عورت کا ننگا بازو اور شلوار میں بھونچال


جنگ اخبار کا ایک صفحہ نظروں سے گزرا جس میں آٹھ سے دس خبریں عورت کے ساتھ جنسی زیادتی پر مشتمل تھیں، پڑھ کر کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ یہ کس قسم کے معاشرے میں ہم پیدا ہو گئے ہیں؟ جہاں پر عورت کو سیکس مٹیریل سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، جیسے سر کس کے لیے جانوروں کو سدھایا جاتا ہے بالکل اسی طرح معاشرے میں سروائیو کروانے کے لیے عورت کو بھی سدھایا جاتا ہے۔ اس کے پیدا ہوتے ہی اس کی معاشرتی حدود و قیود ڈیفائن کردی جاتی ہیں، اسے معاشرتی فریم میں میں اس طرح سے سیٹ کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اس جگہ سے تھوڑی سی بھی جنبش کرے تو اسے فوری طور پر عورت کے مقام سے گرا کر طوائف، رنڈی، ٹیکسی، بدکردار اور بازاری جیسے القابات سے نوازنے کی رسم چل پڑتی ہے اور کئی تو معاشرتی پنڈتوں کے اشتعال دلانے پر عورت کو ابدی نیند بھی سلا دیتے ہیں، عجیب رسم چلی ہے کہ مرض اور مریض کا علاج کرنے کی بجائے عورت کو ہی چار دیواری میں قید کر دو۔

بس۔ سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ عجیب منافقت ہے کہ عورت کو دیکھ کر جس کی حیوانیت جاگتی ہے اس کا ذہنی علاج کروانے کی بجائے عورت کو ہی نظروں سے اوجھل کر دو تا کہ سماجی پارساؤں کا بھرم بر قرار رہے مگر شاید اس ڈیجیٹل دور میں اب ایسا ممکن نہیں رہا اور کیمرے کی آنکھ سے اب یہ سماجی پارسا زیادہ دیر تک نہیں بچیں گے۔ سکول و کالج کی باشعور اور بہادر بچیاں اب ایسے پارساؤں کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ایک ویڈیو کلپ نظروں سے گزرا جس میں ایک بہادر خاتون نے ایک ٹھرکی بڈھے کو ایکسپوز کر دیا، یہ واقعہ ایک فارمیسی پر پیش آیا ایک خاتون جینز پہنے فارمیسی پر آئی تو قریب کھڑے ایک باریش ٹھرکی بڈھے نے اسے تاڑنا شروع کر دیا اور اس خاتون کو کہنے لگا کہ اپنے ننگے بازو ڈھانپو کیونکہ مجھے بازو دیکھ کر کر جنسی کشش محسوس ہو رہی ہے اور ساتھ ہی اس بڈھے نے مذہبی بھاشن دینا شروع کر دیا۔

اس بہادر خاتون نے اس ٹھرکی کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا، جس میں اس خاتون کا کہنا تھا کہ یہ بڈھا مجھے کہہ رہا تھا کہ تیرے ننگے بازو دیکھ کر مجھ سے کنٹرول نہیں ہو رہا، کمال بہادری سے اس خاتون نے چیخ چیخ کر اس سے کہا کہ تجھے صرف میرے بازو دیکھ کر ہی اشتعال آ گیا اور اس ٹھرکی سے بار بار یہ سوال کرتی رہی کہ بازو دیکھ کر کون اشتعال میں آتا ہے؟ جب اسے پتہ چلا کہ میری ویڈیو بن رہی ہے تو انتہائی ڈھٹائی سے ہاتھ جوڑ کر انگریزی میں کہنے لگا

I take my all words back

ایسے موقعوں پر آخر انگریزی نکل ہی آتی ہے کیونکہ پارسائی کے بھرم کو بچانے کے لئے مختلف ہیٹ پہننے پڑ جاتے ہیں، میں اس بہادر خاتون کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے دوسری خواتین کو بھی بہادری سے جینے کا ایک واضح پیغام دیا۔ ایک اور ویڈیو نظروں سے گزری جس میں ایک آدمی لگ بھگ پینتیس سال کا ہوگا ایک بس کے اندر سامنے بیٹھی خاتون پر ٹھرک جھاڑ رہا تھا خاتون نے برداشت کیا اور جب وہ سٹاپ پر پہنچے تو اس خاتون نے اس آدمی کو گھیر لیا اور پولیس کو فون کر دیا، آخر پولیس نے اس کو پکڑ لیا اور اس بہادر لڑکی نے اس ٹھر کی بندے کی ویڈیو بنا ڈالی۔

جس میں اس کا موقف تھا کہ یہ بندہ اپنی شلوار میں ہاتھ ڈال کر بار بار اپنے عضو تناسل کو سہلا رہا تھا تھا، اس بہادر بچی نے ببانگ دہل وہ تمام جملے کہہ ڈالے جو وہ شاید اپنے ماں باپ کے سامنے نہ کہہ سکے اور برائے نام قسم کی معاشرتی پارسائی کو ننگا کر کے رکھ دیا۔ ہزاروں بچیوں کے ساتھ سکول، کالج، یونیورسٹی اور بسوں میں سفر کے دوران بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو وہ اپنے والدین کو کھل کر نہیں بتا سکتیں کیونکہ والدین کے پاس بچیوں کو تعلیمی اداروں سے ہٹانے اور ان کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے علاوہ کوئی دیرپا حل نہیں ہوتا اور ایسا ہی صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔

آخر مردوں کی حیوانیت کی سزا عورت کو ہی کیوں بھگتنا پڑتی ہے؟ عورت کو دیکھ کر مرد کو جنسی اشتعال آتا ہے اور شلوار میں زلزلہ آ جاتا ہے تو اس میں عورت کا کیا قصور ہے؟ اگر عورت کو دیکھ کر مرد کی حیوانیت جاگتی ہے تو اس کا ذہنی علاج کروانے کی ضرورت ہے نہ کہ عورت کو ہی سماجی بندوبست سے الگ کر کے گھروں میں قید کر دیا جائے۔ ہمارے سماج میں عورت کو صرف ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے طور پر ہی متعارف کروایا گیا ہے، یہ بات ہماری تربیت کا حصہ ہی نہیں ہے کہ عورت انفرادی طور پر ایک انسان بھی ہے اس کو ایک ایسی پروڈکٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ جس کا مقصد حیات اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان چھپا ہوا ہے اور اسے ہر صورت میں اس عزت کو بچائے رکھنا ہے ورنہ وہ معاشرتی پنڈتوں کے ہاتھوں مار دی جائے گی؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں یہ مریضانہ رویے روز بروز کیوں بڑھتے چلے جا رہے ہیں؟ جہاں اور بہت سے عوامل شامل ہیں وہیں ہمارے مذہبی رہنماؤں کی سحر انگیزیوں نے بھی معاشرے میں عورت کے خلاف ایک منفی رویہ پروان چڑھانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے، مفتی طارق مسعود خود اپنے یوٹیوب چینل پر عورتوں کی مار پٹائی کے طریقے بتاتے نظر آتے ہیں اور چار شادیوں کا دفاع بھی بڑے زور و شور سے کرتے رہتے ہیں، دوسری طرف ایم۔ٹی۔ جے برانڈ کے بانی طارق جمیل اپنی تقاریر میں حوروں کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ سامنے والا بندہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلے پر نکل پڑتا ہے، جب آپ خواتین کے متعلق اتنی پرکشش باتیں عوام کو بتائیں گے تو ان کی نظر میں عورت کی عزت ایک سیکس ڈول سے زیادہ نہیں ہوگی۔ ایک عورت کی اس سے زیادہ تذلیل کیا ہوگی اسے صرف سیکس ڈول یا مردوں کو لبھانے والی چیز سمجھا جائے اور بار بار مردوں کو یہ بتایا جائے کہ اگر عورت بات نہ مانے تو مرد اسے سدھارنے میں کس حد تک جا سکتا ہے۔

میرا علمائے دین سے عاجزانہ سوال ہے کہ اگر مرد عورت کی بات نہ مانے اور گھر سے باہر دوسری خواتین سے چکر چلاتا پھرے تو کیا آپ عورت کو یہ حق دیں گے کہ وہ اس کا سدباب کرنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے؟ حوروں کی چھاتیوں اور پنڈلیوں کے سائز بتانے کی بجائے اگر یہ بتایا جائے کہ عورت بھی مرد کی طرح ایک انسان ہے اور اس کی بھی ایک مرد کی طرح جذبات و خواہشات ہوتی ہیں تو شاید معاشرے میں جنسی درندگی کا یہ رجحان کچھ کم ہو جاتا مگر خیر یہاں تو عورت کو ایک طرح سے معاشرتی روبوٹ بنا دیا گیا ہے جسے مردانہ برتری کے سماج میں بہر حال کھوکھلے اخلاقی پیمانوں کی بہر صورت پیروی کرنی ہے ورنہ وہ ایک اچھی عورت کہلوانے کے قابل نہیں ہو سکے گی مگر اب خواتین کو اس مردانہ سماج میں اپنی حیثیت کا اچھے سے پتا چل گیا اور انہوں نے یہ جاننا اور سوچنا شروع کر دیا ہے کہ انہیں اب اس منافقانہ سماج میں اپنی حقیقی حیثیت کو کیسے منوانا ہے، اب بہادر خواتین کیمرے کو استعمال کر کے اس بد بو دار معاشرے کی گٹر زدہ مینٹیلٹی کو ایکسپوز کرتے ہوئے نظر آ رہی ہیں۔

یہ دونوں ویڈیوز تو ابھی آغاز ہیں آگے آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے اب یہ کیمرہ ایسے ایسے پارساؤں کو بے نقاب کرے گا جو صدیوں سے کیا کیا گل کھلاتے رہے ہیں، یہ کیمرہ مدارس کی راہداریوں سے نکل کر سکول، کالج، یونیورسٹی اور ہر عوامی جگہ پر پہنچے گا اور ہر استحصالی طبقے کو یوں ہی ننگا کرتا چلا جائے گا۔ لڑکیو ہمت کرو آگے بڑھو اپنے حق کی خاطر اس منافق مردانہ سماج کے اوپر پڑا ہوا منافقت کا غلاف اتار پھینکو اور تمام کھوکھلے اخلاقی ضابطوں کو اپنے پاؤں تلے روند کر یہ ثابت کر دو کہ ہم بھی جیتے جاگتے انسان ہیں۔ ہمارا جسم ہماری مرضی ہے اور ہماری اس مرضی پر کوئی بھی معاشرتی داروغہ اپنی رائے مسلط نہیں کر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments