شناخت پریڈ کے لئے ہماری جیل یاترا


عائشہ اکرم کی اپنے مجرموں کی شناخت کے لئے جیل جانے کی میڈیا تفصیل پڑھ ہنسی بھی چھوٹی اور کوئی ستائیس سال قبل کی بیگم کے ہمراہ فیصل آباد جیل کے اندر جانا، گھر میں پڑے ڈاکا کے ( ہماری شو مئی قسمت سے ) مجرموں کے پکڑے جانے کے بعد ، ان کی شناخت کے لئے شناخت پریڈ بھگتنا بھی یاد آیا۔

چھبیس جون انیس سو ترانوے کو دوپہر بیگم کے گھر میں اکیلے ( سات آٹھ سالہ ہمسائی بچی ساتھ تھی ) ہوتے چار ڈاکو پستول چھرے چھاتی گردن پر رکھتے گھر سے تمام زیور، نقدی، سوزوکی کار چھین کر جا چکے تھے۔ فون پر لرزتی خوفزدہ آواز بیگم کی سنتے اور خود اس کے بخیریت ہونے کی تسلی کرتے گھر پہنچتے ہی ایمرجنسی پولیس کی پک اپ بیگم کے یہ بتاتے کہ ڈاکو کوہ نور ملز (شمال ) کی طرف گئے ہیں فوراً ٹیکنیکل سکول ( جنوب ) کی جانب ان کی تلاش میں جا چکی تھی۔

تفصیل بتانا بے کار سمجھتے بس یہ بتا دوں کہ ڈی ایس پی نیازی صاحب نے کیس ایک قابل افسر کے حوالے کرنے کا وعدہ کرتے متعلقہ چھوٹے تھانیدار کو رپورٹ لکھنے کی ڈیوٹی دی تھی اور وہ انتہائی قابلیت سے بیان کردہ اصل واقعات کو اپنی ماہرانہ قابلیت سے اپنی مرضی سے توڑتے مروڑتے ساتھ بچی کی موجودگی کا ذکر گول کرتے، کہ کیس کمزور ہونے اور بچی کا تفتیش میں ساتھ رلنے کا امکان ہے، لکھ، مجھ سے ”سن پڑھ درست تسلیم کیا“ والے دستخط لے چکے تھے۔

ہم چونکہ چھبیس سال پولیس چوکی ریل بازار فیصل آباد کے سامنے دکانداری کرتے، اور پھر کوئی سال بھر قبل ہی تین چار سال ہر دوسرے ہفتے عدالت کے سامنے نماز عید اور نماز جمعۂ الوداع کی ادائیگی کے گھناؤنے جرم کی ادائیگی کے مجرم کے طور پورے بائیس مجرموں کے ہمراہ، سارا سارا دن رل بالآخر مقدمہ کا فیصلہ کرنے والے محترم جج کے کئی ماہ فیصلہ سنانے میں لیت و لعل کو ان محترم کی ہمشیرہ کی شادی میں سلامی بھیجنے کے بعد ختم کراتے بری ہوتے کچھ کچھ شد بد رکھتے تھے۔

لہذا صاف عرض کیا کہ بھئی آپ نے جس طرح بھی تفتیش کرنی ہے دل و جان سے تعاون حاضر ہے مگر کار، مال، اور ہم خود کو پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ کوئی ڈیڑھ ماہ بعد تھانہ پیپلز کالونی سے فون آیا کہ آپ کی کار تھانہ چک جھمرہ میں کھڑی ہے رابطہ کر لیں۔ تھانہ جھمرہ میں ان کی جانفشانی کی داستان سنتے دل و جان سے ان کا بھی شکریہ ادا کیا۔ ان کے مطابق واردات کے تین روز بعد کار جڑانوالہ روڈ سے کسی گاؤں جاتی سڑک پر لاوارث کھڑی پائی گئی تھی اور ہم نے جان توڑ کوشش کے بعد انجن نمبر سے رجسٹریشن آفس میں یا پتہ نہیں کس طرح واردات کی اطلاع حاصل کر تھانہ پیپلز کالونی کے ذریعہ آپ کو اطلاع کرائی۔

آپ قانونی کارروائی کر آ کے لے جائیں۔ یہ چابی لیں کہ سوچ میں ہی لگی تھی، کار چیک کر لیں۔ اس میں سے بیٹری غائب تھی۔ ہم باندھ کے لائے تھے۔ کار واقعی بیٹری کے بغیر مگر باقی ہر چیز موجود تھی۔ جب کاغذات والا خانہ کھولا تو اس میں نہ صرف رجسٹریشن اور باقی سب کاغذات موجود تھے جن پر میرا نام اور پتہ درج تھا بلکہ میرا حسب عادت ایک لکھ کر رکھا پرچہ بھی ویسے ہی پڑا تھا جس پر حادثہ یا ایمرجنسی میں اطلاع دینے کے لئے چند متعلقین کے فون نمبر بھی لکھے تھے۔

پولیس کی اس انتہائی جاں فشاں محنت کی داد دیتے ہم یہ تکلف کرنے سے بھی باز رہے کہ سپیڈ و میٹر میں دیکھیں کہ کار کتنا اس عرصہ میں چلی۔ اب اس سے سخت مرحلہ کار تھانے سے حاصل کرنے کے لئے مجسٹریٹ سے سپرد داری حاصل کرنا تھا۔ بتائے گئے وقت کے مطابق تھانہ پیپلز کالونی پہنچے تو کاؤنٹر پر پہنچنے سے پہلے دائیں طرف کمرے کے باہر میاں مقبول احمد کے نام کی تختی لگی تھی۔ دکھ ہوا کہ محرر وغیرہ کی ہتھیلی پہ مصافحہ کی سعادت سے محروم رہتے اپنے اس کالج کلاس فیلو کے پاس چائے پیتے ساری کارروائی جس میں کئی روز لگتے اسی وقت ہوتے اگلے روز بیٹری مکینک ساتھ لے جا کار گھر لے آئے۔

اب ہماری شامت اعمال کہ کوئی سات آٹھ ماہ بعد گھر کے گیٹ کی گھنٹی بجنے پر بیگم دروازہ پہ آئیں تو ڈی ایس پی نیازی صاحب نے اپنے اسی قابل افسر کی محنت سے ڈاکو ( گھر سے کھانا لانے والے پلانٹنڈ ملازم سمیت کل چھ عدد ) پکڑے جا چکے تھے اور اعتراف کر چکے۔ تھانہ آ کے پہچان کے کنفرم کریں۔

بیگم ٹیلیفون پر یہ سنا ہٹیں تو ساتھ بیٹھے ایک گاہک بولے مبارک۔ اصل ڈاکا اب شروع۔

اگلے روز خوف سے لرزتی کانپتی برقعہ میں لپٹی بیگم کو وقت مقررہ پر لے تفتیشی افسر کے ہمراہ تھانہ کی حوالات پہنچے تو تھرتھراتی آواز میں بیگم نشاندہی کرتے بتاتی گئیں کہ اس نے پستول رکھا اس نے چھرا رکھا اس نے مال اکٹھا کیا اس نے گاڑی چلائی۔ یہ ہمارا ملازم تھا۔ ایک کو نہ پہچانا ( وہ گیٹ کے باہر پہرہ پہ رہا تھا ) افسر نے دو تین بار اچھی طرح پہچان کرائی۔ ہر ایک کو قریب بلا چہرہ ہاتھوں کی نشانیاں ذہن نشین کرائیں کہ کوئی شناخت پریڈ ہونی ہے۔

( باقی تفصیل چھوڑتے ) چند دن بعد پھر ہم حوالات کے باہر کھڑے تھے اور تفتیشی افسر دوبارہ ہر ایک ڈاکو کو قریب بلا آگے پیچھے گھما چلا ہتھیلیاں آنکھیں جسم کے نشان ذہن نشین کرنے کی تلقین کرتے باہر آ ہمیں چند روز بعد ”جیل جانے“ کا طریقہ سمجھا شناخت پریڈ کا طریق بتا رہے تھے، ادھر بیگم جیل جانے کا سن بیہوش ہونے کو تھیں کہ بروقت پانی کا گلاس آ گیا۔

وقت مقررہ جیل پہنچ قانونی کارروائی کرتے ہمیں زرعی یونیورسٹی سے ملحق اونچی دیواروں میں گھری جیل کے میدانوں والے حصہ میں لے جایا گیا۔ کچھ دیر بعد ایک قطار میں چلتے ایک جیسے ڈھاٹے باندھے جو پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح گلے میں بھی لپٹے تھے کہ بس پیشانی سے نیچے ٹھوڑی تک اور کانوں تک ہی چہرہ ننگا تھا کوئی چالیس پچاس افراد اکثر جواں عمر لگتے ہمارے سامنے دور کھڑے کر دیے گئے۔ اور ہمیں ویسے ہی سب کے سب ایک جیسے نظر آرہے تھے جتنے کئی برس بعد کینیڈا آ بڑے چینی سٹور کے تیس چالیس ملازموں کو گھورتے ہمیں کسی میں فرق کرنا مشکل لگا تھا۔

یہ سوچ ہی رہا تھا کہ افسر بولے جی مجسٹریٹ صاحب تشریف لے آئے ہیں اب وہ آپ کی شناخت چیک کرتے کچھ سوال پوچھ دستخط لیں گے۔ پوچھا بیگم تو ٹھیک، یہ میں کیوں۔ فرمایا کہ آپ کا نام بھی ڈال دیا ہے۔ عرض کیا کہ بھائی میں تو دکان پہ بیٹھا تھا۔ فرمایا بس مجرم تو آپ نے دیکھے ہیں شناخت کریں بعد میں بتا دوں گا۔ وقت تھا نہیں چنانچہ توبہ استغفار کرتے فارغ ہوئے تو پہلے بیگم کو نیم دائرہ میں کھڑے چہرے چھپائے ویسے ہی خوفناک لگتے بندوں میں سے ایک ایک کے پاس جا خوب غور سے دیکھتے پہچانتے جو اصل بندہ لگے اسے دائرہ سے الگ لے جانے کا کہا گیا۔

اور شاید دو تین چکر لگا سکنے کی اجازت اور وقت کی حد بھی تھی۔ میں نے ادھر ادھر نظر پھیری کہ کوئی اسٹریچر پڑا ہو یا ایمبولینس ہو کہ بیگم کے بے ہوش ہونے پہ کام آئے۔ مگر کچھ نہ پا کچھ پانی بھیجنے کی درخواست منظور ہوئی۔ بارے چھ مشتبہ علیحدہ کھڑے کروا بیگم اڑتی رنگت لڑکھڑاتے آ گئیں۔ اب پھر بچپن کے کھیلوں یا تاش کے پتوں کی طرح اس دائرہ کو پھینٹا گیا اور میری باری آئی۔ اب میں کیسے پہچانتا کہ میں نے تو یہ جانتے کہ بیگم نے شناخت کرنے ہیں حوالات میں جا کر بھی کسی کو اس حوالے سے غور سے نہ دیکھا تھا۔ البتہ یہ یاد آیا کہ ڈنڈا بازی یا چھتر پریڈ سے ایک کی انگلی ٹوٹی اور ٹیڑھی ہو چکی تھی۔ چنانچہ تفتیشی کی ہدایت کے مطابق ہتھیلیاں چیک کرتے اس کو اور اٹکل پچو باقی کو باہر نکال گھر کو آچکے تھے۔ بیگم نے چھ میں سے پانچ کو درست چنا تھا اور میں نے پانچ غلط چنے تھے۔

اس کے بعد اصل ڈاکے کی لمبی داستان ہے۔ مختصر یہ کہ تفتیشی نے سترہ ہزار روپے فروخت شدہ زیور میں سے بمشکل حاصل شدہ پیش کیے جو شکریہ کے طور انہی کو بطور نذرانہ پیش کر دیے گئے کوئی اڑھائی تین سال کی خاموشی کے بعد ایک دن مقدمہ شروع ہونے کی منحوس خبر آئی۔ پہلے دن تفتیشی اپنے کاغذات جمع کرانے آیا تو تفتیشی رپورٹ پر نظر پھیرتے انکشاف ہوا کہ ان معزز اقلیتی ایم پی اے یا ان کے ڈیرے کا ذکر ہی نہ تھا جن کے پالتو، ڈاکوؤں نے ڈاکے کے بعد تین روز وہاں قیام کیا اور حصہ دیا تھا۔

اگلے ڈھائی تین سال ہر دو ہفتہ بعد بیگم کو ہمراہ لے صبح کے وقت ہم عدالت متعلقہ کے باہر چٹائی ساتھ لے جا بیٹھ جاتے تھوڑی دور تمام ڈاکو جو ضمانت پر رہا ہو چکے تھے بیٹھے گپیں مار رہے ہوتے۔ عدالتی ریڈر ہمیں از رہ شفقت بھلا کرتے کہہ چکا تھا کہ سرکاری وکیل سے میل ملاپ کر لیں اگر مجرموں کو سزا کروانی ہے۔ یا اپنا وکیل کر لیں۔ مقدمہ کی پولیس رپورٹ پڑھ یہ یقین تھا کہ مڈل کلاس پڑھا بندہ بھی اسے غور سے پڑھے تو ملزم چھوٹ جائیں۔

مجسٹریٹ صاحب اوسطا دس بارہ میں ایک دفعہ کرسی پہ بیٹھے نظر آئے علی الصبح آئے ہم دو ڈھائی بجے آواز پڑنے پر آئندہ تاریخ پر آنے کی سزا کا سن چلے جاتے۔ مجسٹریٹ صاحب کبھی ہوتے تو بھی اتنی ہی کارروائی ہوتی۔ گھر بچوں کی مشکل اور کاروبار ملازموں کے حوالے۔ اس دوران ڈاکوؤں کا سربراہ کوئی اور واردات کرتے پولیس مقابلے میں پار ہو چکا تھا۔ دو لڑکے انتہائی شریف گھرانوں کے بہکے ہوئے پہلی واردات والے تھے تین چار بار عدالت کے سربراہ تبدیل ہو چکے تھے۔

مال مقدمہ ساتھ لے جانا لازم تھا۔ کوئی تین سال بعد مدعی کے بیان کی باری آئی۔ تو مجسٹریٹ کے سامنے ہاتھ باندھ کھڑا ہو گیا کہ محترم مجھے بھی یقین ہے بیگم کو بھی پہچان ہے اور ملزم اور ان کے وارث معافی مانگتے بھی بھی اعتراف جرم کر چکے ہیں۔ مگر تاریخیں بھگتتے کچہری آتے میرا کاروباری نقصان ڈاکے کے نقصان سے کئی گنا زیادہ چکا اور کچہری کے خوف سے بیگم بیمار۔ دکان بھی لا وارث اور گھر بھی خطرے میں۔ ہم نے مجرموں کو دل سے معاف کیا۔ بس اتنی درخواست ہے کہ ان کو بری فرما دیں جس سے ہم اس مقدمہ پیروی کی اذیت سے نجات پائیں۔ سرکاری وکیل کوئی جرح کرنے لگا تو اس سے بھی درخواست کی کہ بھائی جب معاف کر دیا تو آپ ہمیں معاف کریں۔

دو اور تاریخیں پڑیں مجرم بری ہو معافی مانگتے شکریہ ادا کرتے اپنے گھر گئے اور ہم اصل ڈاکا بھگت اپنے گھر۔

بائیس چوبیس سال گزر چکے، ملک کو الوداع کہہ چکے، بیگم کبھی یاد کریں تو ڈاکا کی واردات کے بیان کرتے ان کے چہرے پہ اتنا خوف نظر نہیں آتا جتنا اس شناخت پریڈ کے لئے تھانہ حوالات اور جیل یاترا اور ڈاکوؤں کے سامنے عدالت کے باہر چٹائی ڈال کے گزارے سو ڈیڑھ سو دنوں کا۔

آج کل عائشہ اکرم کے چار سو کے لگ بھگ مبینہ ملزموں کی شناخت پریڈ کا سوچتے ہاسا نکلتا ہے کہ جانے کس کس حوالات میں میں کتنی کتنی بار جا کر مجرم دیکھ دیکھ شناختی نشانیاں یاد کی ہوں گی کتنی یاد رہی ہوں گی کتنوں کی شناخت میں کامیاب ہوئی ہوں گی۔ کتنوں کا بھلا اور کتنوں کا نقصان ہوا ہوگا۔

چلئے پاکستان کے انصاف کے نظام کی سر سے پیر تک مکمل قانونی کارکردگی کی تعریف میں تالی تو بجا دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments