اقتدار ہی نہیں، قوم بھی مجبور ہے


خود نوشت میں کوئی بھی انصاف سے کام نہیں لیتا۔ پیش نظر سب کے یہی ہوتا ہے کہ خود کو پارسائی کا ہمالہ ثابت کیا جائے۔ شہاب نامہ ہو یا دو ٹوک باتیں، سب اسی کوشش میں مبتلا ہوئے کہ اپنی خوبیاں بیان کی جائیں تا کہ خلق خدا جان سکے کہ ان میں کیسی کیسی نابغہ روزگار شخصیات کا ظہور ہوا ہے۔ صرف ایک خود نوشت ایسی گزری ہے جس میں مصنف نے بغیر جھجکے اور بنا شرمائے اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔ یہ خود نوشت خشونت سنگھ کی ہے جو کہ Truth، Love، and A Little Malice کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ اس سے بہتر شاید ہی کوئی خود نوشت ہو کہ جس میں مصنف نے اپنی ذات کے بارے میں سچ بولا ہو، غلطیوں کا اقرار کیا ہو اور خود احتسابی کا کڑوا گھونٹ بھی حلق سے اتارا ہو۔ مگر ہماری دھرتی پر عجب موسم ہے کہ لوگ اپنی ذات کی خزاں کے ذکر سے گھبراتے ہیں اور بہار کو بیان کرنے میں اس حد تک جاتے ہیں کہ دروغ گوئی مفہوم ادا نہیں کر سکتی۔ ایک عالم حیرانی ہے کہ سچ بولنے سے کیا چیز مانع آتی ہے۔ سچ بولا ہی نہیں جاتا اور اگر بولا جائے تو بات ادھوری چھوڑ کر کسی اور شاہراہ پر سفر شروع کر دیا جاتا ہے۔

جنرل (ر) اسلم بیگ نے اپنی خود نوشت میں سماجیات سے متعلق کچھ بنیادی غلطیاں کی ہیں، جن کا جواب لازم تھا۔ باقی تاریخی حقائق کس قدر مسخ ہوئے، وہ مؤرخ جانے اور جنرل صاحب، خاکسار کو سرو کار کچھ نہیں۔ جنرل صاحب لکھتے ہیں کہ ملت اسلام کے عظیم سپہ سالار اور شہید پاکستان حضرت ضیاء الحق نے مسجد الحرام میں بیٹھ کر شاہ خالد کی موجودگی میں وعدہ کیا تھا کہ وہ بھٹو کو پھانسی نہیں دیں گے۔ اب ہم تو گناہ گار ٹھہرنے کے باوجود بھی شرم محسوس کرتے ہیں حرم میں بیٹھ کر جھوٹ بولا جائے۔

لیکن جو خود راستی کا مجسمہ تھے، انہیں کچھ پرواہ نہ ہوئی۔ بیگ صاحب کچھ صفحات کے بعد لکھتے ہیں کہ ضیا الحق (صرف نام لکھنے پر درگزر کیجیئے کہ ہر بار سابقے لاحقے لگانے کا یارا نہیں) نپولین جیسی فہم و فراست کے مالک تھے۔ اگر تو جھوٹ بولنے سے نپولین جیسی فہم و فراست کا مالک بنا جا سکتا ہے تو سہ بار مبارک باد کہ آدھی سے زیادہ قوم نپولین کو مات دیتی ہے۔ کیا منافقت کا مکھوٹا چڑھانے سے انسان فہم و فراست کا مالک بن جاتا ہے۔

اگر پیمانہ یہی ہے تو اقرار کیجیئے کہ عبداللہ بن ابی سے بڑا فہیم کوئی نہیں۔ اگر اس پیمانے کو قبول نہیں کر سکتے تو پھر مان لیجیے کہ وہ شخص فہیم نہ تھا۔ بیگ صاحب پھر لکھتے ہیں کہ عراق و ایران کی جنگ کے دوران پاکستان میں بین الاقوامی قوتوں نے فرقہ وارانہ فسادات کروائے۔ جنرل صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ وہ قوتیں کون سی تھیں اور ہمارے ادارے ان فسادات کو روکنے میں ناکام کیوں ہوئے۔ بحیثیت مجموعی، اس ناکامی کی ذمہ داری کس کے سر عائد ہوتی ہے۔

کہا تھا نا کہ سچ بولا ہی نہیں جاتا اور اگر بولا جائے تو پتلی گلی سے نکل لیا جاتا ہے۔ بیگ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کا مقصد اسلام کی سر بلندی ہے اور وہ کبھی اقتدار کی چاہ کے مرتکب نہیں ہوئے۔ یہ بات لکھتے وقت یہی سوچا گیا ہو گا کہ پڑھنے والے تو گھاس کھاتے ہیں جو سوچنے سے عاری ہوں گے۔ کیا مولانا فضل الرحمان کا مقصد اسلام کی سر بلندی ہے؟ ویسے گستاخی معاف، کیا یہ سوال اٹھا سکتا ہوں کہ اسلام کی سر بلندی سے مراد کیا ہے؟

اسلام کی سر بلندی کا نعرہ لگانے والوں کو مقدس کتاب کی یہ آیت کافی ہے، ”اگر تم ایمان لاؤ اور نیک اعمال کرتے رہو تو تمھیں زمین میں اقتدار سونپا جائے گا“، ایمان بس اس حد تک لایا گیا ہے کہ آباؤ اجداد مسلمان تھے تو ہم بھی ہیں اور نیک اعمال سے تو دور کا واسطہ بھی نہیں، اس لیے مختصر راستہ اپناتے ہوئے اسلام کی سربلندی کے کوششیں کی جائیں۔ اسلام سر بلند ہو نہ ہو کم از کم اپنی ذات کا فائدہ تو ہو۔ آخر کے صفحات میں جنرل صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے کچھ پڑھے لکھے افراد سیکولرازم اور لبرل ازم کا نعرہ لگاتے ہیں جس کا محور خدا نہیں بلکہ انسان کی ذات ہے، نعوذ بااللہ (یہ بھی جنرل صاحب نے ہی لکھا ہے)۔

اب اگر کوئی دو دراز دیہات سے تعلق رکھنے والا کوئی سیکولرازم اور لبرل ازم کی یہ تعریف کرے تو بات سمجھ آتی ہے مگر جنرل صاحب کی لاعلمی پر برادر بزرگ کاکڑ ہی کچھ بیان کریں تو بہتر ہو گا۔ کچھ سال پہلے ایک دوست نے کہا تھا کہ پاکستانی عوام چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے جب کہ ہندوستان اور یورپی ممالک میں سیکولر نظام ہو جہاں مسلمان اذان بھی دے سکیں اور کھلے عام اسلامی تعلیمات پر عمل بھی کر سکیں۔ یہ دوغلا معیار آپ کو کافی معاملات میں ملے گا۔

جنرل صاحب کی خود نوشت پڑھتے ہوئے خیال آیا کہ مجبوری صرف اقتدار کی نہیں ہوتی۔ اگر کسی چور سے پوچھیں تو وہ کہے گا کہ میں بھوک سے مجبور تھا۔ جرنیل کہیں گے کہ وہ سیاست دانوں کی نالائقی سے مجبور ہو کر سیاست کے گلستان میں گھستے ہیں۔ خواتین کو ہراساں کرنے والا کہے گا کہ ان کے لباس سے مجبور ہو کر میں نے ان سے بد تمیزی کی ہے۔ گویا کہ ہر کوئی مجبور ہے۔

نوٹ: اقتدار کی مجبوریاں میں سیدنا ثابت بن قیس کو عشرہ مبشرہ میں شامل کیا گیا ہے جب کہ ثابت بن قیس عشرہ مبشرہ میں شامل نہیں ہیں۔ یہ سب سے بڑی غلطی ہے۔ جنرل صاحب بار بار کتاب میں اسلام کی بات کرتے ہیں مگر اس قدر بھی علم نہیں کہ عشرہ مبشرہ میں کون کون سے صحابہ شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments