عمر رواں نے اک جھٹکا سا کھایا۔۔۔ اور اک سال گیا


سمجھ میں نہیں آتا خوش ہو کر قہقہے لگائیں یا اداس ہو کر آنکھیں نم کریں۔ معمہ ہے یہ بات کہ وقت کے سفر میں اگلی منزل کا استقبال کیسے کیا جائے ؟

کچھ کا کہنا ہے کہ عمر عزیز کے اگلے سنگ میل پہ تو رنجیدہ ہونا چاہئے کہ زندگی کی شمع تیزی سے پگھل رہی ہے۔

ہم ایسا نہیں سوچتے!

ہمارے خیال میں زندگی کا ہر پل سرمایہ حیات ہے۔ ہر گزرتا پل جو یادوں کے جگنوؤں کو اپنے اندر سموتا ماضی بن جاتا ہے۔ یادیں جو کبھی تو دل کو گدگدائیں اور کبھی آنسؤوں کا سمندر امڈ آئے۔ اور وقت کے ہمرکاب ہر وہ پل جس کے ساتھ دل کی دھڑکن ہم قدم ہو کر جینے کا احساس دلائے اور آنے والا وہ پل بھی جس کی آہٹ نئے سپنے دیکھنے پر مجبور کرے اور لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دے۔

 مان لیجیے یہی زندگی ہے۔

کچھ ہونے اور کچھ نہ ہونے کے رنگوں سے مزین، کچھ الجھی، کچھ سلجھی، کبھی آشنا، کبھی نا آشنا،بہت سی ان کہی، ان سنی اور انہونیوں کے بیچ میں کہیں اپنا رستہ تلاشتی زندگی، امید کی تتلیوں کے تعاقب میں!

ویسی ہی امید جو پچھلے اٹھارہ ماہ سے ہماری پلکوں پہ ستاروں کی طرح سجی ہے۔ اسی کا ہاتھ تھامے ہم نے کووڈ کی مشقت کاٹی ہے، موت کے رقص کو قریب سے دیکھا ہے۔ سر پہ کفن باندھے یہ جنگ لڑتے ہوئے ہم ہر کسی کو باآواز بلند یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ جو لمحہ موجود ہے نا، اسے تھام کر وہ سب کر گزریے جو من سرگوشیوں میں سجھاتا ہے۔

زندگی سے محبت کرنا ہم نے اپنے بچپن میں سیکھا اور نہ جانے کیسے سیکھ لیا۔ زندگی کو بھی شاید ہماری یہی ادا بھا گئی کہ اس نے بھی ہمیں اپنی بے لوث محبت کی بوچھاڑ سے ہر لمحہ بھگو بھگو دیا۔ لیکن کون نہیں جانتا کہ زندگی اگر محبت کرے تو اس کی محبت پھولوں کا بستر ہی نہیں بچھاتی، کڑے راستوں سے گزار کے ہی دم لیتی ہے۔

ہماری معصوم اور سادہ محبت تو صرف اتنا جانتی تھی کہ زندگی کے بھاگتے دوڑتے سمے سے خوشی کیسے کشید کی جائے۔ جنم دن منانا اسی کی ایک کڑی تھی۔

ہمیں ایسا لگتا تھا کہ یہ دن اور کسی کے لئے خاص ہو نہ ہو، ہمارے لئے تو ہے کہ نہ جانے کس کائنات سے گھومتے پھرتے ہم اس دنیا میں آن پہنچے تھے۔ مانا جناب کہ کروڑوں انسان ہر روز جنم لیتے ہیں اور دنیا میں انسانوں کا آنا جانا کوئی خاص بات نہیں، مگر اور کسی کے لئے ہو نہ ہو، اس ایک شخص کے لئے تو ہونی چاہئے نا جو اپنے جنم دن کو خاص سمجھ کے خوش ہونا چاہتا ہو۔

ہم تب بھی سوچتے تھے اور آج بھی یہی خیال ہے کہ محبت کی آرزو میں دوسروں کی طرف طلب و تمنا بھری نظر سے دیکھنے کی بجائے اپنی ذات سے محبت کرنی چاہیے۔ اگر ایسا کرنے میں کوئی کامیاب ٹھہرتا ہے تو پھر اس کا جنم دن خاص ہوا نا۔ دیکھیے اب آپ ہمارے اس فلسفے کو نرگسیت کے خانے میں نہ ڈال دیجیے گا۔

سو یہی کیا ہم نے، اپنے آپ سے محبت کی، خود کو خاص جانا اور اپنا ہر جنم دن ایسے منایا کہ سال کے بقیہ دن اس دن کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے یہ آرزو کریں کہ کاش …..

ایسا کرنے میں ہمیں اپنے پیاروں کو بہت کچھ سکھانا پڑا۔ دیکھیے نا مشرقی رسوم و رواج میں ویسے ہی رنج وغم، دکھ اور مرگ کے دن زیادہ ذوق و شوق سے منائے جاتے ہیں جیسے سالانہ برسی، سوئم، دسواں، چالیسواں۔ جن کے منانے کا اس شخص کو تو علم ہوتا نہیں جو شہرخموشاں میں منوں مٹی تلے چپ چاپ سو رہا ہوتا ہے۔ بس عزیز و اقارب دل کی تسکین کے لئے کچھ نہ کچھ کیے جاتے ہیں۔ سو ہم نے سب سے پہلا اعلان تو یہ کیا کہ دیکھیے ہمارے مرنے کے بعد کچھ نہ کیجیے گا لیکن ہماری زندگی میں ہمارے سب دن دھوم دھڑکے سے منا لیجیے کہ ہمیں زندگی بھرپور طریقے سے گزارنے کی تمنا ہے۔

اماں ابا نے حیرت سے اپنی بیٹی کو دیکھا جو ہمیشہ ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرتی تھی اور نہ جانے غیب کے یہ مضامین کہاں سے ڈھونڈھ کر لاتی تھی۔ بھلے لوگ تھے سو سر تسلیم خم کر دیا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اولاد کی ہر خواہش پہ خوشدلی سے سر جھکا دینے والے ایسے ماں باپ ہم نے آج تک کہیں نہیں دیکھے۔ یوں لگتا تھا کہ ان دونوں میں اولاد کو ذاتی جاگیر سمجھ کر “کنٹرول” نامی بٹن اللہ نے لگا کر ہی نہیں بھیجا تھا۔ بچے کی بات چاہے ان دونوں کے نظریات و خیالات سے متصادم ہو، یا ایک سو اسی ڈگری کے فاصلے پر کھڑی ہو لیکن اولاد کی ہر بات کا احترام دونوں ایسے کرتے جیسے یہی ان کی بھی منشا ہو۔

تو ہم بات کر رہے تھے سالگرہ منانے کی، جس کا اظہار ہم نے بچپن میں کیا اور جو اماں ابا نے آنے والے برسوں میں ایسے منائی کہ ہم سے زیادہ ان کی خوشی دیدنی ہوتی۔ ہم یکم ستمبر سے تیاری شروع کر دیتے اور باقی بہن بھائیوں کو بہانے بہانے سے یاددہانی کرواتے رہتے کہ یوم دفاع سے اگلا دن بھی اہم ہے۔ کبھی کبھی کوئی شرارتا کہتا، جانتے ہیں بھئی، یوم فضائیہ ہے۔ جس پہ ہمارا ترنت جواب ہوتا کہ فضائیہ نے بھی تو کچھ سوچ کر چنا ہے نا یہ دن!

اماں ابا کے سائے میں منائے گئے وہ سب جنم دن خواب ہوئے۔ ایسے خواب جن میں محبت کے جگنو اور احساس کی مہک ہمیں آج تک محسوس ہوتی ہے۔

لیکن ان خواب دنوں کو دوبارہ سے زندہ کرکے مہکانا اور انہیں بے پناہ محبت سے گوندھ کر ہماری روح کو سیراب کرنا، اب کسی اور نے اپنے دل پہ لکھ لیا ہے۔

ہمیں کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی حقیقت “کوکھ” ہے۔ کمہار کا چاک سمجھیے یا مصور کا کینوس، مجسمہ ساز کے ہاتھوں کا ہنر جانیے یا موسیقار کے سروں کی سرگم، کچھ تو ہے جو تخلیق کو اپنے تخلیق کار سے یوں جوڑتی ہے کہ جس رخ سے بھی دیکھا جائے، دونوں کے رنگ ایک دوسرے میں مدغم نظر آتے ہیں، کچھ یوں کہ علیحدہ علیحدہ دیکھنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔

ہماری کوکھ کی بھٹی میں پل کر جنم لینے والے جو دنیا کےآسمان پہ اپنی پرواز کا آغاز کرتے ہوئے اجنبی زمینوں کو اپنا دیس بنا چکے ہیں، یہ بات کبھی نہیں بھولتے۔ جی وہی بات، جو ہمارے اماں ابا نے بھی اپنے دل پہ لکھ رکھی تھی۔

کچھ برسوں پہلے جب ایک ہی چھت سب کا مقدر تھی، ستمبر کا آغاز ہوتے ہی تینوں کی پراسرار سرگرمیوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ تینوں ہماری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے چپکے چپکے باتیں کرتے اور ہم یوں انجان بن جاتے تھے کہ ہمیں کیا خبر تم کیا سوچو اور کرو ہو؟

اماں کے لئے کیسے تحفے خریدنے ہیں؟ کہاں کھانا کھلانا ہے؟ کہاں گھومنے جانا ہے؟ کیک کیسا ہونا چاہئے؟ کیا پہننا چاہیے؟ کون سے دوست مدعو کرنے ہیں؟ سب طے کیا جاتا تھا۔

وقت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے جو خامی بھی ہے کہ متلون مزاجی اسے ایک سا نہیں رہنے دیتی۔ آج اگر سورج تیز دھوپ سے جھلسا رہا ہے تو کل بادل اپنی رم جھم سے من کو شانت کرتا ہے۔

سو کوکھ پرندوں کے ساتھ بیتے ہوئے وہ پل بھی یادوں کا حصہ بن کر روشنی دیتے چراغوں میں بدل گئے۔ لیکن محبت فاصلوں کو کب خاطر میں لاتی ہے، احساس کے پنکھ کے سہارے سات سمندر پار سے سات ستمبر کو وہ ماں کے آنگن میں پھر سے رنگ بکھیرنے پہنچ جاتی ہے۔

رنگ برنگے کاغذوں میں لپٹی یہ اشیاء تحفے نہیں ہیں۔ یہ تو ہمارے جگر گوشوں کے دل سے اٹھتی مہک ہے جو ہمیں یہ بتانے کے لئے آتی ہے کہ ہماری محبت کے جواب میں وہ ہماری ہر ادا کو خاص سمجھتے ہیں اور زندگی کا ہر پل ویسے ہی منانا چاہتے ہیں جیسے ہم نے زندگی کو سوچا اور سمجھا ہے۔

کووڈ 19 نے محبت کرنے والوں کو نیویارک میں ایک اور دن بخش دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments