پنجاب پولیس کا اختیاراتی سوشل ٹرینڈ اور معاشرتی لاقانونیت کا فساد


پولیس اور معاشرہ ایک ہی قانونی عملداری کی دو مختلف اکائیاں ہوتی ہیں۔ پولیس معاشرے پر قانون لاگو کرنے کی مجاز اتھارٹی ہوتی ہے اور معاشرہ اسے ماننے اور منوانے کی پابندی نبھاتے ہوئے براہ راست پولیس سے رجوع کرتا ہے، جس کے نتیجے میں پولیس اپنے اختیاراتی عمل کا ایک نقش، ایک عکس یا ایک تاثر معاشرے کے سامنے واء کر کے قانون یا لاقانونیت کا کوئی رجحان یا ادراک جماتی ہے جو اس کے اختیارات کا سوشل ٹرینڈ بن کر معاشرتی سدھار یا معاشرتی فساد کے قالب میں ڈھلنے کے لئے رو بکار ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی ساری پولیس کے اختیار کردہ سوشل ٹرینڈ کا سکہ چونکہ ایک جیسے استعمال سے چلتا ہے، اس لئے اسے سمجھنے کے لئے یہاں سب سے بڑے صوبے پنجاب کی پولیس کے سوشل ٹرینڈ کا سکہ رائج الوقت ہی موضوع قلم لیا جائے گا، تاکہ اس کے احوال کی نشاندہی سے باقی سب کی گرہ کشائی کے لیے کنجی پہچانی جا سکے۔

تاہم، اس جانب آگے بات کرنے سے پہلے پاکستان پولیس کا اجتماعی سوشل ٹرینڈ اگر جان پانا درکار ہو، تو اس کا نہایت سادہ اور آسان سا مشاہدہ ناظرین نے ٹی وی پر خود بھی کر رکھا ہے کہ نور مقدم کیس کے ملزمان عدالت میں پیش کیے جاتے ہیں تو ان کے سر اور چہرے اس طرح ’کجے نوٹے‘ ہوئے نہیں دکھائے جاتے، جس طرح عائشہ اکرام کیس کے ملزمان دکھائے گئے۔ قانونیت اور لاقانونیت کا ایسا فیصلہ پولیس کے اختیاراتی سوشل ٹرینڈ کا جیتا جاگتا ایسا مظہر ہے جس سے خود بخود بھانپا جا سکتا ہے کہ دال میں کہیں نہ کہیں کچھ کالا ضرور ہے جو پولیس کے اختیار کردہ اور وا کردہ سوشل ٹرینڈ کی مرغوب ’غذا‘ ہے

پنجاب کی ضلعی سطح پر پولیس کے اختیار کردہ سوشل ٹرینڈ کی ایسی غذا خوری کا بندوبست مقامی ڈی پی او کی اتھارٹی سے متعارف ہو کر نیچے سب کے لئے رواں پذیر ہوتا ہے۔ ’ٹرانسپرنسی اسی اینڈایکسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ‘ کے حوالے سے کوئی عام شہری ڈی پی او کو درخواست پیش کرے کہ کسی انکوائری رپورٹ کی مصدقہ نقل کے اجرا کا حکم حاصل کر سکے، تو ایسی درخواست نامنظور کر کے اسے سرد خانے میں ڈلوا دیا جاتا ہے تا کہ شہری عدالتی اخراجات سے بچنے کے لئے مجبوراً متعلقہ آفس سے کم از کم مطلوبہ رپورٹ کی فوٹوکاپی تو ہاتھ لے سکے۔

البتہ اس مقصد کے حصول کے لیے کچھ نہ کچھ ’غذا‘ کا بندوبست اسے پورا کرنا پڑے گا۔ یہی فوٹوسٹیٹ کسی معاملے میں وہ دوسرے افسر کو بطور ثبوت پیش کرے تو یہ پولیس افسر اس شہری کو قانون اور ضابطے کی خلاف ورزی پر آڑے ہاتھوں لینے پر تل جائے گا، جس سے بچنے کے لیے پھر اس شہری کو ’غذا‘ کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ یہی فوٹو کاپی کسی عدالتی Mark/DD کے ساتھ دوسرا فریق ڈی پی او تک جا پہنچے کہ عدالت میں یہ پولیس آفس کے ریکارڈ کی فوٹو کاپی متعلقہ فریق نے کیوں استعمال کی، جو دفعہ 468 یا دفعہ 471 کے تحت قابل دست اندازی پولیس جرم ہے، تو یہ معاملہ ڈی پی او متعلقہ ڈی ایس پی کو مارک کر دے گا، جہاں پھر فیصلہ اس فریق کے حق میں ہوگا جو ’غذا‘ کے بندوبست پر پورا اترے گا۔ متذکرہ احوال خود تراشیدہ بیان بازی نہیں، بلکہ عین دستاویزی اور واقعاتی حقائق گوئی کا نچوڑ ہیں۔ بے شک کوئی باضابطہ کمیشن (بدون پولیس) ثبوت بھی طلب کر سکتا ہے۔

پنجاب پولیس کا مرکزی اور ہیڈ آفس لاہور ہے، جہاں کنٹرولنگ اتھارٹی آئی جی آفس کے چیئر ہولڈر کے پاس ہوتی ہے۔ پنجاب کا آخری سرا ضلع اٹک پر آ پہنچتا ہے، جس کی کنٹرولنگ اتھارٹی ڈی پی آفس کے چیئرہولڈر کو سونپی گئی ہوتی ہے۔ یہ ضلع دریائے سندھ کے شرقی علاقے پر مشتمل ہے جو سلسلہ کوہ کالا چٹا کے آر پار وسیع نواحات کی کثیر آبادیوں پر پھیلا ہوا ہے اور ڈی پی او اٹک کی جیورسڈکشن کے اندر واقع ہے۔ اس جیورسڈکشن کے تحت نواحات کی اکثر آبادیوں میں طرح طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، لیکن لاقانونیت کے اقدامات شاذونادر ہی میڈیا میں ہائی لائٹ ہوتے ہیں یا رپورٹ ہوتے ہیں۔ رپورٹ ہو جائیں تو پولیس کی جانب داری یا پشت پناہی کے ایسے جھمیلوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے کہ رپورٹ کنندہ کی سٹی گم ہو جاتی ہے۔

مثلاً، کوئی شہری تھانہ صدر اٹک کے ایس ایچ او کو شکایت کرتا ہے کہ اس کی پولیس پارٹی نے اس کے گاؤں میں مقفل حویلیوں کے کنڈے، تالے توڑ کر بلاجواز دراندازی کی اور خانہ تلاشی بھی، سمیت ایک خانہ آباد گھر کی چادر اور چار دیواری پامال کرتے ہوئے خاتون خانہ اور گھر کے سرپرست سے رقم بھی چھین کر غصب کر لی، تو اس پر ایس ایچ او زبانی معذرت کر کے تھانے سے نکل جائے گا۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ کسی نوجوان کو پولیس اٹک شہر سے پکڑ کر اس کے گاؤں لے گئی کہ وہ جگہ دکھائے جہاں وہ شراب کشیدگی کرتا ہے۔

کیونکہ اس نوجوان پر تھانے کے ریکارڈ میں پہلے سے ایسے مقدموں کا اندراج ہے، جن میں وہ بری ہو چکا ہے، سوائے منشیات کے ایک مقدمے کے جس میں اسے کم و بیش سال کی پروبیشن سزا ہو چکی ہوتی ہے۔ حویلیوں سے کوئی شراب نہیں ملتی تاہم ایف آئی آر میں جائے موقع ملزم کا ویران مکان لکھا گیا لیکن نقشہ جائے موقع شکایت کرنے والے شہری کی ایک مقفل حویلی کا مرتب کیا گیا۔

ایس ایچ او او سے مایوس ہونے کے بعد وہی متاثرہ شخص ڈی پی او اٹک کو تحریری درخواست پیش کرتا ہے۔ پہلے تو ڈی پی او شہری کو یہ جتاتا ہے کہ تم درخواستیں دے کر پولیس کی کارگزاری کو نقصان پہنچانا چاہتے ہو۔ شہری کو پھر بھی مصر پا کر ایک اے ایس پی کو انکوائری افسر مقرر کرتا ہے۔ انکوائری افسر نتیجہ رپورٹ اخذ کرتے ہوئے شہری کی ایک اور حویلی سے شراب برآمدگی کا قصور درج کر دیتا ہے، جو پولیس کے نقشے میں دی گئی حویلی کے بجائے کسی اور نامعلوم حویلی سے منسوب کر لی جاتی ہے۔

شہری ڈسٹرکٹ کورٹ سے 22 اے کے تحت درخواست دائر کرتا ہے۔ ڈسٹرکٹ جج ملزم کے تھانہ ریکارڈ کی توجیہ لگا کر درخواست خارج کر دیتا ہے۔ شہری ہائی کورٹ سے رجوع کرتا ہے، جہاں سے پرائیویٹ استغاثہ دائر کرنے کی ایڈوائس پر سول کورٹ میں پولیس پارٹی کے خلاف آدھی دفعات کے تحت دائر ہو جاتا ہے، باقی دفعات کے لئے ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ میں نگرانی کی اپیل دائر ہونے کے بعد تمام دفعات میں کیس چل پڑتا ہے تو ایک پولیس کانسٹیبل عدالتی مفرور ڈکلیئر ہو جاتا ہے۔ پھر بھی پولیس مذکورہ ملزم کے خلاف اس کی گواہی عدالت میں آن لائن پیش کرنے کی چارہ گری آزمانے پر آجاتی ہے جس کا نوٹس لینے کے لیے متعلقہ ایس ایچ او اور محرر عدالت میں طلب کر لیے جاتے ہیں۔

تھانے کی پولیس مستغیث کو جرگوں اور اپنے حربوں سے دباؤ کی ہر آزمائش پر اتر آتی ہے۔ نہ ماننے پر اسی ملزم کے خلاف 9 سی کا دوسرا مقدمہ اینٹی نارکوٹکس فورس سے درج کروا لیتی ہے۔ دونوں مقدموں سے ملزم بری ہوجاتا ہے، تو اس پر 9 سی کا تیسرا مقدمہ جھونک دیتی ہے، جو زیر سماعت ہو جائے تو اس ملزم کے سوتیلے بیٹے اور ایک حقیقی چچا زاد پر بھی دو الگ الگ منشیات کے مقدمات ایک ہی تاریخ پر تھانہ پولیس درج کر ڈالتی ہے۔ یہ تینوں ملزمان مستغیث کے بھتیجے، پوتے وغیرہ بنتے ہیں۔

ڈی پی او اور انکوائری افسر کے خلاف مستغیث کئی درخواستیں آئی جی صاحب کو بھیجتا ہے کے ان کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال، پولیس پارٹی سے جانبداری اور اپنے منصبی حلف کی خلاف ورزی پر قانونی/ محکمانہ کارروائی کی جائے، لیکن یہ درخواست آر پی او کو مارک ہونے کے بعد کبھی انٹر اکاؤنٹیبلیٹی کے دفتر چلی جاتی ہے، کبھی دوسرے ایس ایس پیز کو مارک کر دی جاتی ہے، جو نہ مسؤل علیہان کو طلب کرتے ہیں اور نہ سائل کی شنوائی پوری کرتے ہیں۔

آئی جی آفس تو پنجاب پولیس کا آخری سرا ہے۔ اس کے بعد متاثرہ شہری کدھر جائے؟ سوائے اس کے کہ پھر مسؤل علیہان دونوں افسران کا مقدمہ کسی ہائی کورٹ میں پیش کرے۔ اگر سب کچھ عدالتوں نے ہی کرنا ہے تو پھر پولیس کے اتنے بڑے ڈھانچے کی ”غذا“ کے لیے پورے معاشرے کو پولیس کے اختیار کردہ سوشل ٹرینڈ کی بھینٹ چڑھانے کی کیا ضرورت ہے؟ عدلیہ کی پولیس تو پہلے سے بارز کی شکل میں ہر جگہ موجود اور دستیاب رہتی ہے جو غذا کی بجائے قانونی فیس لے کر معاشرت کو سدھارنے کے کام آ سکتی ہے۔ پولیس کا اختیار کردہ سوشل ٹرینڈ معاشرتی سدھار کی بجائے آئے روز معاشرتی فساد کی اس صورت پر آ گیا ہے جہاں لاقانونیت دینی مدرسوں سے لے کر قبر کے با پردہ مکینوں تک اپنی دسترس پا چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments