آہستہ بولیں! میرا گھوڑا ایسی باتوں کا برا مانتا ہے


چچا میرو جیسے لوگ کسی بھی محلے کی سماجی زندگی کی جان ہوتے ہیں۔ ہمارے آبائی محلے کے تمام لوگ چچا میرو کی دل سے عزت کرتے تھے۔ کہیں آنے جانے کے لیے چچا میرو کا ٹانگا پہلی ترجیح ہوتا تھا لوگ چچا میرو کو جائز کرائے سے کچھ زیادہ ہی رقم ادا کر دیا کرتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے ہمارے ہر دل عزیز چاچا میرو کوچوان کا واسطہ ایک سوٹڈ بوٹڈ اجنبی سے پڑ گیا، جس نے کافی دور جانا تھا۔ بوہنی کو لے کر ہمارے دکان دار اور کوچوان کافی حد تک جذباتی ہوتے ہیں۔

ہمارے دوست نے چاچا میرو کو اپنی منزل مقصود بتائی اور پوچھا کہ کتنا کرایہ لو گے؟ چاچا میرو نے اپنی روایتی شان بے نیازی سے کہا کہ جتنا آپ کا دل کرے، صاحب دے دینا۔ صاحب نے جو کرایہ بتایا وہ مروجہ کرائے کے نصف سے بھی بہت کم تھا۔ مبینہ سواری کی بات سن کر چاچا میرو خود پھڑک اٹھا اور اس کی رگ ظرافت اور دیگر تمام رگیں بھڑک اٹھیں۔ چچا میرو کہنے لگا صاحب آہستہ بولو۔ میری تو پھر بھی خیر ہے۔ میرا گھوڑا ایسی باتوں کا بہت برا مناتا ہے۔

بہتر ہے آپ کسی ایسی طرف ہو جائیں جہاں گھوڑا نہ آپ کو دیکھ سکے نہ آپ کی آواز سن سکے۔ آپ کو اپنی منزل مقصود تک پیدل ہی جانا چاہیے کیونکہ آپ کی بات سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ آپ بہت سارے معاملات میں بالکل پیدل ہیں۔ اگر آپ شادی شدہ ہیں اور اپنی بارات والے دن گھڑ سواری کے مرتکب ہو چکے ہیں تو مجھے اس گھوڑے سے بہت ہمدردی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مائنڈ تو اس نے بھی کیا ہوگا مگر اس کی طبیعت ذرا لحاظی ہوگی اور وہ کچھ کہہ نہیں سکا ہوگا۔ میرا گھوڑا مگر حق بات کہنے اور سننے پہ یقین رکھتا ہے۔ اب آپ کی عزت آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے بہتر ہے آپ چپ رہیں اور نیویں نیویں ہو کر پیدل اپنا رستہ لیں۔

چاچا میرو کا اپنی نہ ہونے والی سواری کے ساتھ یہ مکالمہ پاس کھڑے ماسٹر رمضان بظاہر خاموشی سے سن رہے تھے مگر ان کی مسکراہٹ ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ سوٹڈ بوٹڈ بھائی کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ماسٹر صاحب کو یوں لگا کہ وہ پانی پانی ہو رہے ہیں ماسٹر صاحب کو علامہ اقبال کا مشہور زمانہ شعر یاد آ گیا جس میں پانی پانی ہونے کے اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے مگر ماسٹر صاحب زیادہ دیر ان صاحب کی حالت سے لطف اندوز نہ ہو سکے۔

وہ شعر کو بھول گئے اور جب انہوں نے اپنے حالات کے بارے میں سوچا تو خود بھی پانی پانی ہو گئے۔ ماسٹر صاحب انتہائی شریف النفس انسان تھے مگر محلے داروں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ ان کے سسر کے ہاتھ زیادہ دراز ہیں یا ان کی خاتون خانہ کی زبان زیادہ دراز ہے۔ دراز دست سسر اور زبان دراز زوجہ کی برکت سے ماسٹر صاحب کے اپنے گیسو دراز ہو گئے تھے۔ ماسٹر صاحب ایک سیلف میڈ آدمی کی چلتی پھرتی مثال بن چکے تھے سیلف میڈ سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ایک خود ساختہ آدمی تھے۔

ہمارے ایک پسندیدہ مزاح نگار کے بقول سیلف میڈ آدمی دھوبی نائی موچی وغیرہ وغیرہ کے تکلف سے آزاد ہوتا ہے۔ ماسٹر صاحب کے چہرے پر نظر پڑتے ہی پتا لگ جاتا تھا کہ وہ کسی ہرجائی کی وجہ سے نائی کے تکلف سے آزاد ہو چکے ہیں ان کا لباس اور جوتے اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ دھوبی اور موچی ان کے رزق حلال سے اپنا حصہ کم کم ہی پاتے ہیں۔ ماسٹر صاحب کے گھریلو حالات بہت نازک تھے مگر وہ خود نازک مزاج بالکل نہ تھے۔ زندہ دل انسان تھے۔

تمام تر خانگی مشکلات کے باوجود اپنی زندگی سے ناراض نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ہر حال میں شکر ادا کرتے تھے۔ انہوں نے زندگی کی چھوٹی موٹی آسائشوں سے لطف اندوز ہونا کبھی کسی حال میں بھی نہیں چھوڑا۔ بس اکثر اوقات اسی ایک حسرت کا اظہار کرتے تھے کہ کاش میرے پاس بھی کوئی گھوڑا ہوتا اور میں بھی کسی کو بتا سکتا کہ میرے گھوڑے کو یہ بات بہت بری لگتی ہے۔

ماسٹر صاحب کے برعکس چچا میرو نے کسی سرکاری یا غیر سرکاری سکول کی کبھی شکل بھی نہیں دیکھی تھی مگر عملی زندگی کی درس گاہ میں داخلہ لیے اس کو عرصہ بیت گیا تھا اور وہ ہماری روایتی دانش میں ڈاکٹریٹ کر چکا تھا۔ چاچا میرو کے پڑوس میں ہی ایک محترمہ کی رہائش تھی جو عمر کے اس حصے میں تھیں جب ہر کوئی خوبصورت ہوتا ہے۔ مگر وہ واقعی خوبصورت تھیں۔ ہر کسی سے ہنس کر بات کرتی تھیں۔ ہر کوئی یہ سمجھتا تھا کہ ان کا نوازشات کا وہی خصوصی طور پر حقدار ہے۔

اس شکل اور عقل کے سہارے وہ اس چھوٹی سی راج دھانی کی رانی تھیں۔ محلے میں ہر کسی کی راج دلاری تھیں۔ اکثر چھوٹی موٹی سہولیات اور خدمات سے مفت استفادہ کرتی تھیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اسے اپنا حق سمجھنے لگی تھیں۔ بہت سے زندہ دل افراد ہر وقت ان کی ایک پکار پر جان نثار کرنے کے لیے تیار اور بے قرار رہتے تھے۔ وہ اسی کافر ادا کے لیے زندہ تھے جس کو دیکھ کر ان کا دم نکلتا تھا۔ ایک دن اس حسن کی مورت نے چاچا میرو کو بھی بڑے ناز بھرے لہجے میں کہا کہ میں نے فلاں جگہ جانا ہے مگر کرایہ نہیں دوں گی۔

چاچا میرو ان کی بات سن کر مسکرایا مگر اپنا سر نفی میں ہلایا۔ چاچے نے خاتون کو سمجھایا کہ وہ گدھے اور گھوڑے کو ایک ہی مسکراہٹ سے نہ ہانکے۔ ”بجا ہے کہ کوچوان کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے مگر اس کے دل میں اپنی اولاد کے درد کے سوا کچھ نہیں ہوتا یہ میرا گھوڑا بھی میری اولاد ہے اور اس کی برکت سے میرا گھر آباد ہے میرا دل بس اسی سے شاد ہے“ ۔

چاچا میرو اور ماسٹر رمضان جیسے لوگ ہمارے معاشرے کی رونق ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی کے ہر نشیب و فراز میں ہمیشہ مسکراتے رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ اب یہ لوگ اندر ہی اندر مرجھاتے جا رہے ہیں۔ یہ معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو ہمیشہ عزت کی آکسیجن پہ زندہ رہا ہے۔ ان کے معاشی مقام سے قطع نظر ان کے ارد گرد کے لوگوں نے ہمیشہ ان کا احترام کیا ہے۔ ہمارے ایک شاعر نے بڑے افسردہ لہجے میں دور حاضر کی سفاکی کا گلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔

یہی حال اب ہمارے معاشرے میں چاچا میرو اور ماسٹر رمضان جیسے بزرگوں کا ہوتا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہر طرف وہی کچھ ہو رہا ہے جس کو نہ صرف چاچے میرو کا گھوڑا مائنڈ کرتا ہے بلکہ چاچا میرو خود بھی مائنڈ کرتا ہے۔ ماسٹر رمضان صاحب تو وقت کے یہ تیور دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں۔ زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے مگر چاچا میرو اور ماسٹر رمضان جس چال چلن کے عادی ہیں اسی کو دیکھتے دیکھتے زندگی کے باقی دن بھی گزارنا چاہتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی چاچا میرو اور ماسٹر رمضان کا مان سلامت رکھے۔ ان کی یہ خواہش شرمندہ تعبیر ہو، حسرت نہ بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments