قسیم ڈاکٹرائین (جنرل قاسم سلیمانی)


میری ایک تحریر بعنوان ”مشرق وسطی کی بگڑتی صورتحال اور تیسری جنگ عظیم“ 2016 میں ہم سب پر چھپی تھی جس کا براہ راست تعلق آج کی تحریر سے ہے۔ میں نے قسیم ڈاکٹرائین کی اصطلاح اپنی گزشتہ تحریر ”افغانستان اور سازشی تھیوریز“ میں بھی استعمال کی تھی جس کے بعد کافی دوستوں نے اس بابت استفسار کیا تھا۔ 2016 کے اوائل میں شیخ نمر النمر کی سعودی عرب میں پھانسی نے عرب اور عجم (ایران) کے حالات کافی خراب کر دیے تھے ان حالات میں سیاست کے ایک طالب علم کے لئے پہلی جنگ عظیم کے پھوٹنے کے اسباب پر غور کرنے سے حالات و واقعات کی ایک خوفناک مماثلت سامنے آئی تھی۔

جس پر راقم نے سیر حاصل بحث کرنے کی کوشش کی تھی۔ حتی کہ عراق جنگ میں فلوجہ کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے جنرل قاسم کی افواج نے جب نمرنمر کے نعرے لگائے تو یوں محسوس ہوا تھا کہ یہ قتل آسٹریا میں ہونے والے آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کے قتل کا ری پلے ہے۔ 3 جنوری 2020 کے دن جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت نے خطے کی صورت حال کو مزید پیچیدہ کر دیا تھا۔ قاسم ڈاکٹرائین پر بات کرنے سے پہلے جنرل قاسم سلیمانی کی شخصیت کو سمجھنا اور جاننا بہت ضروری ہے ذیل میں ان کا تعارف پیش خدمت ہے۔

جنرل قاسم سلیمانی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں میجر جنرل کے عہدے پر فائز تھے وہ قدس فورسز کے کمانڈر تھے جو کہ یروشلم فورسز بھی کہلاتی ہیں۔ ایران میں سپریم لیڈر علی خمینائی کے بعد دوسرے مضبوط ترین انسان سمجھے جاتے تھے۔ وہ 11 مارچ 1957 کو کرمان میں پیدا ہوئے انقلاب سے پہلے وہ تعمیرات کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کی بڑی وجہ قاسم سلیمانی کو ہی سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ وہ زیادہ منظر عام پر نہیں آتے تھے۔

پھر بھی تمام ایرانی اور بین الاقوامی کمیونیٹی جانتی تھی کہ خطے میں ایرانی طاقت کا مظہر قاسم سلیمانی ہی ہے۔ اس کے براہ راست تعلقات عراق، شام، یمن، لبنان اور غزہ کے سرکردہ لوگوں کے ساتھ تھے اور ان ممالک میں اس کا آنا جانا تواتر سے ہوتا تھا۔ 3 جنوری 2020 میں ان کو بغداد ائر پورٹ پر ڈرون اٹیک میں ہلاک کر دیا گیا ان پر امریکی ایمبیسی پر حملہ اور امریکیوں کے قتل کی سازش کا الزام تھا ان کے قتل کا حکم مبینہ طور پر صدر ٹرمپ نے خود دیا تھا۔

یوں امریکہ کی اپنے مدد گاروں کو قتل کرنے کی روایت بھی برقرار رہی۔ ایران میں اس قتل پر بہت غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ ان کے جنازے میں ایران اور عراق کے کثیر لوگوں نے شرکت کی۔ جنرل قاسم کے کارناموں میں سب سے بڑھ کر روس کو شام کی جنگ میں شامل کرنا تھا۔ شام میں تہران بشارالاسد کی حکومت کو سپورٹ کر رہا تھا جبکہ امریکہ باغیوں کا مددگار تھا اور ہر حال میں شامی حکومت کو ختم کر دینا چاہتا تھا مگر جنرل قاسم کی بہترین حکمت عملی کی بدولت روس اس جنگ کا حصہ بن گیا جس کی وجہ سے طاقت کا توازن برابر ہوا اور آج بھی بشارالاسد کی حکومت قائم ہے۔ شام میں شیعہ ملیشیا اور حزب اللہ کی مدد سے امریکی حمایت یافتہ باغیوں کی کامیابی سے مزاحمت کی گئی۔

قسیم ڈاکٹرائین

جنرل قاسم نے القاعدہ طریقہ کار کو اپنا کر مختلف پراکسی وارز میں کامیابیاں سمیٹیں۔ ان کا ماننا تھا کہ دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنے کے لئے ان جیسا با وسائل، منظم اور مذہبی و سیاسی نظریے سے لیس ہونا ضروری ہے، جیسا کہ داعش اور دیگر تنظیمیں ہیں اسی لئے فری سربین آرمی، الجمتہ اشامیہ اور النصرہ فرنٹ میں سنی العقیدہ لوگوں کے مقابلے پر شیعہ گروپس کو لایا گیا جن کی ایک جیسی سوچ، نظریے اور لڑنے کی حکمت عملی نے جنرل قاسم کے گروپس کو ہر جگہ فتح دلائی۔

جنرل قاسم نے اسی شکل اور ماڈل کا استعمال کیا اور پوری دنیا سے شیعہ کو ان تنظیموں میں ریکروٹ کیا اور مختلف پراکسی وارز میں استعمال کیا۔ عراق اور افغانستان میں انہی شیعہ ملیشیاز نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ جنرل قاسم نے عراق میں داعش سے لڑنے کے لئے لبنانی شیعہ پر مشتمل حزب اللہ، ایرانی اور افغانی شیعہ کی فرقہ الفتحون، عراقی شیعہ کی حرکتہ الجنابہ، لوائے عباس اور دیگر کئی تنظیموں کو اس ڈاکٹرائین کے مطابق اس جنگ میں جھونک کر امریکہ کی خوب مدد کی۔

عراق کی موجودہ حکومت صرف اور صرف جنرل قاسم کے ڈاکٹرائین کی وجہ سے امریکہ کو ملی۔ اسی طرح افغانستان میں ایرانی اور افغانی شیعوں نے طالبان کے خلاف امریکہ کی مدد کی۔ مگر اس حکمت عملی نے ایران کو پوری عرب دنیا کے لئے بے چینی کی وجہ بنا دیا اور عرب دنیا اپنے آپ کو ایران کا یرغمال سمجھنے لگی تھی۔ اسی دوران حلب کی جنگ نے ایک انسانی المیے کو جنم دیا جب بشارالاسد کی افواج نے باغیوں پر کیمیائی حملہ کیا اس حملے میں روس اور جنرل قاسم کی ملیشیا بھی شامل تھی۔

اس نے جنرل قاسم سلیمانی کو عرب دنیا کے لئے مزید ناقابل قبول بنا دیا۔ روسی اور شامی فورسز کی جانب سے بیرل بمبز کے حملوں نے حلب میں موجود یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج کے 300 مقامات کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس حملے کے بعد اقوام متحدہ نے حلب کی خود مختاری کی تجویز بھی دی تھی جس کو رد کر دیا گیا تھا۔ بشارالا سد کی حکومت نے کسی بھی کیمیائی حملے سے انکار کر دیا۔ جنرل قاسم کی ہلاکت کا سال ایران کے لئے کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا سال کے اوائل میں قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور بعد ازاں کرونا کے خطرناک وار نے ایران کو ہلا کر رکھ دیا اسی سال جولائی میں ایرانی نیو کلیئر فیسیلیٹی پر مبینہ دہشت گرد حملہ اور نومبر میں ایک اور اہم ایرانی شخصیت اور سائنسدان محسن فخری زادہ جو کہ پاسداران انقلاب کا حصہ اور ایران نیو کلیئر پروگرام کا ایک سینئر آفیشل تھا کو مبینہ طور پر اسرائیل نے قتل کروا دیا۔

یہ واقعات قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ہوئے اور یقیناً ایران کے لئے پریشانی کا باعث بنے اور خطے میں ایران کی مضبوط ہوتی ہوئی پوزیشن کو نقصان پہنچایا۔ اس نقصان کی بھرائی کے لئے اسماعیل قانی کو قدس فورسز کا کمانڈر بنایا گیا جو کہ قاسم سلیمانی کا عراق ایران جنگ کے دور کا ساتھی ہے۔ اور یمن میں حوثی باغیوں کا سب سے بڑا حامی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے تعلقات بھی شام، یمن، عراق، لبنان اور غزہ کے ساتھ کافی پائیدار ہیں۔ دیکھتے ہیں اسماعیل قانی کیسے جنرل قاسم سلیمانی کے تیار کردہ نقشے میں رنگ بھرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments