نائن الیون حملے: خالد شیخ محمد سمیت دیگر ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی کا دوبارہ آغاز


خالد شیخ محمد 2019 میں ملٹری ٹریبونل کے سامنے پیش خالد شیخ محمد کیوبا میں امریکہ کے نیول بیس پر بنائی گئی جیل ‘گوانتانامو بے‘ میں 15 سال گزارنے کے بعد 2019 میں پہلی مرتبہ ملٹری ٹریبونل کے سامنے پیش ہوئے تھے۔(فائل فوٹو)

امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز خالد شیخ محمد اور دیگر چار ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی واقعے کے 20 برس مکمل ہونے سے چند روز قبل دوبارہ شروع ہو رہی ہے جس سے متاثرین کو انصاف ملنے کی نئی امید پیدا ہوئی ہے۔

خالد شیخ محمد کیوبا میں امریکہ کے نیول بیس پر بنائی گئی جیل ‘گوانتانامو بے‘ میں 15 سال گزارنے کے بعد 2019 میں پہلی مرتبہ ملٹری ٹریبونل کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

کرونا وائرس وبا کے باعث 17 ماہ تک عدالتی کارروائی تعطل کا شکار رہی جو منگل کو ایک بار پھر شروع ہو رہی ہے۔

کارروائی کی رفتار

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق عدالتی کارروائی میں ملزمان کے دفاع میں حکومت کے پیش کردہ ثبوت پر یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ ملزمان کو مبینہ طور پر سی آئی اے کی حراست میں تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

عدالتی کارروائی کے از سرِ نو آغاز پر توقع کی جا رہی ہے کہ بحث کا سلسلہ وہی سے شروع ہو گا جہاں اس سے قبل عدالتی کارروائی میں تعطل کے باعث منقطع ہوا تھا۔

اتوار کو فوجی عدالت کے نئے جج، امریکہ فضائیہ کے کرنل میتھیو مک کال نے عندیہ دیا تھا کہ عدالتی کارروائی کی ابتدائی رفتار تیز نہیں ہو گی۔ وہ اس مقدمے کی سماعت کرنے والے آٹھویں جج ہیں۔

جنگی جرائم کے ٹریبونل کی پہلی سماعت کا محور جج کی اہلیتِ کار سے متعلق سوالات رہیں گے۔ اس سماعت میں استغاثہ اور صفائی کے وکلا مقدمے کے نئے جج کے ممکنہ جھکاؤ یا تعصب کے بارے میں سوالات کریں گے۔

اس کے بعد باقی ماندہ ہفتے کے دنوں میں فوجی پراسیکیوٹرز اور وکلاء صفائی کی ٹیم سے ملاقاتوں میں گزرے گا۔

وکلاء صفائی استغاثہ سے شواہد فراہم کرنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ لیکن قبل ازیں ملٹری پراسیکیوٹر نے اس سے انکار کر دیا تھا۔

وکلاء صفائی کا کہنا ہے کہ باقاعدہ ٹرائل سے قبل کا مرحلہ ایک سال مزید جاری رہ سکتا ہے۔ وہ اس معاملے میں مستقبلِ قریب میں جیوری کی سماعت اور فیصلے کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔

’تشدد کے اثرات‘

وکلاء صفائی کا کہنا ہے کہ مقدمے کے پانچ ملزمان خالد شیخ محمد، عمار البلوشی، ولید بن اتاش، رمزی بن الشیبہ اور مصطفیٰ احمد الہوساوی بہت کمزور ہیں اور 2002 سے 2006 کے دوران سی آئی اے کے تشدد کے ان پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے تھے۔ ملزمان ابھی تک ان اثرات سے نکل نہیں سکے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ملزمان پر 15 سال کے دوران کرب ناک حالات اور تنہائی کے اثرات ہیں۔

عدالتی کارروائی کے لیے ملزمان کو سخت سیکیورٹی کے حصار میں ملٹری کمیشن کے عدالتی کمرے میں پیش کیا جائے گا۔ عدالت کے گرد خاردار باڑ بھی لگائی گئی ہے۔ ہر ملزم اپنے وکلا کی ٹیم کے ساتھ پیش ہوگا۔

کیس کی سماعت میں دو دہائی قبل نائن الیون کے سانحے میں ہلاک ہونے والے 2976 افراد کے اہلِ خانہ بھی شریک ہوں گے۔

ان پانچ ملزمان کو قتل اور دہشت گردی کے الزمات میں سزائے موت کی دفعات کے تحت عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔

عدالت میں ملزمان کی نمائندگی فوج کے فراہم کردہ وکلا کریں گے۔ اس کے علاوہ نجی شعبے اور غیر سرکاری تنظیموں سے رضاکارانہ طور پر وکیل بھی وکلاء صفائی میں شامل ہیں۔

’اوپن اینڈ شٹ‘ کیس؟

اس مقدمے کی کارروائی کے آغاز سے استغاثہ کا مؤقف ہے کہ اس میں سی آئی اے کی تفتیش سے حاصل ہونے والے شواہد، جن پر اعتراض کیا جاتا ہے، شامل نہ بھی ہوں تو یہ فوری حل ہونے والا یا ’اوپن اینڈ شٹ‘ کیس ہے۔

وکلاء استغاثہ کا کہنا ہے کہ 2007 میں ایف بی آئی کی تفتیش میں پانچوں ملزمان کے نائن الیون حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ملے تھے۔

لیکن وکلاء صفائی کا کہنا ہے کہ 2007 میں ایف بی آئی کی تحقیقات بھی ’شفاف‘ نہیں تھیں کیوں کہ ایف بی آئی بھی سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام میں شریک تھی۔

بلوشی کے وکیل کونل کا کہنا ہے کہ ملزمان کے خلاف امریکہ کے وفاقی نظام انصاف کے تحت کارروائی کرنے کے بجائے، تشدد پر پردہ ڈالنے کے لیے ہی تو انھیں گوانتانامو بے لایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تشدد کے چھپانے کی انہی کوششوں کی وجہ سے ہم نائن الیون کمیشن کی 42 ویں سماعت سننے کے لیے گوانتانامو بے میں جمع ہو رہے ہیں۔

تاخیر کے اسباب

اپنے دلائل کے لیے وکلاء صفائی ٹارچر پروگرام، گوانتانامو بے اور ملزمان کے صحت کے جائزے سمیت کئی خفیہ سرکاری دستاویزات کی فراہمی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ حکومت ان دستاویز کی فراہمی میں مزاحمت کرتی رہی ہے۔

اب تک ہونے والی کارروائی میں 12 گواہان پیش ہو چکے ہیں جب کہ وکلاء صفائی دیگر درجنوں گواہان سے سوالات کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں دو گواہان ایسے بھی شامل ہیں جو سی آئی اے پروگرام کے نگران رہ چکے ہیں۔

ملزمان کے وکلا کے ان مطالبات کی وجہ سے عدالتی کارروائی تاخیر کا شکار ہو رہی ہے جب کہ وکلاء صفائی حکومت کی جانب سے کیس کے متعلقہ مواد چھپانے کو اس کا سبب قرار دیتے ہیں۔

وکلاء صفائی میں شامل الکا پردھان کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ ماننے میں چھ ماہ لگا دیے تھے کہ ایف بی آئی بھی سی آئی اے کے ٹارچر پروگرام میں شامل تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ استغاثہ ایسے چیزیں بھی روک رہی ہیں جو معمول کی عدالتی کارروائی کا حصہ ہوتی ہیں۔

یاد رہے کہ گیارہ ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں کو امریکہ کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔ جس میں مبینہ طور پر القاعدہ نے چار مسافر طیارے ہائی جیک کر لیے تھے۔

ان حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد سمیت پانچ ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت کا آغاز جولائی 2019 سے ہوا تھا۔

خالد شیخ محمد کے ساتھ چار دیگر ارکان میں عمار البلوشی، ولید بن اتاش، رمزی بن شیبہ اور مصطفی احمد الہساوی شامل ہیں۔ جن پر نائن الیون حملوں میں مبینہ کردار پر جنگی جرائم عائد کیے گئے ہیں۔ ملزمان کو 2003 سے 2004 کے درمیان حراست میں لیا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments