یکساں نظام تعلیم سے یکساں کتاب تعلیم تک


رسمی تعلیم بھی پروپیگینڈا کا ایک ذریعہ ہی ہوتی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی فری یعنی بے تعصب تعلیم موجود نہیں۔ ہر ملک میں اس رسمی تعلیم کے اپنے اہداف ہوتے ہیں۔ تاہم دنیا میں تعلیم میں تعصب کے مقدار مختلف ہوتے ہیں اور اسی طرح تعلیم و تدریس کے طریقے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کہیں پہ پڑھانے کا معیار اور نصابی کتب کا معیار بہتر ہے تو کہیں پہ ان کا معیار گرا ہوا ہوتا ہے۔ کہیں پہ تدریس سٹوڈنٹس کی تنقیدی صلاحیت یعنی پرکھنے کی ذہنی استطاعت پر زیادہ زور دیتی ہے تو کہیں پہ یہ تدریس آنے والی نسلوں کو اس جمود کا پیروکار بناتی ہے جو نظریاتی، فکری اور سماجی و سیاسی لحاظ سے خاص طبقات کے لئے مفید ہوتا ہے۔ کہیں پہ تعلیم اندھی تقلید کو پروان چڑھاتی ہے تو کہیں پہ اس سے سوال اٹھانے کی صلاحیت ابھارتی جاتی ہے۔

یہ جدید رسمی تعلیم یورپ کے ”قومی ریاست“ کے تصور سے جڑی ہوئی ہے۔ جب دنیا کے قدیم مقامی سیاسی نظاموں سے سلطنتوں نے جنم لیا تب رسمی تعلیم کا ایسا رواج نہیں تھا۔ جب ان ہی سلطنتوں کے بطن سے قومی ریاستوں نے جنم لیا تو ان کو برقرار رکھنے کے لئے ایک خاص نظریہ، وحدت اور انصرام کی ضرورت پڑی۔ انہی قومی ریاستوں کی بقا کے لئے رسمی تعلیم کو بنیادی حیثیت حاصل رہی۔

بعد میں جب دنیا عالمگیریت کی طرف چلی تو تعلیم میں بھی بنیادی تبدیلیاں لازمی قرار پائیں تاکہ گلوبلزم یعنی مختلف ریاستوں کے بیچ ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہو۔ یہاں ”ریاست“ اور ”قوم“ ہم معنی سے ہو گئے۔ اس لئے ریاستوں کے اتحاد کو ”اقوام متحدہ“ کہا گیا اگرچہ یہ قوموں کا نہیں بلکہ ریاستوں کا اتحاد ہے۔

پاکستان کی تحریک میں یہی یورپی ریاست کا تصور متحرک رہا اگرچہ یہاں قوم کو مذہب کی بنیاد پر تشکیل دینے کی کوشش کی گئی۔ چونکہ اس یورپی ریاستی تصور میں زبان و ثقافت کا بڑ دخل ہوتا ہے اس لئے مذہب کے ساتھ ساتھ ایک زبان کو بھی قومی شناختی علامت کے طور پر پیش کرنا شروع کیا گیا۔ تاہم جو بڑی رکاوٹ اس منصوبے میں حائل رہی وہ 1947 ء کے بعد بھی ہندوستان میں کثیر تعداد میں مسلمانوں کا مقیم رہنا تھا۔ اس نئی ریاست کے جواز کے لئے مذہبی شناخت پر زور دیا گیا اور اسی کی بنیاد پر ایک زبان کو قومی زبان بنا کر لاگو کیا گیا۔ اس جبر کا نتیجہ بعد میں بنگلہ دیش کی صورت میں نکلا۔

پاکستانی ریاست نے اسلام کو شناخت اور زمین کی سلامتی کے لئے استعمال کیا۔ یہاں اسلامی اصولوں پر شخصی، سماجی و سیاسی طور پر کچھ بھی عمل نہ ہوا۔ نتیجے میں جتنی مذہبی جماعتیں تھیں وہ بھی اسلام کو اپنی الگ شناخت اور اقتدار کے لئے سیڑھی کے طور پر استعمال کرتی رہیں /رہتی ہیں۔ اسی شناخت کی بنیاد پر اقتدار یا طاقت کے حصول کے لئے کئی گروہوں نے بھی مذہب کو خوب استعمال کیا۔ یوں پاکستان میں سماجی و سیاسی پیچیدگیوں کو ایک ہی زاویے یعنی مذہب کے زاویے سے دیکھنے کی چلن عام ہوئی۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے ہی یہ نئی ریاست شناخت کے بحران سے دو چار رہی۔ اسی بحران پر قابو پانے کے لئے سارا زور مذہب پر دیا گیا اور سماجی مساوات کو یکسر نظر انداز کیا گیا بلکہ مذہب اور ریاست کے اڑ میں اس طبقاتی نظام کو تقویت پہنچائی گئی۔ سیاست نظریات سے زیادہ طبقاتی ہو گئی اور اس کے اثرات ہر شعبے میں جڑ پکڑتے گئے۔

دیگر شعبوں کی طرح تعلیمی نظام بھی کئی طبقات میں بٹ گیا۔ شہروں اور دیہات میں تفاوت بڑھتی گئی۔ تعلیم تک رسائی چند لوگوں کے پاس رہی۔ دوردراز علاقے نظرانداز کیے گئے۔ ہمارے والدین کی عمر کے لوگوں کو شہروں میں ملک کے انصرام کے بڑے بڑے عہدوں پر دیکھ کر اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس تفاوت سے اگے تعلیم مزید کئی طبقات میں بٹ گئی۔ مدرسہ اور سکول الگ ہو گئے بلکہ علم کی بھی تقسیم کی گئی۔ کہیں پہ یہ دینی ٹھہری تو کہیں اسے دنیاوی قرار دیا گیا۔

اسی طرح کی دوئی جدید اور قدیم کی بھی رہی۔ مدرسوں میں بھی یہ تقسیم جاری رہی اور رسمی ریاستی تعلیم میں تو یہ تقسیم کئی درجوں میں بٹ گئی۔ کہیں پہ نجی سکولز، کالجز، یونیورسٹیاں تو کہیں پہ سرکاری سکولز، کالجز اور جامعات۔ ان نجی تعلیمی اداروں میں بھی طبقاتی تفریق نمایاں رہی۔ ملک میں ایک طرف عام نجی سکولوں کا ہر گلی اور محلے میں قیام ہو یا پھر نجی طور پر مہنگے اداروں کا قیام سب نے طبقاتی تفاوت کو مزید تقویت دی۔ اسی کے ساتھ عسکری اداروں نے بھی شعبہ تجارت میں گھسنے کے ساتھ اس نجی تعلیم طبقاتی نظام کو بھی فروغ دیا۔

پاکستان کی کوئی حکومت اس طبقاتی نظام کو تبدیل نہیں کر سکی کیوں کہ اسی مہنگے اداروں سے یہ اہل اقتدار طبقہ فیض یاب ہوتا رہا لہذا ایسا کرنا ان کے لئے ہمیشہ سے مشکل رہا۔ مختلف حکومتوں چاہے ایوب کی ہو یا ضیاء و مشرف کی سب نے اس طبقاتی نظام تعلیم کو مزید فروغ دیا۔ البتہ ان حکومتوں کے سامنے ریاستی سلامتی میں ایندگن کے طور پر استعمال کرنے کے لئے ہمیشہ سے غریب طبقہ ہی بڑا ہدف رہا۔ مختلف تعلیمی پالیسیوں کی بدولت اس غریب طبقے کو تعلیمی طور پر بھی غریب و پسماندہ رکھنے کی کوشش کی گئی تاکہ ان سے اپنا ریاستی بیانیہ مستحکم کیا جاسکے۔

تحریک انصاف نے آتے آتے ایک اچھا اعلان کیا کہ وہ ملک میں یکساں تعلیم نظام لائے گی۔ اس یکساں نظام تعلیم سے مراد یہی کہ ملک میں سب کے لئے بلا رنگ و قوم اور علاقہ یا مذہب ایک جیسے تعلیمی مواقع میسر ہوں گے ۔ بات اچھی لگتی تھی۔ مگر ایسا ان کے لئے کرنا ممکن نہ تھا۔

نتیجہ وہی گھسی پٹی پالیسی میں سامنے آیا۔ یکساں نظام تعلیم کی بجائے یکساں کتب تعلیم پہ آ گئے جس کو یکساں تعلیمی نصاب کہا گیا۔ اسی کے تحت ایسی نصابی کتابیں ترتیب دی گئیں جو نہ صرف تدریسی لحاظ سے ناقص بلکہ ملکی تنوع کے لئے بھی نقصان دہ ہیں۔ سٹوڈنٹس پر بوجھ بڑھا دیا گیا اور اساتذہ کے لئے نئے مسائل پیدا کر دیے گئے۔ چونکہ نصاب کی کتب کی چھپائی میں بڑی بڑی کمپنیاں اثرانداز ہوتی ہیں اس لئے ان کتابوں کو بڑی تعداد میں چھاپا گیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ ان حکومتوں نے سکولوں میں اضافہ نہیں کیا۔ دور دراز علاقوں میں تعلیمی اداروں کی تعمیر پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے لئے بجٹ کی کمی کا بہانہ بنایا گیا تاہم نصاب کی کتب کی چھپائی میں اربوں کے خرچے کو بخوبی برداشت کیا گیا۔

ان نصابی کتب کا تو تدریسی اور تعلم کے لحاظ سے جائزہ لیں گے تاہم موجودہ یکساں نصاب تعلیم پاکستان کے غریب طبقات کے ساتھ ایک اور مذاق ہے۔ اساتذہ کی تربیت وہی، سکولوں کی تعداد و حالت وہی تاہم کتابیں نئی دی گئیں۔

2010 ء کی اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی شعبہ ہو گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے اس میں مداخلت کر کے آئین کی خلاف ورزی بھی کی ہے۔

ہمیں یکساں نصاب تعلیم نہیں بلکہ یکساں تعلیمی مواقع کی ضرورت ہے۔ یکساں نظام تعلیم سے ہوتے ہوئے یہ حکومت یکساں نصاب تعلیم پہ رک گئی۔ یوں ہمارے بچے کتابوں کی اس کثرت کے تلے دب کر ان کی تعلیمی صلاحیت ایسی ہی رہ جائے گی اور جنہوں نے یہ یکساں نصاب تعلیم بنایا ہے ان کی اولاد یورپ اور امریکا میں تعلیم حاصل کر کے ہمارے آئندہ حکمران بنیں گے! یوں ہمارے بچے بھی ہماری طرح ان نظریات اور پاکستانیت کے گرد آپس میں میں لڑیں گے اور زندگی اور تعلیم سے لطف ان نصاب سازوں اور پالیسی سازوں کے بچے لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments