ووٹ کی چوری، رائے کی بے بسی


پاکستان کی مشکلات میں کمی نظر نہیں آ رہی، بین الاقوامی معاشی اور سماجی ادارے اور ان کے اعداد و شمار پاکستان کے بارے میں خوش گمان نظر آرہے ہیں، مگر اندرون ملک عوام کی سوچ اور فکر میں یکسوئی کا فقدان ہے۔ ہمارا کوئی بھی ہمسایہ ماں جایا بھی نہیں ہے، بھارت کے حکمران آپ سے سدا بہار بغض اور کینہ رکھتے ہیں۔ ایران کو آپ کے دوست پسند نہیں، چین کو حیرانی ہے کہ آپ لوگ اپنا کچھ بھی جلدی بدلنے کو تیار نہیں اور افغانستان کے ساتھ اعتماد کا فقدان ہے۔

طالبان نے بظاہر افغانستان کو فتح کر رکھا ہے۔ جس طرح سے ایک زمانہ میں امریکہ نے فتح کر رکھا تھا، طالبان اب کی بار کافی بدلے بدلے لگ رہے ہیں اور وہ امریکہ سے کوئی پنگا لینے کو مناسب خیال نہیں کر رہے۔ دوسری طرف امریکہ بہادر جو ہمارا پرانا مہربان قدردان، محسن اور با مروت دوست، افغانستان کو پرانا کمبل خیال کرتے ہوئے چھوڑ کر فرار ہوتا نظر آ رہا ہے، مگر وہ اکیلا نہیں ہے، یورپی افواج کے مددگار دستے بھی بھاگ نکلنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر جا رہے ہیں، امریکہ کے افغانستان میں اتنے جانثار تھے کہ وہ سب طالبان سے خوفزدہ ہیں، امریکہ کو اپنے اثاثوں کی فکر نہیں اور امریکہ اپنے ہمدردوں کو پاکستان کے راستے محفوظ کر رہا ہے۔

اس وقت سب سے زیادہ خطرہ پاکستان کو آج کی جمہوریت سے نظر آ رہا ہے۔ اس موئی شیطان صفت جمہوریت نے پورے معاشرہ میں ایک ایسی بیماری پھیلا دی ہے جو اس وبا سے بھی خطرناک ہے۔ اس وبا کی دوائی تو ابھی پوری طرح ملی نہیں، مگر ہے کچھ ضرور جس کی دنیا بھر کے تحقیق کرنے والے پردہ داری کر رہے ہیں۔ ایک طرف دعویٰ ہے کہ اس کی ویکسین لگوانے سے بہت حد تک آپ اس وبا سے محفوظ ہو جاتے ہیں مگر عوام کو یقین نہیں ہے اور دوسری طرف ہماری جمہوریت بھی ایسی ہی ہے عوام کو اس پر بالکل یقین نہیں ہے، مگر ڈرتے نہیں اور جمہوریت سے اپنی حیثیت مسلسل گنوا رہے ہیں، ان کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اس جمہوریت کے کارن ملک بھر کے ڈاکٹر اپنے حقوق کے لیے ہڑتال کر سکتے ہیں، ان کو مریضوں کا کوئی خیال نہیں جبکہ ڈاکٹروں کے مقابلے پر مریض اور بیمار زیادہ ہیں مگر جمہوریت ہے دھونس ہے، جو کرنا ہے کرلو، ہم نہیں مانتے کہ مریض زیادہ ہیں، کچھ ایسا ہی ہمارے ہاں کے وکیل حضرات کی نمائندہ تنظیم بار کونسل آئے دن ہڑتال کی دھمکی اور ہڑتال بھی اپنے مفادات کے تناظر میں۔ ان کو جمہوریت کا مقدمہ بھی لڑنا ہوتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت پر عدم اعتماد کیا جائے۔

بات سچ ہے مگر ہے رسوائی کی۔ اب آئے دن میڈیا کے نام پر کئی قسم کے لوگ سرکار کو اور عوام کو دھمکی دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس وقت میڈیا نظر انداز ہو رہا ہے، میڈیا کے حقوق کو سرکار نظر انداز کر رہی ہے اور ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جس کے بعد میڈیا بے کس ہو سکتا ہے، یہ بھی اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ جمہوریت ہے اور جمہوریت پسند لوگ ایک بڑے کمرے میں اکٹھے ہو کر میڈیا کے خلاف کچھ بھی کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں اور وہ کمرہ جو اسمبلی کہلاتا ہے وہاں پر میڈیا کے خلاف قانون سازی ہو سکتی ہے ورنہ سرکار اپنے خصوصی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے جمہوری لوگوں کا ہتھیار استعمال کر کے میڈیا کو بے حیثیت بھی کر سکتی ہے اور آج کل بہت ہی شوروغل ہو رہا ہے کہ ایک میڈیا اتھارٹی بنائی جا رہی ہے اور کمال یہ ہے کہ اس وقت اپوزیشن اور سیاسی اشرافیہ بھی میڈیا کے ساتھ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ میڈیا والے جمہوریت کو خاطر میں نہیں لاتے اور من مانی کرتے ہیں اور اپنی مرضی کی خبریں چھاپ دیتے ہیں اور کبھی بھی اپنا مقدمہ خود نہیں لڑتے بلکہ دوسروں کو لڑا کر جمہوریت کا راگ پسند کروانے کی کوشش کرتے ہیں، اصل میں جمہوریت واحد طاقت ہے جو انصاف اور قانون کو پسند نہیں کرتی۔

کچھ ایسا ہی حال ملک کے اہم اداروں کا بھی ہے۔ ہمارے ہاں محکمہ قانون ہے، پھر سرکار کے افسروں کی عدالتیں ہیں، پھر صوبائی سطح کی عدالتیں ہیں، صوبوں کے ہائی کورٹ ہیں اور سب سے اوپر اور خودمختار اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ بھی ہے۔ ایسے عدالتی نظام میں کسی بھی جگہ نہ انصاف نظر آتا ہے اور نہ محکمہ انصاف ہے۔ اس جمہوریت نے انصاف کو لاچار اور بے بس کر رکھا ہے اور جمہوریت نے اپنی مرضی اور منشا سے ایک اور سرکاری ادارہ بنا رکھا ہے جس کے ذریعے احتساب کیا جاسکتا ہے۔

صوبائی سطح پر احتساب کا محکمہ صرف خواتین کے لیے نظر آتا ہے اور اس کی ضرورت بھی اس لیے پڑی کہ ملک بھر کے مردوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اقلیت ہیں اور دوسری طرف بے چاری عورتیں نہ قلت میں ہیں اور نہ اقلیت میں۔ مگر ان کی کوئی حیثیت بھی نہیں اور جمہوریت ہی ان کو نظرانداز کرتی ہے اور جب کچھ نادان خواتین یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ہم ہیں اور ہماری مرضی ہے تو پورا سفاک معاشرہ ان کو اس دعویٰ سے دستبردار ہونے کے لیے ایک صف میں نظر آتا ہے۔ یہ ہے وہ جمہوریت کا حسن کہ جس سے ہر کوئی مستفید ہو رہا ہے۔

ہمارے ملک کو جمہوریت نے کیا کچھ دیا اور ملک کتنا خودمختار اور آزاد ہوا۔ اس کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ ہمارے بہت ہی دوست ملک جن میں صف اول میں امریکہ اور برطانیہ آتے ہیں بہت ہی جمہوریت پسند ہیں۔ برطانیہ میں جمہوریت صرف ملکہ کے ہاں جوابدہ ہے ورنہ عوام کو فکر نہیں اس لیے نہیں کہ ملک میں قانون ہے اور انصاف ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے جمہوریت دوست لوگ برطانیہ میں ملکی مفادات کے تناظر میں جمہوریت کے اصولوں کو پسند نہیں کرتے، ملکی دفاع اور معیشت کے حوالہ سے کوئی بھی فیصلہ جمہور نہیں کر سکتے اور اختلاف کی صورت میں مفاد دیکھا جاتا ہے۔

مفاد کے کارکن جمہوریت کے دعوے دار برطانیہ والے مفرور ملزموں کو اپنے مفاد میں ملک بدر کرنے کو تیار نہیں۔ ہاں ان کے ہاں کبھی بھی کسی کا استحقاق مجروح نہیں ہوتا اور ہمارے ہاں جمہوریت پسند اشرافیہ اور اعلیٰ عدلیہ کا استحقاق ہی سب سے بڑا مسئلہ اور معاملہ ہے اور پھر ہمارے ہاں تو توہین عدالت بھی جمہور پر لگتی ہے اور کوئی جمہوریت کو نہیں پوچھتا۔

اب ذکر ہونے جا رہا ہے امریکہ بہادر کا جو ہمارا بہت ہی خیال رکھتا تھا اب کچھ عرصہ سے وہ ناراض ناراض سا ہے۔ امریکہ ہماری عسکری انتظامیہ کے بھی بہت قریب ہے اور عسکری انتظامیہ نے کئی دفعہ امریکہ کو باور کروایا ہے کہ خطہ کی صورت حال میں وہ سیاست نہ کرے۔ اب ہمارے ہاں جمہوریت ہے اور عمران خان وزیراعظم ہے، عمران خان نے کوشش کی کہ سیاسی اشرافیہ کے ساتھ تنظیم سازی ہو سکے مگر سیاسی اشرافیہ کے دو چار بڑے لوگ جن پر احتساب کے تناظر میں مقدمات چل رہے ہیں وہ اب نئے الیکشن کے دعوے دار ہیں مگر اس کے لیے وہ جمہوریت والا راستہ مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں، ہماری سیاسی اشرافیہ کے ساتھ اس کے خصوصی تعلقات ہیں۔

امریکہ کی وجہ سے بے نظیر شہید کے شوہر نامدار کو صدر پاکستان بنوایا گیا اور امریکہ نے ہی عسکری انتظامیہ کو یقین دہانی کروائی کہ صدر پاکستان تابعدار رہے گا، مگر رہا تو نہیں مگر اس نے امریکہ کو مایوس بھی نہیں کیا اس ہی کو ہماری جمہوریت کا بہت خیال ہے، اس کو ہمارا دوست چین پسند نہیں اس لئے وہاں جمہوریت نہیں ہے اور اس کو ڈر ہے کہ چین جیسا نظام پاکستان کو پسند نہ آ جائے مگر امریکہ بہادر فکر نہ کرے جمہور کی آواز کون سنتا ہے۔ آپ کو پتا ہے نا۔

ہمارے معاشرے میں تضاد کی بنیادی وجہ جمہوریت ہے، ملک میں بڑی تبدیلیوں کی گنجائش اور ضرورت ہے، مگر جمہوریت پسند اپوزیشن نہ کھیلتی ہے اور نہ ہی پر امن کھیل پسند کرتی ہے، جمہوریت زدہ معاشرے میں افواہ سازی سے اپنی حیثیت منوائی جاتی ہے خواہ وہ افواہ سرکار کی طرف سے کیوں نہ ہو۔ مگر ہمارے ہاں یہ کام ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعہ بہت کامیاب جا رہا ہے اور آئے دن سیاسی نجومی نئی نئی پشین گوئیوں سے عوام کا دل پشوری کرتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار انجانے میں کچھ اچھی اچھی باتیں سننے کو مل جاتی ہیں، مگر اب یہ بھی مصنوعی تو نہیں مگر قابل سیاسی لوگوں کا وجدان ہے۔

”عمران خان اپنے پانچ سال پورے کرے گا۔ 2023 ء میں انتخابات تو ہوں گے مگر کوئی نیا نظام ہوگا۔ سپریم کورٹ نئے نظام کے لیے فکر میں مبتلا ہے، سی پیک کا منصوبہ پاکستان کو بہتر مستقبل دے گا اور ہو سکتا ہے کہ چینی طرز کے طرز حکومت کے لیے کچھ لوگ جو چین کو لبھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ عوام کے سامنے آجائیں، اسلام کو خطرہ نہیں اسلام پسند سخت خطرے میں ہیں، عمران خان کو روحانی حلقے نے طاقتور بنایا ہے“ باتیں اچھی ہیں مگر ان پر یقین نہیں آتا اور اس کی وجہ بھی جمہوریت پسند ہونا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments