پی ڈی ایم کا پیپلز پارٹی کے بغیر کامیاب پاور شو


پی ڈی ایم کی جانب سے سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پیپلز پارٹی کے بغیر پہلا جلسہ ہے جو نہ صرف کامیاب ہوا بلکہ تاریخی طور پر گزشتہ پی ڈی ایم کے جلسہ سے بڑا بھی تھا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے میں دو جماعتیں پیپلز پارٹی اور اے این پی شامل نہیں تھی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ جس وقت پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل جلسے سے ایک روز قبل پی ڈی ایم کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ اسی وقت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سندھ کے مختلف اضلاع کے دورے پر تھے اور کارکنوں سے خطاب کرنے کے ساتھ تعزیتیں بھی کر رہے تھے۔

بلاول بھٹو زرداری کے استقبال میں عوام کی وہ تعداد نہیں تھی جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاں ہوتی تھی۔ لفظ بے نظیر بھٹو سن کر سندھ کے لوگ گھروں سے نکل آ جاتے تھے، وہ منظر اب دیکھنے کو نہیں ملتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں جیالے ہوتے تھے کارکن جان دینے کے لئے تیار ہوتے تھے اب ان کی جگہ ٹھیکیداروں وڈیروں نے سنبھال لی ہے۔ جو لوگ بینیفشریز ہیں وہ ہی کرائے پر لوگوں کو لاتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے اجلاس میں نواز شریف، مریم نواز صاحبہ ویڈیو لنک کے ذریعے شامل تھے جبکہ نواز لیگ کے صدر شہباز شریف دیگر رہنما اجلاس میں موجود تھے۔

سکھر میں جب بلاول بھٹو زرداری سے ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ کو پی ڈی ایم نے جلسے میں شرکت کی دعوت دی تھی کہ نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف کراچی میں موجود تھے میں تو سفر میں تھا لیکن انہوں نے مجھ سے رابطہ تک نہ کیا۔ پی ڈی ایم کے گزشتہ کراچی والے جلسے میں پیپلز پارٹی کے ہوتے ہوئے بھی اتنی تعداد نہیں تھی جتنی اس مرتبہ تھی۔ اس کی وجہ جے یو آئی کے سندھ بھر سے کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے چیلنج کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کی وجہ سے کراچی میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہوتا ہے اب کر کے دکھائیں۔ جس کے بعد مولانا راشد محمود سومرو نے چیلنج کو قبول کیا اور جلسہ کامیاب کر کے دکھایا۔ جس کی تعریف پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور دیگر رہنماؤں نے بھی کی۔ کراچی میں پی ڈی ایم کا جلسہ تھا تو وفاقی حکومت کے خلاف لیکن پیپلز پارٹی کے نکل جانے کے بعد حقوق سندھ کے عنوان سے نشانہ سندھ حکومت کو بنایا گیا۔

مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کے سوا مولانا راشد محمود سومرو، میاں شہباز شریف اور دیگر رہنماؤں نے سندھ حکومت پر کڑی تنقید کی اسے سندھ کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ شہباز شریف نے تو تاجروں سے ملاقات کے دوران آنسو بھی بہائے اور وعدہ کیا کہ دوبارہ ان کو موقع ملا تو وہ کراچی کی تقدیر بدل دیں گے۔ جبکہ جے یو آئی سندھ کے سیکرٹری جنرل اور جلسے میں میزبان مولانا راشد محمود سومرو، ناصر محمود سومرو نے وفاقی حکومت کے ساتھ سندھ حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے گھوٹکی سے کراچی تک لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔

اور سندھ بھر میں ضلع سطح، تعلقہ سطح، پر مسائل کے حوالے سے احتجاج کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے سندھ کے دورے کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو اپوزیشن کے ساتھ اپوزیشن نہیں کرنی چاہیے۔ پی ڈی ایم نہیں چاہتی ہے کہ عمران خان گھر جائے اور بزدار کو گھر بھیجا جائے۔ جبکہ پی ڈی ایم کے قائد مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ان کی تحریک میں چھرا گھونپنے کی سازش کی ہے۔

لیکن جب مولانا فضل الرحمن نے کراچی جلسے میں خطاب کیا تو ان کا نشانہ اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور عمران خان تھے۔ مولانا فضل الرحمان نے حکومتی تین سالہ کارکردگی پر جشن منانے والے عمران خان کے عمل کو شرمناک قرار دیا اور تمام مسائل کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر وزیر اعظم کو امریکا اور اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریر میں کھل کر امریکا کو للکارا کہ وہ افغانستان میں اپنی شکست کو تسلیم کریں اور مزید شرط لگانے سے باز آجائیں۔

مولانا نے طالبان کے عمل کو سراہتے ہوئے ان کی تعریف کی اور کہا کہ طالبان کو حکومت کرنے دینی چاہیے انہوں نے 20 سال تک جنگ لڑی ہے مگر انہوں نے عام معافی کا اعلان کر کے اپنا سیاسی لوہا منوایا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بھی تنقید کی اور کہا کہ وزیراعظم جو امریکا کی خوشامد میں کبھی کبھار ایک دو جملے بولتے ہیں۔ پہلے کہا کہ ہم امریکا کو اڈے نہیں دیں گے مگر اب امریکی اسلام آباد اور کراچی میں رہ رہے ہیں کوئی ویزا پالیسی نہیں آپ نے اڈوں کی بات مگر ہوٹل دے دیے۔

جن سے ویکسین کے لئے بھی نہیں کہا جاتا کہ ہوئی ہے کہ نہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا افغانستان میں طالبان کی فتوحات کے بعد کھل کر بات کرنا اسٹیبلشمنٹ کو للکارنا اور موجودہ حکومت کے خلاف دوبارہ احتجاج شروع کرنے اور اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن موجودہ حکومت کو مزید برداشت نہیں کرنا چاہتے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اب بہت ہو گیا، اگر حکومت بہی گئی تو روڈ کاروان بھی شروع کریں گے اور ملک بھر میں جلسے جلوس دھرنے دیں گے۔

مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ سال جو آزادی مارچ کیا تھا وہ تن تنہا کیا تھا۔ 20 روز سے زیادہ اسلام آباد میں ٹھہرے مگر پرامن رہے۔ اس مرتبہ کھل کر دھمکی آمیز لہجے میں بات کرنا ایسے لگ رہا ہے جیسے مولانا طالبان ہو اور کابل کی طرح افغانستان فتح کرنے جا رہے ہیں۔ نواز شریف نے بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ساتھ میں یہ بھی کہا کہ (یہ وطن تمہارا ہے، ہم ہیں خواہ مخواہ اس میں) جس میں انہوں نے اپنا موقف پیش کیا۔

میاں شہباز شریف کی تقریر اس مرتبہ نہ تو کافی جذباتی تھی نہ سخت، مولانا فضل الرحمان نے تقریر میں اسٹیبلشمنٹ کو دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ 70 سال گزرنے کو ہیں نہ یہاں اسلامی نظام اس کا ہے نہ جمہوریت، نوجوان پوچھتے ہیں کہ یہ ملک کس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا۔ ہم کب تک ان نوجوانوں کو روک کر رکھیں گے۔ انہوں نے کہا لوگوں اٹھو گھروں سے نکلو، انقلاب لاؤ۔ مرزا اسلم بیگ اپنی سوانح حیات اقتدار کی مجبوریاں میں لکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ جمہوریت کے لئے نہیں بلکہ اسلامی نظام کے لئے تھا، آزادی مارچ کو ناکام بنانے کے لئے سیاسی جماعتوں نے بڑا چال بچھایا تھا۔

جیسے ہی مولانا فضل الرحمن دھرنے والی جگہ سے ڈی چوک جانے کا اعلان کریں گے تو پولیس اور رینجرز ان کو روک نہیں پائے گی فوج طلب کی جائے گی تب لاشیں گریں گی۔ مرزا اسلم بیگ کہتے ہیں کہ 60 کی دہائی میں اس قسم کی سازش انڈونیشیا میں بھی کی گئی تھی جس میں 16 لاکھ افراد قتل ہوئے تھے وہ اور وہ جزیرے میں تھے، یہاں یک طرف انقلابی ایران ہے دوسری جانب جہادی افغانستان ہے اور یہاں اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہاں تو کنٹرول کرنا مشکل ہے۔

افغانستان میں طالبان کو سب سے پہلے مولانا فضل الرحمن اور اس کی جماعت جے یو آئی نے تسلیم کیا اور امریکا سمیت عالمی برادری کو بھی کہا کہ وہ افغانستان کو تسلیم کریں، چائنہ پہلے ہی طالبان کی حمایت کر چکا ہے۔ طالبان کی حکومت قائم ہونے کے اگلے انتخابات میں امکان ہے کہ۔ مولانا فضل الرحمان کو پہلے کی طرح بلوچستان اور کے پی کے کی حکومت دی جائے یا مشترکہ حکومت میں شراکت داری دی جائے، مرزا اسلم بیگ اقتدار کی مجبوریاں میں لکھ چکے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے بعد امکان ہے کہ آئندہ انتخابات میں مولانا فضل الرحمن 20 سے 25 قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کر سکتے ہیں۔

لیکن دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمن اپنے آپ کو اگلا وزیراعظم پاکستان یا صدر مملکت پاکستان دیکھ رہے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ امریکا کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ سندھ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کئی بار کہ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ راستے سے ہٹ جائے تو ہم سندھ میں انتخابات جیت جائیں گے اور حکومت بھی بنا لیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن 2022 تک عام انتخابات کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا اسی طرح احتجاج کرتے ہوئے پانچ سال گزاریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments