ننھے طالب علم کا ٹراما


آج کل جس ہسپتال میں کام کر رہا ہوں وہاں قریب ایک مدرسہ ہے۔ کچھ دن پہلے وہاں کے قاری صاحب ایک گیارہ بارہ سال کے بچے کو بیہوشی کی حالت میں ہمارے پاس لائے اور بتایا کہ سبق پڑھتے پڑھتے گر گیا ہے۔

بچے کا معائنہ کیا تو وہ بالکل ٹھیک تھا اور ہوش میں ہی تھا۔ باقی سب کو باہر بھیج کر اس سے کہا کہ آنکھیں کھولو اور مجھے بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟

اس نے کوئی رسپانس نہیں دیا تو اس سے کچھ حوصلہ مندی کی باتیں کر کے اسے اعتماد میں لیا۔ اسے کچھ اطمینان حاصل ہوا تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔

اسے کہا کہ بتاؤ کیا بات ہوئی ہے؟ قاری صاحب نے مارا ہے یا کوئی لڑائی جھگڑا ہو گیا ہے یا گھر والوں نے کچھ کہا ہے؟

اس نے کچھ کہنے کے بجائے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ جب تکلیف کی آنچ کم ہوئی تو آنسو بھی رک گئے۔ پھر اس نے بتایا کہ مدرسے میں تین چار لڑکوں کا گروپ بنا ہوا ہے۔ وہ ہر وقت ماں بہن کی گالیاں نکالتا رہتا ہے۔ میں نے انھیں بہت روکا ہے کہ مجھے اچھا نہیں لگتا مگر وہ نہیں سمجھتے۔ وہ جب بھی مجھے گالیاں نکالتے ہیں مجھے اتنا دکھ ہوتا ہے کہ میرا دل ڈوبنے لگتا ہے۔ مجھے تنگ ہوتا دیکھ کر وہ اور گالیاں نکالنے لگتے ہیں۔ وہ مجھ سے بڑے ہیں، میں انھیں کچھ کہہ بھی نہیں سکتا۔ آج بھی یہی ہوا اور پھر مجھے چکر آ گیا۔

میں نے باہر بیٹھے قاری صاحب کو بہتر الفاظ میں معاملہ سمجھایا، انھوں نے متعلقہ لڑکوں کی سرزنش کی یقین دہانی کروائی اور واپسی کی راہ لی۔

دیکھنے اور سننے میں آپ کو یہ بات شاید معمولی لگے کیوں کہ ہمارے پنجاب میں ماں بہن کی گالی کا کلچر اتنا عام ہو چکا ہے کہ گالی کے بغیر اکثر لوگوں کی کوئی بات ہی مکمل نہیں ہوتی۔ مگر ایسے حساس دل لوگ جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو گہرائی میں محسوس کرتے ہیں یہ گالیاں ان کے لیے سوہان روح ہوتی ہیں۔

ہم جہاں اپنے بچوں کو اتنی باتیں سکھاتے ہیں، انھیں یہ کیوں نہیں سکھا سکتے کہ دوسروں کا احترام کتنا ضروری ہے۔

گھر، سکول یا مدرسے میں بچوں کو اپنے ساتھیوں کی عزت کرنا کیوں نہیں سکھاتے؟

ہم اپنے بچوں کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ جو بات کسی کے لیے تکلیف کا سبب بن رہی ہو اس بات سے پیچھے ہٹ جانا ہی انسانیت کی معراج ہے۔

سب بچے ایک جیسے نہیں ہوتے، خدارا اپنے بچوں کو سکھائیں کہ دوسروں کو ان کے اختلاف اور انفرادیت سمیت قبول کرنا اور ان کی تکریم کرنا ہی افضل عمل ہے۔

ان کو سمجھائیں کہ کسی دوسرے کی تکلیف کی وجہ بننا کتنا شرمناک اور گھٹیا فعل ہے۔

اور اپنے بچوں کو یہ بھی بتائیں کہ کسی کے گالی دینے سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گالی دینے والا اپنی زبان اور اپنا کردار گندا کرتا ہے، اس سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا جسے گالی دی جا رہی ہو۔

انھیں بتائیں کہ اگر کوئی باؤلا ہو جائے تو وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے، کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ہمارا کام بس ایسے فرد سے دور ہٹ جانا ہے۔ اس کی باتیں یا حرکتیں ہمارے لیے بے معنی ہو جاتی ہیں۔

اپنے بچوں کو اندھا دھند تعلیم کی دوڑ میں مت لگا دیں۔ انھیں بتائیں کہ خود کیسے جینا ہے اور دوسروں کو کیسے جینے دینا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments