افغانستان اور آئل وار


امریکی افواج کا افغانستان سے اچانک انخلا اور طالبان کے کابل اور دیگر شہروں پر قبضہ ہو چکا۔ میڈیا کو لمحہ لمحہ بریکنگ نیوز کا چورن میسر آ گیا۔ ٹاک شوز میں ”سینئر تجزیہ نگار“ عقل و دانش کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں اور کئی اینکرز تو کابل میں طالبان کی واپسی کو ”فتح مکہ“ سے تعبیر کر رہے ہیں اور کسی کو فتح کابل میں اسلام کی ایک نئی نشاط ثانیہ بھی دکھائی دے رہی ہے۔

اس سارے منظر نامے سے پرے شاید حقیقت کچھ اور ہو جس کی طرف توجہ ہی نہیں دی جا رہی وہ ہے افغانستان میں آئل۔ گیس اور قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر۔ اس کی اکسپلوریشن اور ترسیل ہے۔

میں آئل سیکٹر میں تقریباً تین دہائیوں تک مختلف اہم پوزیشن پر خدمات انجام دیتا رہا۔ کمپنی پہلے فرنچ تھی اور بعد میں اس کا اشتراک ایک امریکن گروپ سے ہو گیا یہ ایک ملٹی نیشنل ڈرلنگ کمپنی تھی۔ اس کمپنی نے سنہ بیاسی سے دو ہزار کے بعد تک پاکستان میں متعدد مقامات پر ڈرلنگ کی۔

شاید نوے کی دہائی میں کمپنی نے مجھے اسلام آباد بھیج دیا وہاں
ایک امریکن آئل کمپنی یونوکول UNOCOL کا بھی دفتر تھا جو افغانستان میں Seismic Survey

کر رہی تھی۔ اس کمپنی کے ایک امریکن دوست نے مجھے افغانستان میں کئیے گئے سروے رپورٹ دکھائی جو پڑھ کر میرے ہوش اڑ گئے اس سروے رپورٹ کے مطابق افغانستان اور اس کے ملحقہ علاقوں میں آئل اور گیس کے علاوہ مختلف قیمتی معدنیات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے جس کی مالیت کئی ٹرلین ڈالر ہو سکتی ہے۔ لیکن مسئلہ تھا کہ وہاں سے یہ معدنی ذخائر کس طرح نکالے جائیں جس کی وجہ وہاں کی جغرافیائی کنڈیشن۔ مختلف قبائل کی باہمی دشمنی اور امن و امان کی صورتحال تھی۔

لہذا ہونوکول کی انتظامیہ نے ایک پلان بنایا اور سارے وار لارڈز ( قبائلی سردار) کو خصوصی جہاز میں ہیوسٹن مدعو کیا جہاں ایک افغان بستی بسائی گئی اور کمپنی کے سی ای او نے ان قبائلی سرداروں کا افغانی لباس میں استقبال کیا۔ کئی دن وہ ان افغانوں کے ساتھ رہا اور ان سے ایک معاہدہ طے پایا جس کے مطابق ہر وار لارڈز کے علاقے سے گزرنے والی پائپ لائن پر اس قبیلے کے سردار کو اس کی رائلٹی اور کمیشن کی تقسیم تھی۔ معاہدہ ہونے کے بعد اس قافلے کو واپسی پر خصوصی جہاز میں کو جدہ لیجایا گیا اور عمرہ بھی کروایا اس کے بعد کعبۃ اللہ میں ہی قرآن پر سب نے معاہدہ پر عمل کرنے کی قسم بھی کھائی اس طرح یہ قبائلی سردار واپس افغانستان پہنچے لیکن کچھ ہی دن بعد فریقین نے معاہدے کو قدموں تلے روند ڈالا اور ایک دوسرے سے دست گریباں ہو گئے۔

طالبان وار لارڈز کی ساری جنگ اپنے اپنے علاقوں سے مجوزہ گزرنے والی پائپ لائن اور اس پر ملنے والے کمیشن اور حصے کی ہے اور یہی ان طالبان کے درمیان گروپنگ اور کشت و خون کی اصل وجہ ہے۔ یہ ایک سیدھی سادھی آئل وار ہے۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ افغانستان میں اگلے دو سو سال تک کے آئل۔ گیس اور قیمتی معدنیات کے ذخائر ہیں اور اس پر قبضہ اس کا اصل ہدف ہے۔ اسامہ بن لادن کو امریکہ نے خود لاکر افغانستان میں بسایا تھا۔ اسامہ کو نائن الیون کی دہشت گردی کا ماسٹر مائنڈ بنا کر افغانستان میں مداخلت کا جواز پیدا کیا گیا تاکہ افغانستان کو روس کا قبرستان بنا دیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکن ڈالرز۔ سعودی ریال اور پاکستانی مجاہدوں نے سعودی / امریکی برانڈ جہاد شروع کر دیا۔

پاکستان میں قائم مدارس جہادی فیکٹریاں بن ہو گئیں اور دھڑا دھڑ مجاہد روس سے مقابلہ کرنے کے لیے افغانستان بھیجے جانے لگے اور ڈالر کی برسات شروع ہو گئی جسے ہمارے اداروں اور ملاؤں نے خوب لوٹا۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے امیر سے جب سوال کیا گیا کہ اگر روس بے دین ہے تو امریکہ بھی مسلمان نہیں تو پھر اس کی مدد سے کیا جہاد جائز ہے۔ اس جماعت کے امیر نے وہی چھوٹے شیطان اور بڑے شیطان کا گھسا پٹا بیانیہ دہرایا کہ ”چونکہ روس ملحد ہے اور خدا کے وجود کا منکر ہے جبکہ امریکن اہل کتاب ہیں اور روس کے مقابلے میں چھوٹے شیطان ہیں لہذا ان کی مدد سے روس سے جہاد کرنے میں کوئی حرج نہیں“

سوویٹ یونین پہلے ہی معاشی مسائل کا شکار تھا اسے افغانستان میں مہم جوئی مہنگی پڑی۔ وہاں کی جغرافیائی کنڈیشن۔ امریکن اسٹنگر میزائل اور جدید اسلحہ کے علاوہ سعودی سپورٹ اور پاکستانی مجاہدوں نے روس کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا نتیجتاً سوویت یونین اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔

سویٹ یونین کا ٹوٹنا پچھلی صدی کا ایک المیہ تھا اس کی بربادی کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کے طور سامنے آیا اور دنیا کی حکمرانی اس کے حصے میں آئی۔ روسی شکست سے پہلے دنیا بائی پولر تھی اور طاقت کا توازن کسی حد تک قائم تھا اس المیے کے بعد دنیا یونی پولر ہو گئی اور انکل سام واحد سپر پاور بن بیٹھے۔ روس کے ٹوٹنے اور اپنے مقاصد حاصل کر لینے کے بعد امریکہ کو اسامہ کی ضرورت نہیں رہی اور امریکہ نے اسامہ کو بھی نشان عبرت بنا دیا۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور نہ ہی اصول۔ اہم بات مفادات اور ٹائمنگ ہوتی ہے۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ سیاست کے اس کھیل میں دوستی اور دشمنی کبھی دائمی نہیں ہوتی آج کا دوست کل کا دشمن اور پھر وہی دشمن گہرا دوست ہوجاتا ہے یہی سیاست کا اصول ہے۔

کل تک ہم جس ملحد روس کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ”جہاد“ کر رہے تھے آج اسی گرم پانی کو پلیٹ میں رکھ کر کمیونسٹ چین کے حوالے کر دیا اور اب ہم اسی روس کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقیں بھی کر رہے ہیں۔

افغانستان میں طالبان قابض ہو گئے لیکن یہ نہ بھولیں کے وہ بندوق کی طاقت سے آئے ہیں۔ ان کی ”حکومت“ افغانستان میں آباد دوسرے گروہ کے لیے قابل قبول نہ ہوگا۔ احمد شاہ مسعود کی جانب سے وادی پنج شیر پر طالبان کے حملے پر مزاحمت کا اعلان کیا جا چکا ہے اور جھڑپیں شروع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ

افغانستان تین بڑی قومیتوں میں بٹا ہوا ہے جن میں قیامت تک اتحاد اور اتفاق نہی ہو سکتا ۔ سب سے بڑا دھڑا پشتونوں ( تقریباً چالیس سے یادیں فیصد ) ہیں جن کی سربراہی طالبان کرتے ہیں جو مذہبی کٹر پسند ہیں ان کا زیادہ تر تعلق پشتونوں بیلٹ کے گاؤں دیہاتوں سے ہے۔ دوسرا دھڑا ازبک افغانیوں کا ہے جو شمال میں رہتے ہیں پھر تاجک ہیں، ایک بڑی تعداد میں شیعہ ہزارہ ہیں، ان دھڑوں کا فطری اور مسلکی اختلاف بہت شدید ہے۔ طالبان کے علاوہ باقی تمام سیکولر خیالات کے لوگ ہیں جن کی اکثریت کابل اور اردگرد کے علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ ان سب دھڑوں کی ذہنی کیمسٹری بالکل نہیں ملتی۔

طالبان کی ناک میں تو کسی حد تک نکیل ڈال جا سکتی ہے لیکن ایک اور خطرہ خطہ میں منڈلا رہا ہے۔ اور وہ ہے داعش جس کی انٹری ڈالی جا چکی ہے۔ ابھی کل ہی کابل میں یکے بعد تین دھماکے کر کے انہوں نے اپنی موجودگی کا اعلان کر دیا ہے۔

داعش کے متحرک ہونے اور ٹی ٹی پی کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر ایک نئی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے جو پاکستان تک آ سکتی ہے اور پاکستان ایک بار پھر نئے افغان مہاجرین کی ”مہمان نوازی“ اور پرائی آگ کا شکار ہو سکتا ہے جس سے خطہ میں ایک نئی کشمکش جنم لے سکتی ہے۔

امریکہ ایک بار پھر افغانستان سے انتہائی عجلت میں نکل گیا اور ایک بڑی تعداد میں اسلحہ اور جنگی ساز و سامان بھی چھوڑ گیا۔ کیا یہ کسی نئے پلان کی ابتدا تو نہیں۔

چند ہفتوں ہی میں سب معلوم ہو جائے گا گمان ہے کہ ایک بار پھر یہی گروپ باہم دست و گریباں ہوں گے ۔ مدرسے پھر نئے جہادی تیار کریں گے۔ لشکر اور دیگر مذہبی آؤٹ فٹس بھی فعال ہوں گے ۔ ڈالروں کی برسات ہونے کو ہے۔

اس تناظر میں ہمارا کیا بنے گا۔ اس بار کچھ اور عالمی طاقتیں بھی اس کھیل میں شامل ہو سکتی ہیں ایک بار پھر ہم سینڈوچ اسٹیٹ تو بننے نہیں جا رہے۔

اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہمارے حکمرانوں کو ماضی سے سبق سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments