خود سے جو سامنا ہوا


اتنی گہما گہمی ہے کہ فرصت ہی نہیں ملی، نہ کبھی کام ہونا نہ کلام۔ کئی برس ہو گئے خود سے ملے ہوئے۔ وقت کا پرندہ کہیں رکتا ہی نہیں۔ یوں تو اس چھوٹے جیون نے کئی لمبے پل بتائے ہیں، محفلوں کی اڑان سے لے کر خاموشی کی قبر میں بھی بنا کفن کے دفن ہوئے ہیں، آنکھوں نے حسن کو سرمستی سے جھانکا بھی ہے اور کان تو اس قدر موسیقی کے الاپ میں دفن ہوئے ہیں کہ کئی مرتبہ ”وجود“ اپنے ”وجود“ سے انکاری ہوا ہے اور اپنے آپ سے کئی بے جواب سوالات کیے ہیں پر کبھی پل بھر بھی سوچنے و سمجھنے کے لیہ نہیں رکے۔

برسوں بعد خود سے جو ملاقات ہوئی، سچ تو یہ ہے کہ بڑی مشکل سے خود کو پہچان پائے ہم۔ یوں تو سج دھج کے طرز۔ سلطان تھے ہم۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ساری سلطنت عاجزی سے نگاہیں نیچے کر کے بیٹھے ہو۔ وقت کے حاکم بھی سروکار ہو اور حاکمیت کی الجھنیں سلجھانے کے لیہ صلاحیں لیتے ہو۔ پر جب حقیقت کے آئینے میں مجبوری کی مسکراہٹ دیکھی، جیسے طبیعت کی ایڑی کئی سمجھوتوں کو کرچ کی نوک سے رگڑ رہی تھی اور عاجزی کے ہاتھ کئی ریتوں و رسموں کے بندھن سے بندھے ہوئے تھے۔

آنکھوں کی نمی پلکوں تک چھلک رہی تھی۔ چہرے کی جھریاں صدیوں کے سفر و تھکن کا حال بے بسے سے کہہ رہی تھی۔ زرد پتوں کی مانند ہونٹ مۂ کی مینا کاری سے سجے ہوئے تھے۔ مسکراہٹ نے تو جیسے بہت سارے قرضے لیہ ہوئے تھے جو ساتھ ساتھ کئی احسان جتا رہے تھے۔ بڑی مشکل سے ہاتھوں میں ہاتھ دینا ؛ ”کتنے بدل گئے ہو تم!“ اور لفظوں پر سناٹا سا چھا گیا، دور ماتم کی شہنائی بجی اور ٹوٹے ہوئے من سے صدا نکلی؛

”سوچتا ہوں ہم کتنے معصوم تھے، کیا سے کیا ہو گئے دیکھتے دیکھتے۔“

وقت کی شطرنج کے پیادوں نے کئی انوکھے قصوں سے وجود کو بھر دیا تھا۔ دبی دبی اور سہمی سہمی اندر سے آواز نکلی، ”سبھی بدل گئے تھے تو میرا بھی حق بنتا تھا“ ۔ کب تک کھل نائیکوں کی بستی میں نائیک بن کے چلتا پھرتا، بس دو تین دنیاداری کے کتاب پڑھے ہیں، رشتوں میں دراڑیں آ جاتی ہیں وہ کہانیاں اور قصے سنے ہیں باقی تو وہی کا وہی ہوں۔ آواز تھوڑی بڑھی تو دھیما ہو گیا اور شائستگی سے کہا ؛ جب محسوس ہوا، جھوٹ کو بھی حوصلہ دے کے بدلا جا رہا ہے اور بے ایمانی میں تو ذرا سی بھی دقت نہیں ہو رہی۔

شہر کی روشنیوں اور رنگینیوں نے رنگیلا کر دیا ہے جو حقیقی زندگی میں پڑی کتابوں کی بجائے دنیا کے مفکروں اور دانشوروں کے الفاظ زیادہ ہونٹوں کی دہلیز پر سرگوشیاں دے رہے تھے۔ اپنے آپ کو ہر بات پر مطمئن کرنے کے لیہ اشعار کی چادر پہنائی جا رہا تھا یا مفکروں کے بول سنائے جا رہا تھا۔ اور پھر کچھ پل وہ خاموش ہو گیا۔

مجھ سے رہا نہیں گیا اور خاموشی کو توڑ کے بولا، ”دنیا کے جلووں نے تیرا خود سے ناتا توڑ لیا ہے، تو دنیا کے دھن و دولت سے تو مالامال ہو جائے گا پر تیرے اندر کا ضمیر یتیم و لاوارث بن گیا ہے۔ دھنوانوں کی تجوریوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے، یہ طاقت کا نشہ انا کی دیوار ہے جو کبھی خود کو بھی مار ڈالے گی۔ یہ لالچ کا نشہ دن بہ دن بڑھتا جائے گا۔ میری صلاح ہے، سب کا پیارا بن کے سب سے نرالا بن جا۔

اس پر خود نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی، پر جب نہیں چھوٹے تو چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ لائی اور کہنے لگا؛ دنیا میں انسان پانے کے لیہ آتا ہے، میرے پاس تھا کیا، عزت کی نوکری میں صرف شاباش اور واہ واہ بدنصیب کو نصیب ہوتے ہیں، بچارے کا ٹھیک سے گزارا بھی نہیں ہوتا۔ زندگی کا کافی حصہ اصولوں سے دوستی رکھی، جوانی کے حسین محبوباؤں کے ساتھ بتانے والے لمحے بھی کام کے ساتھ ایمانداری کے آنسوؤں کی مالا میں پروئے۔ دن رات محنت کے چراغوں سے اپنے آپ کو جلایا اور کئی گھروں کو روشنی دی۔

پر مفلسی اور غریبی ہر روز سائے کی طرح ساتھ ہوتے تھے۔ وہ ہلکا رکا اور آسمان طرف ایسے دیکھا جیسے نیلی چھتری توڑ کے اوپر بیٹھے بھگوان سے کئی شکایتیں کرنی ہو اور مایوسی سے پھر ہونٹوں پر لفظوں کو پروان پر چڑھایا، میرا دن تو مصروفیت میں اوروں کے روشن مستقبل کے لئے گزر جاتا تھا پر شام ڈھلے گھر کی چوکھٹ پر پاؤں رکھتے ہی، آنکھوں کا دریا پلٹ جاتا تھا۔ پتا نہیں کیسی لوگوں کو باتوں کا جھانسا دے کر سمجھاتے ہیں پر میری جب بھی سلجھے لوگوں سے بات ہوئی تو انہوں نے میری الجھنوں کو دوگنا کر دیا۔

میں ٹھیک ہوں، پرانی راہیں اور راستے چھوڑ چکا ہوں، ہاں میں پرانے رشتے ناتے توڑ چکا ہوں، اب مجھے کوئی ان گلیوں سے آواز نہ دے۔ اس کی آنکھیں بھر آئی تھی پر سسکتا کہنے لگا، یہ ”نظریہ“ لفظ الماریوں میں پڑی کتابوں، فریم کے حصوں اور میٹنگ منٹس تک محدود ہے۔ سب بکے ہوئے ہیں، ضمیر مر چکا ہے، کوئی عزت سے تو کوئی دلالی سے اس کا سودا کر آیا ہے۔ ملاوٹ چیزوں میں نہیں دماغوں میں گھس گئی ہے۔ اس نے اپنا چہرا دونوں ہاتھوں میں ڈھانپ دیا اور موت کی طرح شانت ہو گیا۔ شاید سوچ کی موج نے بے منزل بہتی کشتی کو روک لیا ہو۔ سانسیں رک گئی اور خاموشی ڈسنے لگی۔ میں بھی ایسی خاموشی سے ڈر گیا، خود کو سنبھالا اور پھر کہا، بھگت کبیر جی نے کہا ہے ؛

برا جو دیکھن میں چلا، برا ملیا نہ کوئی
جو دل میں نے اپنا کھوجا تو مجھ سے برا نہ کوئی۔

اس بھری دنیا میں بالکل پرفیکٹ کوئی بھی نہیں ہے، ہر کسی میں کمی و پیشی ہمیشہ رہتی ہے اور اسے ٹھیک کرنی کی ضرورت سدا رہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ ہم خود کو اس راستے پر لائیں جہاں واپسی کے لیہ اوروں کا سہارا لینا پڑے۔ کسی نے گر ہم سے اچھائی نہیں کی تو کیا ہم اپنا اچھائی والا پہلو پھینک کر اس کی برائی کے حساب میں ڈال دیں اور خود بھی ویسے بن جائیں۔

کم۔ وقت اور حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ وقت ٹھیک بھی آئے گا۔ زمیں پر بیٹھی مخلوق پر بھروسا کبھی کبھی اٹھ بھی جائے پر آسمان والا کبھی بھی نہیں چھوڑے گا۔ حلیہ کی تبدیلی نہیں اندر کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پیسے سے باہر کی دنیا کا گلیمر چھوتا رہے گا پر جب تک دل کی گلی میں رونق نہیں تو پھر بازار جانا فضول لگے گا۔ ابھی بھی وقت ہے خود کو بدل ڈالو دنیا بدل جائے گی۔ میرے سب الفاظ اس کے لیہ مرجھائے ہوئے پھول تھے جن کی خوشبو کسی بوٹ تلے دب گئی تھی۔

میں اب تو خود کو بھی بہت ہی ادھورا لگ رہا تھا، میرے نام کے علاوہ باقی جیسے ہر بات بدل گئی تھی۔ مجھے تو اپنے آپ کو آئینے میں دیکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ خود کو خود سے کیسے چھپائیں۔ وہ محصوم سی دھوپ کی روانی، وہ مسکان سی کھیتوں کی فصلیں، وہ ماں کے ہاتھوں سے پکی ہوئی دنیا کی خوبصورت روٹی، وہ بنا مطلب کے گاؤں سے گاؤں اور لوگوں کے چھاؤں تک رشتے، وہ اسکول کی دیوار پر سورج کی کرنوں سے وقت کا ناپنا، وہ بے سبب روٹھنا اور منانا، وہ ساون کے جھولوں میں گنگناتے گیتوں کی طرح لوگ، وہ بھوتوں، پریتوں اور پریوں کی کہانیاں اور وہ بڑی تجسس سے احساس کے ہاتھوں بنے ہوئے کچے گھروندے۔ سب کا سب شعور کے سیلاب میں بہہ گیا۔ عجیب ماجرا ہے عقل کے غلام کو دل نے قبول ہی کر لیا تھا۔

دھیرے دھیرے آنکھوں کے اسکرین پر ماضی کا ڈرامہ سلسلے وار دکھائی دے رہا تھا اور پتا چل رہا تھا کہ اندر کے آدمی نے قسطوں میں کیسی خودکشی کی ہے۔ وہ اسکولوں میں جشن کے ڈرامے اور تقریریں، وہ چھوٹی سے باتوں پر ان گنت قہقہوں کی روانی، وہ اخباروں میں لکھنا اور کتابوں سے کئی بوجھ اٹھا کے، رفتہ رفتہ بچے کے دماغی کاندھے پر رکھ کر اسے بڑا کرنا، وہ محبت کے درد بھرے قصے، وہ کھیلوں و خوابوں کے باراتیں، وہ ادھار پر منائے ہوئے دن، وہ محلوں سے قیمتی تحفے اور یوں خوشیوں کے سورج کا غروب ہونا۔

ہم دونوں خاموش تھے، پرانی یادیں چلا چلا کے بول رہی تھی۔ کاش یہ حافظہ نہ ہوتا، سوچ کا پنچھی تب اڑا جب محسوس ہوا اس نے دوبارہ ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی اور کہا ؛ مجھے بہت ساری کالز آئی ہیں اور میسیجز بھی۔ لوگ انتظار کر رہے ہیں اور شام کو پارٹی میں بھی جانا ہے۔ نئے لوگ ملیں گے، نئی رشتے بنیں گے۔ پارٹی میں ہمیشہ نئی لوگوں سے ملنا چاہیے۔ آج ایک صاحب باہر سے بھی آئے گا اور بڑے پروجیکٹ کی ڈیل ہے۔ آج تم نے میرا بہت فالتو میں ٹائم لے لیا ہے کوئی کام کی بات نہیں ہوئی ہے۔

اور ایسی فضول بات اور رونے دھونے والوں سے تو میں کتراتا ہوں۔ جذبوں پر انویسٹمنٹ کے بدلے صرف آنسو ہی ملتے ہیں۔ مجھے تیری طرح کے لوگ بالکل ہی پسند نہیں۔ برا یا بھلا گزرے کل اور بیتے پل پر رونے سے کچھ نہیں ملتا۔ ”دنیا میں آئے ہو تو عیش کر لو“ ، زندگی ایک ہی مرتبہ ملتی ہے۔ کیوں پرانے، جلے ہوئے دنوں کی بات کر کے پریشان کر رہے ہو جب ایک ہی دوست کی کھٹارا گاڑی کو دھکے دے کے اسٹارٹ کرتے تھے آج سب کے پاس بڑی بڑی آٹو گاڑیاں ہیں۔

آج سب کچھ ہے اور اتنا سارا کام ہے کہ کھانے اور سونے کا وقت نہیں ملتا اور تو اور ہلکی پھلکی ایکسرسائیز بھی گھر میں ہی کرنی پڑتی ہے۔ تمہاری یہ باتیں روڈ پر بیٹھے ہوئے فقیروں اور درویشوں کو جا کے سناؤ، احساسوں اور جذبوں سے کبھی پیٹ نہیں بھرتا۔ دنیا دام کی زبان سمجھتی ہے کام کی نہیں۔ یہ فلمی ڈائیلاگ نہیں پر تلخ حقیقت ہے کہ ”دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہے“ ۔ میں نے ہلکی آہ بھری اور اس کی طرف دیکھا اور محسوس کیا اس کی آنکھوں میں اجازت کے سوا کچھ نہیں تھا۔

اس کی باتوں میں دنیا کے ترازو کے حساب سے تو بہت وزن تھا پر اس کا اندر بالکل ہی خالی تھا۔ وہ آدمی تو رہا ہی نہیں بلکہ رئیس، کھل نائیک اور سردار بن چکا تھا۔ باتوں کا تو ویسے ہی سکندر تھا اور بچپن میں بہت ادب پڑھا تھا پر اب اس نے صرف نظریہ۔ ضرورت کی کتابیں رکھی تھی اور ہر بات میں ان کا حوالہ دے رہا تھا۔ میں نے اس کو جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا؛ ”اب میں تمہیں کبھی نہیں بلاؤں گا، تم بھلے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے بجائے نہا لو پر جب اس عیاش طبیعت سے تھک جاؤ تب میرے پاس چلے آنا گر میں تمہیں پہچان پایا تو تمہارا ساتھ ضرور دوں گا۔

اس وقت میرے حالات بھی پتا نہیں کیسے ہوں، وقت بہت بے رحم ہے۔ آج میرا دل کہہ رہا تھا کہ تم لوٹ کے آؤ اور جھوٹ کی کروٹ بدل کے سچائی کا سامنا کرو۔ حقیقت سے بھاگ کے جوش کے گھنے مت پہنو یہ سب دکھاوا ہے۔ بنگلے، محل، گاڑیاں، دھن و دولت یہ سب تمہیں تسلی و دلاسا تو دے سکتے ہیں پر تم کبھی بھی مطمئن اور خوش نہیں رہ پاؤ گے۔ تم جو اپنے آپ کو بھول گئے ہو دنیا کو کیا پہچان پاؤ گے۔ فاصلے ہمیشہ دوریوں کا ہی فیصلہ کرتے ہیں۔

دنیا کی گہرائی، نئے رشتوں کے بندھن، یہ دیر سے سونا اور جاگنا، تمہیں مجھ سے بہت دور لے جا رہے ہیں“ ۔ میں رک گیا پر دل نے ضد کی بولنے کی اور کہا، ”میں تمہیں روک تو نہیں سکتا ہوں پر یہ کہوں گا، میرا وجود تیری خوشی سے زندہ ہے پر دکھاوے کی خوشی نہیں۔ بس تمہارے سوچ پر کوئی ناراضگی نہیں پر دکھ ضرور ہو رہا ہے۔ سوچ کی نیا کو شراب کے قطروں اور دھوئیں کی لہروں میں مت بھاؤ اور آزاد رکھو تیرا وجود تجھ میں رہا تبھی ہی تو زندہ رہ پائے گا ورنہ یہ حالات تمہارے وجود کو زہر کر دیں گے اور زندہ دفن کردیں گے“ ۔ اس نے مانوس لہجے میں آہ بھری اور تیز۔ قدمی سے نکل گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments