سرب کا تیر


آج گاڑی گورنر رچی ہائی وے پر چڑھی، میں کچھ کہنے ہی والی تھی کہ ”اس“ نے فون کے ساتھ گاڑی کی تار کو کنکٹ کر دیا۔

دل تو کھلی ہوا میں پتنگ کی طرح اڑنے کو تیار ہو گیا۔

اس نگوڑی وبا نے تو زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔ کچھ بھی نہیں ہو رہا، نا زندگی کا مزہ نا موت کا دھڑکا۔

ایک عرصے سے سن رہے تھے کہ آبادی میں کثیر اضافے کے سبب زمین ہر جگہ کم ہونے لگی ہے۔
اب تو حالات کی صورت ہی بدل گئی ہے۔ پورے کا پورا ماحول اس وائرس کے حلقہ تاثیر میں ہے۔

لوگ اپنے اپنے گھروں میں بند ہیں ؛اور بند بھی اپنی اپنی حدود کے اندر، اپنے اپنے کنکشن کے ساتھ سب سے آن لائن ہی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

گزشتہ دو برس چاہتے اور نا چاہتے ہوئے پاکستان میں گزر گئے اور اب ایک برس سے امریکہ میں غمی اور خوشی کے درمیان زندگی کی وسعت کو عظیم وسعت کے سفر پر اپنے سمیت باقی ساتھیوں کو روانہ ہوتے دیکھ رہی ہوں۔

ہائے ہائے۔ اس عالم خواب میں کب تک جیئں گے
حقیقت کا چہرہ۔
مجھے بھی اس راز کو دکھانے والا ہے اور ساتھ یہ بھی نوید دے رہا ہے۔
پگلی غم کاہے کا۔ تم تو ان بھوکے پیاسے پودوں کی نمو کی زرخیزی کا سامان بننے والی ہو۔
اف۔ میں نے اس قدیم راز سے منہ کب موڑا تھا۔
بس اتنے برسوں میں سمیٹی محبتوں کو ہوا میں اڑانے کے مہلت درکار ہے۔
واقعی۔ وہ میری پہلی اور آخری محبت تھا۔
اور شاید اب بھی ہے۔
دل نے گواہی دی کہ ”اب بھی وہی ہے“ ۔
بے شمار محبتوں نے مجھے دریافت اور میں نے ان کو جواز بخشے،
مگر اصل تو اصل ہی ہے۔
وہ خود اس وقت بے موسمیا بیٹھے بٹھائے کینسر کے مرض میں مبتلا ہو گیا۔
بھلا چنگا مڈل ایج سے گزر رہا تھا ؛ چہرے پر لالی تھی اور دنیا داری میں بھی بے حساب پورا اترتا تھا۔
ایسی بیماری کے تو کہیں دور دور تک آثار نہیں تھے۔
کیسا زمانہ آ گیا ہے۔
آج کل تو کینسر کی بھی قدر نہیں رہی۔ ایک آدھ قریبی عزیزوں کو علم ہوا تو الٹا کہنے لگے۔

”شکر کریں کینسر ہی ہوا ہے فلاں تو کوویڈ سے وارننگ کے بنا ہی چلا گیا ہے“ ۔ اب تو میری طرح حیرت بھی ہکی بکی اور گم سم بیٹھی ہے۔

میرا اور اس کا ساتھ دو جسموں کا ملاپ نہیں دو پنگھٹوں سے نکلتی روحوں کا ملاپ ہوا تھا۔
محبتوں کو پروان چڑھتے اور ان کے درجوں کو بدلتے دیکھا ؛
بس نہیں بدلہ تو یہ نہیں بدلہ۔
یہ دل میرا۔
وہ پیار اس کا۔
سرب کا تیر بنا میری چھاتیوں میں چبھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
حالات کے پیش نظر۔
میں اپنے دونوں ہاتھوں سے آہستہ آہستہ اسے نکالنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
ادھر میرے ہاتھوں میں بھی وہ پہلے سی طاقت نہیں۔
زور سے پکڑتی ہوں تو خون میں ہاتھ لت پت ہو رہے ہیں۔
وہ اس قدر اندر دھنس چکا ہے کہ ڈر ہے اسے نکالتے نکالتے کہیں زخموں کو محبت کا سانس نا نگلنا پڑے۔
ایک دھچکے سے گاڑی لال بتی پر رکی۔ تو ”اس“ نے مجھے یونیورسٹی والی نظر سے دیکھا۔
اپنی آنکھوں پر لگائے وائزر میں سے آنکھ مارتے ہوئے گاڑی کی سکرین پر دیکھنے کو کہا۔

سکرین پر ”اقبال بانو“ اپنی ساڑھی کا پلو پھیلا کر زمین میں احساس محبت کے ساتھ پہلا قدم رکھنے کا پیغام دے رہی تھی۔ اشفاق احمد، کشور ناہید، نیرہ نور اور باقی دوست اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔

اب ”اس“ نے بھی مجھے کہہ دیا تھا۔
پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے۔
تو لاکھ چلے رے گوری تھم تھم کے
یہ جیون بھر کا روگ سکھی۔
تو ہے پگلی کہیں گے لوگ سب ہی۔
یاد آئیں گے وعدے بالم کے۔ میں نے بھی کیا تھا پیار کبھی۔
آئی تھی یہ چھنکار کبھی۔
سفر جاری ہے۔

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments