہ آن لائن انگریزی و اردو مجلے ”وی ماؤنٹینز“ کے مدیر اور مینیجر ہیں۔ اردو مجلے سربلند کے بھی مدیر ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments