افغانستان اور خواہ مخواہ انڈیا


چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب تھی جب مشترکہ ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور وادی سندھ کی دھرتی دو روایتی حریف انڈیا اور پاکستان میں تقسیم کر دی گئی۔ اور کل پھر چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب تھی جب افغانی طالبان نے مشترکہ افغانستان پر اپنا کھویا ہوا اقتدار واپس لے لیا۔

افغانستان کو مورخین تو اگرچہ دارالحرب یعنی جنگوں کی زمین کے نام سے گردانتے تھے مگر اب تو قومیت پرستی کے تقاضے ہی کچھ اس طرح بدلے ہوئے ہیں کہ چاند مریخ کی خبریں رکھنے والے جدید اسلحہ کے سب سے بڑے تاجر ملک یعنی دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ بھی زمینی حقائق کو سمجھنے یا پھر تسلیم کرنے میں بے بس نظر آیا۔ اگرچہ امریکہ 1975 میں بھی بالکل افغانستان کی طرح ویتنام سے بھی رات کے اندھیروں میں فرار ہوا تھا مگر پھر بھی دنیا پہ کنٹرول کرنے کے نشے میں مدہوش امریکہ زمینی حقائق اور افغانستان کی چار دہائیوں سے مختلف ادوار کی جنگوں میں پاکستان کی قربانیوں اور موثر کردار کو یکسر نظر انداز کرتا رہا۔

افغانستان جہاں 99 فیصد مسلمان اور زبان و کلچر کے حساب سے 42 فیصد پختون عوام۔ 27 فیصد تاجک 9 فیصد ہزارہ اور 9 فیصد ازبک باشندے بستے ہیں وہاں زمینی حقائق اور نظریات کے اعتبار سے دنیا کی مستند جنگجو قوم پختونوں کو پس پشت ڈال کر کوئی بھی حکومت استحکام حاصل نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر اس طرح کر زمینی حقائق رکھنے والے ملک پر کسی حادثے کے تحت غیر ملکی حملہ آوروں کے ایجنٹ قابض ہو جائیں تو پھر ان کا انجام تو بالکل اشرف غنی جیسا ہی ہوتا ہے۔

افغانستان کے خطے کی تاریخ تو بہت پرانی ہے مگر احمد شاہ ابدالی سے پہلے تک یہ مملکت فارس یعنی ایران کا حصہ رہا مگر ابدالی کے بعد سے یہ افغانستان کے نام سے جانا جانے لگا۔ ہمارا علاقہ جسے مورخین سونے کی چڑیا کہتے تھے اور تہذیب و تاریخ کے حوالے سے آٹھ  نو ہزار برس پرانی تہذیب کا حامل ہے۔ یہاں بھی اکثر حملہ اور اور عرب مذہبی مبلغ براستہ افغانستان ہی آتے رہے۔

موجودہ ادوار کی بات کریں تو جب دسمبر 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو روس امریکہ میں سرد جنگ کی وجہ سے امریکہ نے غنیمت جانتے ہوئے خطہ میں اپنے اتحادی ہمارے ملک پاکستان کو بھی اس کا حصہ بنا دیا اور ہماری مجال تھی کہ ہم امریکہ کے سامنے انکاری بن کر منکر کہلاتے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب حکومت جنرل ضیا الحق کی تھی اور سابقہ وزیراعظم نواز شریف مقدس جرنیلوں سے سیاست کی تربیت لے رہے تھے۔

بالآخر روس کو شکست ہوئی اور لڑائی جھگڑے کے رسیا افغانی چھ سال تک آپس ہی میں خانہ جنگی میں ملوث رہے۔ 1996 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت بن گئی اور طالبان اپنی شدت پسندی اور محدود سوچ کی وجہ سے دنیا میں دہشت کی علامت بنتے گئے۔ افغانی جہادی تنظیمیں دن بدن دنیا میں شدت پسندی میں اپنا نام بنانے لگ گئیں۔ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک یعنی دنیا کے سب سے بڑے بزنس ہب اور بین الاقوامی تجارت کی علامت سمجھے جانے والے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو ایک دہشت گردی سے گرا دیا گیا اور پھر امریکہ جو پوری دنیا میں سنگل سپر پاور ہونے کے ساتھ ساتھ اسلحے کا بھی سب سے بڑا تاجر تھا اس نے اسامہ بن لادن کو اس دہشت گردی کا مرکزی ملزم ٹھہراتے ہوئے افغانستان سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا۔ اس وقت کی افغان طالبان حکومت نے تمام دنیا کی رائے کو رد کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو دینے سے انکار کر دیا۔

امریکہ نے پاکستان اور سعودی عرب کو ثالثی کے لئے کہا مگر افغان طالبان نے absolutely not کہہ دیا۔ اب پوری دنیا میں خوف اور دہشت کی فضا تھی اور پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت تھی پرویز مشرف نے کچھ پوری دنیا کی سفارتی مجبوری اور کچھ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر امریکہ کو افغانستان پہ حملہ کے لئے پاکستان کی زمین دے دی۔

یہ ایک فطری عمل تھا کہ اس کے بعد افغانیوں بشمول پختون۔ تاجک۔ ازبک۔ ہزارہ سب نے پاکستان کو افغانستان کی تباہی کا ذمہ دار کہنا شروع کر دیا۔ وہی افغانستان جس کی جنگ ہم دس سال تک روس سے لڑتے رہے۔ وہی افغانستان جس کے لاکھوں مہاجرین کی ہم نے آبادکاری کی۔ وہی افغانی جن کی وجہ سے پاکستان میں کلاشنکوف اور ہیروئن کا کلچر آیا۔ وہی افغانستان جس کو پاکستان نے بین الاقوامی کرکٹ میں داخل کیا۔ وہ سب پاکستان مخالف ایجنڈے پر اکٹھا ہونا شروع ہو گئے۔

ہمارے روایتی حریف انڈیا نے دشمنی کا موقع ہاتھ سے نہ گنواتے ہوئے سرمایہ کاری افغانستان میں شروع کردی۔ انڈیا افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہوئے پاکستان مخالف ایجنڈے افغانستان کی سرزمین سے لانچ کرنے لگا۔ پھر انڈیا صرف یہاں تک نہیں رکا بلکہ اپنے دفاعی بجٹ کا 30 فیصد بھی افغانستان کو دینے لگ گیا۔ تاکہ دونوں اسلامی ملک آپس میں لڑتے رہیں اور دنیا کی کشمیر سمیت ہندوتوا کی شدت پسند سوچ سے نظریں اوجھل رہیں۔

انڈیا نے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے نہ صرف کلبھوشن یادیو جیسے کئی ایک جاسوس بلوچستان کی سر زمین میں سر گرم کیے بلکہ مغربی ممالک برطانیہ و یورپ میں افغان بھائیوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے ہوئے بلوچستان کی آزادی اور نام نہاد مسنگ پرسنز کے ایجنڈے بھی لانچ کیے ۔ برطانیہ اور یورپ کا کوئی شہر ملک ایسا نہیں جہاں ہم نے افغان بھائیوں کو انڈیا کے بہکاوے میں آ کر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہ دیکھا ہو۔ افغانی اور پاکستانی پبلک  جو ایک دوسرے کو اپنے سگے بھائی کی طرح سمجھتی ہے مکار انڈین سرکار کے بہکاوے کا شکار ہونے لگے۔

پچھلے سال امریکہ بہادر نے حالات اور زمینی حقائق کو بھانپتے ہوئے جب فروری 2020 میں طالبان کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے امن معاہدہ بھی کیا اور افغانستان کی سرزمین سے امریکہ و اتحادی ممالک کی فوج کے انخلا کی یقین دہانی بھی کروائی تو طالبان جو ہر حال میں اپنی شناخت قائم رکھے ہوئے تھے ایک بار پھر شیر کی طرح دھاڑنے لگے۔

صاحب عرض کچھ اس طرح ہے کہ افغان روس جنگ میں امریکی دلچسپی اور روس کی دشمنی میں پاکستان تو مجبوراً یا پھر امریکی حلیف اور ہمسایہ ہونے کی وجہ سے جنگ کا حصہ بن گیا۔ دوبارہ امریکی کے افغانستان پر حملہ کے وقت پاکستان کو سفارتی تنہائی یا پھر ہمسایہ ملک ہونے پہ امریکی دھمکیوں کی وجہ سے اس جنگ کا حصہ بننا پڑا۔ لیکن دوسری طرف انڈیا بغیر کسی مجبوری اور بغیر کسی دھمکی صرف پاکستان کی دشمنی میں اندھا دھند ایک خواہ مخواہ کا کردار ادا کرتا رہا۔ اور آج طالبان کی واپسی سے جنوبی ایشیا میں جتنا تنہا اور چیخیں مارتا انڈیا دکھائی دیا شاید اتنے امریکی بھی نہیں جو منہ کے بل گرے۔

طالبان کی واپسی سے اس خطے کے ممالک کی اپنی خودمختاری میں اضافہ ہوگا۔ اور دنیا کو ایک بہت بڑا پیغام گیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اور قومیت کے تصور کو تقویت ملنے کی وجہ سے کوئی بھی سپر پاور اتحادیوں کو ساتھ ملا کر بھی قوموں کو فتح نہیں کر سکتی بھلے ویتنام ہو۔ عراق ہو یا پھر افغانستان۔

زمین افغانستان پر وہاں کے رہنے والوں کا حق ہے۔ وہ دہشتگرد ہیں یا جاہل۔ وہ ان پڑھ ہیں یا اسلامی شریعت پہ کاربند۔ وہ جنگجو ہیں یا امن پسند۔ مگر ہر حالت میں ان کو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ وہاں شریعت نافذ کریں یا جمہوریت۔ سیاسی نظام لائیں یا پھر نیم سیاسی۔ حق صرف اور صرف افغانیوں کا ہے ناں کہ بیرون ممالک کے چند ایجنٹوں کا۔ جنہوں نے ڈالروں کی خاطر اپنی ہی قوم کو مذاق بنا دیا تھا۔

طالبان کے آنے یا جانے سے خطے پر بہت زیادہ اثرات اس لئے نہیں آئیں گے کہ یہ خطہ پچھلے دو سال سے کافی حد تک امریکہ اور مغرب کے کنٹرول سے باہر آ چکا ہے اور یہاں روس۔ ترکی۔ چائنہ اپنے قدم جما چکے ہیں۔ اور سی پیک تو بالآخر اس خطے کی اہمیت کو اور بھی اجاگر کر دے گا۔

ہماری دعا ہے کہ طالبان جلد از جلد افغانستان میں آئینی حکومت تشکیل دے کر سیاسی استحکام لائیں اور غیر ممالک کے مذموم ارادوں سے اپنی سرزمین کو پاک کر کے دنیا میں بھائی چارے اور امن کی علامت بن کر اپنا پرانا دہشت گردی کا تاثر غلط ثابت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments