بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حکومت کا بنگالی جادوگروں سے رابطہ


پہلے ادوار میں حکمران اپنے اقتدار کے آخری سالوں میں (الیکشن سے کوئی ایک ڈیڑھ سال پہلے ) حلقہ بندیوں، مردم شماریوں اور ووٹروں کی لسٹوں پر اپنا فوکس رکھتے تھے اور ان سالوں کو الیکشن کی تیاری کے سال سمجھتے تھے۔ عوام جب دیکھتے تھے کہ گلی کوچوں کی مرمتیں، سڑکوں پر نیا تارکول، ووٹروں کے اہل، نا اہل، پڑھے لکھے یا کم پڑھے نوجوانوں کی بھرتیاں اور حکومتی وزیروں، مشیروں کی اپنے علاقوں میں ہر شادی یا غمی میں شرکتیں شروع ہو چکی ہیں تو وہ سمجھ جاتے کہ الیکشن کا سیزن قریب آ رہا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ وہ حکمران چور اور ڈاکو تھے اور ان کو کرنے کو کوئی اور کام ہی نہیں تھا۔ لوگوں کے پیسے چراتے تھے اور اپنے محل بنا لیتے تھے، کیا ہوا جو گھی 165 روپے کلو تھا، چینی 60، پیٹرول 70 روپے لیٹر، آٹا 30 سے 35 روپے کلو، اور بجلی بھی کسی حد تک قابل برداشت ہی تھی۔ لیکن چور تو چور ہی ہوتا ہے چاہے وہ غریبوں کا کتنا خیال ہی کر لے۔

اب کے حکمران تو سچے اور بے داغ ہیں لیکن کیا ہوا جو قیمتیں کئی سو گنا بڑھ گئیں ہیں، حکمرانوں نے تھوڑی بڑھائی ہیں وہ ساری شرارتیں تو مافیاز کر رہے ہیں اور ان کے کردہ گناہوں کی بپتا حکمرانوں کو تو نہیں سنانی چاہیے، بھئی مافیاز تو پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں اب ہمارے حکمران کہاں کہاں جا کر اپنا سر پھوڑ سکتے ہیں۔ چونکہ ہماری قوم کو چینی سے بڑی رغبت ہے تو چینی کی ہی بات کر لیتے ہیں، چینی کی قیمتیں مافیاز نے بڑھائیں فائدہ انہوں نے اٹھایا لیکن ظالم سماج (عرف عام میں جس کو آج کل سوشل میڈیا کہا جاتا ہے ) کو چین پھر بھی نہیں آیا، لگا دیا الزام صادق و امین (بزبان کبار القضاۃ) حکمرانوں پر، ریل گاڑیاں ڈرائیوروں نے ٹکرائیں اور الزام لگا وزیر ریلوے پر، بجلی مہنگی کر گئے پچھلے (بقول حکمرانوں کے ) الزام لگا وزیر توانائی پر، بھلا کوئی کرنے والی بات ہے الزام لگانا ہے تو ان پر لگائیں جنہوں نے بجلی کے کارخانے لگائے موجودہ حکمرانوں کا بھلا اس میں کیا قصور ہے۔

یہ کیا کم ہے کہ موجودہ حکومت نے پناہ گاہیں بنائیں، احساس پروگرام کے تحت کھانے کھلائے، کیا ہوا جو 90 فی صد بھوکے سوئے 10 فی صد نے تو کھانا بھی کھایا اور 5 فیصد پناہ گاہوں میں سو بھی گئے کس نے کہا تھا کہ اتنی آبادی بڑھ جائے اب آبادی کے جن کو حکومت تو کنٹرول نہیں کر سکتی! اور جناب اب آتے ہیں مردوں کے سب سے دلچسپ موضوع پٹرول کی طرف، پہلے پورے تیس دن لوگوں کو خوشخبری کا انتظار رہتا تھا کہ کب مہینہ پورا ہو اور کب پتا چلے کے اب کی بار کیا ہوا ہے!

لیکن قربان جائیں اس حکومت کے انہوں نے یہ انتظار کم کر کے پندرہ دن کر دیا اور کیا کہنے کے ہر پندرہ دن بعد قیمتیں بڑھانا اپنا مشن ہی بنا لیا، جب ایک بار ہمارے رحم دل وزیر اعظم نے نوٹس لیا اور قیمت کم کی تو پھر مافیاز سامنے آ گئے اور کئی ہفتے عوام کو پٹرول کی بو سے دور رکھا (پٹرول ملنا ہی بند ہو گیا) ، لیکن یہ عذر تو بھی مافیا کے سر جانا چاہیے حکومت کہاں درمیان میں آ گئی!

سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت الیکشن کے سال میں بنگالی جادوگروں سے رابطے بڑھا رہی ہے، انہیں مفت ویزے دینے کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے، ان کو ٹھہرانے کے لیے نئی پناہ گاہیں بھی تعمیر کی جا رہی ہیں۔ احساس پروگرام کے تحت کچھ قرضہ بھی ان کے حوالے کرنے کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، قصہ کچھ یوں ہے کہ وہ جادوگر چونکہ ظالم سے ظالم محبوب کو رام کر سکتے ہیں، پھونک مار کر لوگوں کی جھولیاں (نوٹوں سے ) بھر سکتے ہیں، یورپی ممالک کے ویزے لگوا سکتے ہیں، باہر بھاگے ہوئے ڈاکوؤں سے پیسے نکلوا سکتے ہیں، لاٹری کے ٹکٹ پر انعام دلوا سکتے ہیں اور نجانے کیا کیا کر سکتے ہیں تو کیا وہ پچھلی حکومتوں کی زیادتیوں سے عوام کو نجات نہیں دلوا سکتے، کیا وہ چٹکی بجانے سے ایک بوری آٹے کی کو دو بوریوں میں تبدیل نہیں کروا سکتے، کیا تیس ہزار کمانے والے کو یہ باور نہیں کروا سکتے کہ وہ ساٹھ ہزار کما رہا ہے، کیا قیمتیں بڑھنے پر یہ راگ نہیں الاپ سکتے کہ سری لنکا، انڈیا، چین، روس اور اسی طرح کے کئی دوسرے ممالک میں تو قیمتیں اس سے کئی گنا زیادہ ہیں یہ تو رحمدل وزیر اعظم مل گیا ہماری قوم کو جس نے پھر بھی قیمت کم ہی رکھی۔

جی بالکل ایسا کر سکتے ہیں اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے بنگالی جادوگروں کے سردار کو پچھلے ماہ خاص مہمان بنا کر اسلام آباد بلوا ہی لیا۔ سردار کو اعلیٰ سطح کی ایک میٹنگ میں بریف کیا گیا کہ حکومت پچھلے تین سال سے کیا کر رہی ہے اور بنگالی جادوگروں کو کیا ٹاسک دیا جا سکتا ہے، سنا ہے کہ سردار نے میٹنگ میں ساری باتیں سننے کے بعد ایک فلک شگاف چیخ ماری اور اپنا سر کیبنٹ ارکان کے قدموں میں رکھ دیا، مرنے سے پہلے اس نے صرف یہ کہا کہ حکومت میں بیٹھا ہر وزیر و مشیر تمام بنگالی جادوگروں کے سرداروں کا بھی سردار ہے جس ٹاسک کے لیے ہمیں بنگال سے بلایا جا رہا ہے وہ تو پہلے ہی تین سال سے کیا جا رہا ہے، یہ سنتے ہی ایک انتہائی جلالی مشیر نے اس کی جان قبض کر لی کہ یہ تو اپوزیشن کا جادوگر نکل آیا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments