جنازے لوٹ کر آتے نہیں


سید علی گیلانی کے بے آسرا جنازے کے ساتھ وہ سب کچھ بھی یاد آیا اور آتا گیا جس نے ہماری تاریخ کے “اثرات ” سے جنازوں کو بھی محفوظ نہیں رکھا .

کراچی کی ایک ویران شاہراہ پر کھڑی وہ ایمبولینس یاد آئی جس میں پٹرول ختم ہو گیا تھا اور ایمبولینس کے اندر اس قوم کے بانی کی لاش پڑی تھی جس کے سرہانے بیٹھی ہوئی فاطمہ جناح رنج و الم سے بھی کہیں زیادہ حیرت اور بے بسی کے ساتھ شیشوں سے باہر جھانک رہی تھی۔

لیکن تب فاطمہ جناح کو کیا معلوم تھا کہ اگلے موڑ پر جب وہ ایک فوجی آمر کے مقابل اس لاش کے بھرم کی خاطر نکل آئے گی تو غدداری کا طوق بھی اس کے گلے میں آویزاں کر دیا جائے گا.

اگلا در بدر ہوتا جنازہ جمہوری روایات کے پاسدار اور پاکستان کے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی کا ہے۔ فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان نے انہیں جلا وطن کیا تو چند ماہ بعد بیروت کے ایک ہوٹل میں “پراسرار” طور پر مردہ پائے گئے۔ حسین شہید سہروردی کا تعلق چونکہ آمریت دشمن سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ بنگال سے بھی تھا اس لئے ان کی اس وصیت کو ایوب خان نے پاوں تلے روندا کہ مجھے (حسین شہید سہروردی کو) بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے پہلو میں دفن کیا جائے۔

تین دن بعد انہیں ڈھاکا کے قریب ایک قبرستان میں شیر بنگال مولوی فضل الحق اور خواجہ ناظم الدین کے پہلو میں دفن کیا گیا تو سمجھنے والوں نے پہلے ہی سے اس انتظام کو سمجھ لیا جو حسین شہید سہروردی کی اس بات میں پنہاں تھا کہ مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان کے ساتھ میرے (حسین شہید سہروردی)، انگریزی زبان اور پی آئی اے کے علاوہ کوئی رابطہ نہیں۔

ایک اور جنازہ یاد آیا

ایک عہد سیاہ کار کی ایک سفاک رات کو لاڑکانہ کے نواحی قصبے نوڈیرو کے قبرستان میں سات یا آٹھ غریب دیہاتی مزارعے رات کی تاریکی میں ایک بوسیدہ چاپائی پر پڑے بے آسرا اور یتیم لہو کی لاش کے آگے “صف بندی” کر کے کھڑے ہو جاتے ہیں تو بندوق برداروں کے نرغے میں کھڑے خوفزدہ مزارعے ایک دوسرے کے کانوں سے منہ لگا کر پوچھتے ہیں کہ سائیں یہ لاش ہے کس کی؟

لیکن انہیں کون بتاتا کہ یہ کروڑوں پاکستانی عوام کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا جسد خاکی ہے جسے پنڈی میں ایک ڈکٹیٹر نے اپنے ہتھوڑا بردار مددگاروں کے ساتھ مل کر رات کی تاریکی میں مار دیا۔

ایک اور منظر دیکھیں یہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑ ہیں جہاں ایک مہیب اور تاریک رات کو چار لوگ بندوق برداروں کے نرغے میں ایک چاپائی اٹھائے لاش سے انجانے اور قبر سے بے خبر ایک پراسرار اور خوفزدہ خاموشی کے ساتھ کسی نامعلوم سمت کو جا رہے ہیں.

پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر حکم ہوتا ہے کہ چارپائی زمین پر رکھ دیں اور چاروں دیہاتی فورا حکم بجا لاتے ہیں۔ سامنے بنی قبر کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ لاش قبر میں اتار کر مٹی ڈال دیں اور واپس چلے جائیں۔

تھوڑی دیر بعد چاروں مزدور پلٹے تو ایک مزدور نے روتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے سردار نواب اکبر بگٹی کو سپرد خاک کر آئے۔

نواب اکبر بگٹی کو بلوچستان کے علاقے کوہلو کے ایک غار میں فوجی آمر پرویز مشرف کے حکم پر مارا گیا تھا۔

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف خود تو اذیتیں سہنے اور صعوبتیں اٹھانے کے لئے ابھی بقید حیات ہیں لیکن جنازوں کے حوالے سے ان کی بد قسمتی سے دشمن بھی پناہ مانگے۔ پرویز مشرف نے سعودی عرب جلا وطن کیا تو اپنے والد کے جنازے کو کندھا دینے سے روکا جبکہ موجودہ جلا وطنی نے والدہ کو لحد میں اتارنے سے روکا۔ یہاں تک کہ اپنی شریک حیات کلثوم نواز کی آخری سانسیں لیتی ساعتوں میں ان پر اڈیالہ جیل کا پھاٹک نہ کھلا۔ کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ سفاکی ایسی کہ آخری لمحوں میں فون پر بات تک نہیں کرنے دی گئی۔

اور ہاں یاد آیا کہ ایک جنازہ خوفناک فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کا بھی تھا جن کی تدفین نہ صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فیصل مسجد کے وسیع و عریض احاطے میں ہوئی بلکہ پی ٹی وی پر مسلسل دس گھنٹے لائیو نشریات کے ذریعے اس وقت کے مشہور نیوز کاسٹروں سے “بین ” بھی کروایا گیا۔

سو محترم سید علی گیلانی صاحب آپ کی جدوجہد پر جتنا فخر ہے اتنا ہی آپ کے جنازے کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کا دکھ بھی ہے. لیکن کیا کیجیے کہ ہم سدا کے بد بخت ہمیشہ سے اس دکھ کو سہتے چلے آ رہے ہیں۔ ہمارا اور آپ کا بس یہی ایک فرق ہی تو رہ گیا ہے کہ

 تو دشت بے وطنی میں لہو لہان ہوا

 ہم اپنے دیس میں سینہ فگار پھرتے ہیں

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments