ناول اللہ میاں کا کارخانہ۔۔۔۔۔ جس کا انتساب اللہ میاں کے نام ہے


”اس دن اگر میری اماں کی جگہ دانش کی اماں مری ہوتیں تو وہ پتنگ مجھے مل گئی ہوتی“

ناول ”اللہ میاں کا کارخانہ“ ایک بچے کی خودنوشت کے انداز میں لکھی تحریر ہے جس کے مصنف ہندوستان سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب جناب محسن خان صاحب ہیں۔ اس کا سرورق محترم عطا الرحمٰن خاکی صاحب نے ڈیزائن کیا ہے اور بہت خوب ڈیزائن کیا ہے۔ یہ کتنا موزوں ہے اس کا احساس آپ کو یہ ناول شروع کرتے وقت شاید نہ ہو لیکن ختم کر کے آپ اس کے سرورق کو دوبارہ دیکھ کر محسوس کر کے بے ساختہ داد ضرور دیں گے۔

اس ناول کو پڑھ کر سب سے پہلا اور بہت شدید احساس یہ تھا کہ میں اس پہ کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتی۔ اور شاید اس پہ تبصرہ لکھنے میں اتنی دیر ہونے کی وجہ بھی یہی ہے۔ ورنہ یہ جس دن مجھے ملی تھی اس سے تیسرے دن میں یہ کتاب اپنی تمام مصروفیات کے باوجود مکمل پڑھ چکی تھی۔

اس پہ تبصرہ نہ کرنے کے احساس کی بنیادی وجہ وہ فسوں تھا جو یہ کتاب بہت دھیمے انداز میں قائم کرتی چلی گئی اور مجھے لگ رہا تھا کہ تبصرہ کرنے سے وہ فسوں ٹوٹ جائے گا۔ اس کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اس کتاب میں لکھا ہر جملہ اتنا مکمل اور ہمہ جہت ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ پڑھنے والے خود اسے پڑھیں اور ایک بچے کی نظر سے اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کی ایک مثال وہ اقتباس ہے جس سے یہ تبصرہ شروع کیا۔ کیا یہ واقعی اتنی ہی بچکانہ بات ہے جتنی نظر آتی ہے؟

اس ناول کی ایک سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں معاشرے کی انتہائی تلخ سچائیاں ایک بچے کے معصومانہ انداز میں پیش کی گئی ہیں اور یہ معصومیت آپ کو تحریر کے ساتھ اور زیادہ جوڑ دیتی ہے۔ آپ جبران (جو کہانی کا بنیادی کردار ہے ) کے ساتھ کلو مرغی کی موت کا سوگ بھی منائیں گے اور بلا وجہ پٹنے کا درد بھی محسوس کریں گے۔

شاید آپ کو لگے کہ جبران کی زندگی کا پہلا شدید صدمہ وہ تھا جب ابا کو گرفتار کر لیا گیا یا پھر شاید جب اماں دنیا سے چلی گئیں لیکن غور کیجیے تو جبران کے لیے کلو مرغی کا مرنا بھی اتنا ہی شدید صدمہ تھا اسی لیے اس نے خدا سے بہت گڑگڑا کے شکوہ کیا تھا۔

جبران کے شب و روز سے آپ کو احساس ہوگا کہ پاکستان اور ہندوستان کا وہ طبقہ جو شہری زندگی سے نسبتاً دور ہے وہ نئی دنیا کے مقابلے میں کتنا ماضی میں زندگی گزار رہا ہے کہ ایک مخصوص وقت آنے تک آپ کو لگے گا کہ شاید جبران کا کردار کئی دہائیاں پہلے کی داستان سنا رہا ہے اور یہ سہواً ہوئی غلطی نہیں ہے۔ ناول میں کہانی پزل پیسز کی طرح آپ کے سامنے کھلتی ہے۔ پوری کہانی چھوٹ چھوٹے ابواب میں پیش کی گئی ہے وہ بھی کچھ اس طرح کہ ہر باب کے شروع میں یا سمجھیے ہر باب کے آخر میں ایک جملہ ہے۔ جو شروع شروع میں مجھے لگا کہ ہر باب کا منتخب اقتباس ہے پھر احساس ہوا نہیں شاید یہ ہر باب کا خلاصہ ہے۔ اور پھر احساس ہوا کہ شاید آنے والے باب میں کیا ہونے والا ہے اس کا اشارہ ہے۔ لیکن یہ دو ابواب کے بیچ لکھے یہ جملے آپ کو ٹھہر کر کیا ہوا اور کیا ہونے والا ہے پہ سوچنے پہ مجبور ضرور کرتے ہیں۔

یہ جملے تحریر کو ایک طویل مسلسل سفر سے بدل کر چھوٹے چھوٹے دلچسپ موڑوں پہ مشتمل سفر بنا دیتے ہیں۔

ناول میں موجود کردار آپ کو بالکل اصل زندگی کی طرح نظر آتے ہیں جو بالکل سیاہ یا سفید نہیں ہیں۔ بلکہ وہ ایسے ہیں جیسا ہمارا معاشرہ ہے۔ جہاں ایک بہت مثبت شخصیت کا حامل شخص بھی کہیں نہ کہیں کچھ منفی عادات رکھتا ہے کیوں کہ معاشرے میں وہ منفی رویہ قبولیت رکھتا ہے اور ایک منفی شخصیت رکھنے والا کردار بھی عام لوگوں کی طرح ہی گھلا ملا ہے۔

یہاں میں دو کرداروں کی مثال دینا چاہوں گی ایک حافی صاحب اور ایک عابد چچا۔ یہ دونوں کردار بہت آگے جاکر اپنے مکمل رنگوں کے ساتھ آپ پہ واضح ہوں گے۔ حالاں کہ ایک کا کردار بہت اہم ہے اور ایک کا بہت تھوڑا سا۔

جبران اور اس کی بہن کی زندگی کہیں کہیں آپ کو یہ احساس بھی دے گی کہ بدقسمتی سے ہمارے جیسے معاشروں میں ایسے حالات بھی ہیں جب بچوں کا والدین کے ساتھ رہنا ان کا بہترین مفاد نہیں بھی ہوتا۔ اور یہ ایک شدید تکلیف دہ اور تاریک حقیقت ہے۔ جسے بدلنا چاہیے۔

کہنے کو یہ ایک بچے کے سادہ سے شب و روز ہیں لیکن یہ معاشرے میں مذہبی مسائل، مذہبی تعصب، طبقاتی مسائل اور صنفی مسائل کی طرف بخوبی آپ کی توجہ دلاتے ہیں۔ بہت سے ایسے مسائل جو اگر کوئی بالغ بیان کرے تو اعتراضات اور تنقید کی گولہ باری کردی جائے جب آپ جبران کی زبانی پڑھتے ہیں تو اسے الگ انداز میں دیکھنے پہ مجبور ہوتے ہیں۔ اس ناول کا مکمل مزا اور مکمل مقصد حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ خود کو باشعور بالغ کی سطح پہ رکھ کر اسے نہ پڑھیں بہت سی معاشرتی روایات و نظریات کو کچھ دیر کے لیے پرے کردیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ جبران کی اس معصومانہ نظر آنے والی بات کے پیچھے کیا کیا معاشرتی مسائل چھپے ہیں۔ اس ناول پہ لکھنے کو بہت کچھ ہے اس کے ایک ایک جملے کو کئی معاشرتی مسائل کے پس منظر میں کھولا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی بہت ضروری ہے کہ قاری خود بھی اسے پڑھ کے اپنی نظر سے دیکھے۔ اسے اپنے اردگرد سے جوڑ کے سمجھنے کی کوشش کرے۔

ناول اللہ میاں کا کارخانہ ناصرف ادبی اعتبار سے بلکہ نفسیاتی اعتبار سے بھی ایک شاہکار تخلیق ہے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments