کیا سیاست میراث ہے؟


مارچ 1991 کی ایک رات، پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے مجھے اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ سے تب اغوا کر لیا تھا جب میں ضمیر نامی افغان سفارتکار کی کار سے اترا تھا۔ مقصد چونکہ کہانی بیان کرنا نہیں ہے، اس لیے اصل بات کی جانب آنے کے لیے اتنا کہنا کافی ہوگا کہ کہیں بہت رات گئے ایک کرنل صاحب (جن کا عہدہ بعد میں معلوم ہوا تھا، ظاہر ہے وہ اسی ایجنسی سے تھے جس سے اب ہر شخص آگاہ ہے ) نے آ کر بحث کے انداز میں مجھ سے ”تفتیش“ کرنا شروع کی تھی۔

ان کے تین حکم نما بیانات میں سے ایک یہ تھا کہ بڑے لوگوں کا کھیل سیاست، ہم آپ جیسے لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ تب میرا جواب یہی تھا کہ میں تو سیاست میں شریک رہوں گا، آپ اگر نہیں چاہتے تو نہ کریں۔ آخر میں کرنل موصوف نے یہ کہہ کر کہ ”آپ جیتے میں ہارا، یہ بتائیں ناشتے میں کیا لیں گے؟“ اپنی گلو خلاصی کرا لی تھی یا میری جان چھوڑ دی تھی۔ بعد کے مراحل قطعی خوشگوار نہیں تھے۔ ان کے اس بیان سے ایک تو یہ مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں یہ سوچ ذہنوں میں ٹھونس دی گئی ہے کہ سیاست کو امراء کے لیے مختص رہنے دیں، دوسرا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی نظام ہے ہی ایسا جس میں عام آدمی کو صرف ووٹ ڈال دینے کا حق حاصل ہے یا سیاسی کارکن ہونے کا لیکن رہنما بننا ان کے مقدر میں نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ہی باتیں درست ہیں لیکن تب میں چونکہ انقلابی تھا اس لیے ان کو جیسا تب چاہا جواب دے دیا تھا۔ ظاہر ہے انہوں نے مجھے یا تو بیوقوف جانا ہوگا یا جنونی۔

سیاست کا تعلق کسی ملک میں رائج نظام معیشت سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں اگرچہ نظام معیشت سرمایہ داری ہے، ویسے بھی ماسوائے معدودے چند سوشلسٹ نظام معیشت کے حامل ملکوں کے ساری دنیا میں ہی نظام سرمایہ داری رائج ہے، تاہم پاکستان میں سیاسی نظام اس نوعیت کا سرمایہ دارانہ جمہوری نظام نہیں ہے جیسے کہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں میں ہوا کرتا ہے۔ ایسا نہ ہونے کی اپنے طور پر ایک وجہ تو بذات خود یہاں نظام سرمایہ داری کا پسماندہ ہونا ہے، دوسری وجہ ملک میں بڑی بڑی زمینداریوں کا تا حال موجود اور معتبر ہونا اور تیسری وجہ نو آباد کارانہ زیریں اداروں اور اہلکاروں مثلاً تھانہ اور تھانیدار، تحصیل اور پٹواری کے وجود میں کسی مثبت تبدیلی کا یکسر مفقود ہونا ہے۔

دیہاتوں کی تو بات ہی چھوڑیں صنعتی قصبوں میں بھی پاکستان کی نام نہاد روشن خیال پارٹی کے رہنما تک تھانیدار اور پٹواری کی اسی طرح آؤ بھگت کرتے رہے ہیں جس طرح دیہات کا کوئی چھوٹا چوہدری یا نمبردار کرتا ہے۔ وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ یہ رہنما اگرچہ صنعت کار بن کر نظام سرمایہ داری کا حصہ بن چکے ہیں لیکن ان کی مربعوں پہ مشتمل زمینیں ہیں جن میں مزارعین بھی رکھے ہوئے ہیں۔ ایک جانب تو ایسے بڑے لوگوں کے مفادات بینک، سوئی گیس، بجلی اور اسی طرح کے محکموں اور ان کے اہلکاروں کے ساتھ وابستہ ہیں دوسری طرف تھانیدار اور پٹواری سے بھی ذاتی اور سیاسی مفادات کا رشتہ ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام تب مستحکم ہوا کرتا ہے جب زراعت بھی صنعت بن جائے، پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں تو چھوٹے موٹے کارخانوں میں بھی یا تو یونین سازی کا حق نہیں ہوتا اور اگر ایسا کرنے کی اجازت ہو بھی تو عموماً مالکوں کی ”پاکٹ یونین“ ہی بنتی ہے۔ ماسوائے دو ایک بڑے بڑے شہروں کے جہاں یونینیں ہوتی ہیں اور یونینیں کسی حد تک اپنے اراکین کے حقوق کا تحفظ کرنے کی سعی بھی کرتی ہیں، باقی تمام علاقوں میں موجود انڈسٹری کے مالک یا تو زمیندار ہیں یا کم از کم ان کی سوچ زمیندارانہ ہے، جس کے تحت دھونس اور زیادتی ان کی جانب سے استحصال کا ایک اضافی انگ ہوتی ہے۔

لوگوں کی اکثریت کے عمومی زندگی کے مسائل اور چھوٹے چھوٹے مفادات و منافع جات انہیں باثروت لوگوں سے بندھے ہوتے ہیں، کیونکہ بہت سی جگہوں پر عام لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی۔ اگر کسی طرح رسائی ہو بھی جائے تو شنوائی نہیں ہوتی۔ یہی باثروت اور با اثر لوگ عام لوگوں کی شنوائی کروا دیتے ہیں اور ان لوگوں سے اہلکاروں کی جیبیں گرم کروانے کا موجب بھی بنتے ہیں۔

ہمارے جیسے نیم جمہوری اور نیم سرمایہ دارانہ ملکوں میں نظام کی خامیاں، بد عنوانی، رشوت ستانی اور سیاست کا مخصوص طبقے کے افراد کی باندی ہونا باہم دیگر پیوست ہیں، ان کو ایک دوسرے سے نہ تو جدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک کو باقی نقائص سے علیحدہ کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسے ملکوں میں سیاست خدمت نہیں رہی بلکہ ایک قسم کا پیشہ بن کر رہ گئی ہے۔ پیشہ بھی ایسا کہ جس کے لیے اسی طرح رقم خرچ کرنی پڑتی ہے جس طرح تھانیدار یا نائب تحصیلدار بننے کے لیے بھاری رشوت دینی پڑتی ہے۔

رشوت دے کر تھانیدار یا تحصیلدار بننے والا بد عنوانی شروع سے ہی اس لیے کرے گا کہ اسے رشوت کے طور پر دی جانے والی رقم پوری کرنی ہوتی ہے، پھر بدعنوانی کرنا یا اس کی عادت بن جائے گی یا ضرورت کیونکہ رشوت یا بدعنوانی کا بازار اوپر سے لے کر نیچے تک گرم ہے۔ اس کے برعکس سیاست کے لیے اخراجات کرنے والا تو سیاست کو کاروبار سمجھ کر کرتا ہے۔ پھر جو سرمایہ کاری کرتا ہے اس کا کئی گنا منافع بھی وصول کرنا چاہتا ہے اور اسے وصول کرنے کے مواقع بھی میسر آ جاتے ہیں۔

جو سیاست سے نہ صرف بہت زیادہ کما سکتا ہو بلکہ کہیں با اثر اور باوقار بھی ہو جاتا ہو، وہ ایسے پیشے کو بھلا میراث کے طور پر اپنے بچوں کو منتقل کیوں نہیں کرے گا؟ جب اپنے بیٹوں، بیٹیوں، دامادوں، بھائیوں، بہنوں، بھتیجوں بھانجیوں اور قریب ترین حواریوں میں ہی عہدے بانٹے جانے مقصود ہوں، پھر تو 1991 میں مجھ سے کہی کرنل کی بات بالکل سچ ہو جاتی ہے کیونکہ کسی اور کے لیے جگہ بچتی ہی نہیں۔ اس ضمن میں کچھ لوگوں کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اگر ڈاکٹر اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بناتا ہے تو سیاستدان اپنے بیٹے کو سیاستدان کیوں نہ بنائے؟

ڈاکٹر اپنے نا اہل بچے کو ڈاکٹر نہیں بنا سکتا کیونکہ داخلہ تو میرٹ پہ ہی ہوگا، اگر بفرض محال کسی تگڑم سے ایسا شخص ڈاکٹر بن بھی گیا تو اس کی قلعی عمل میں کھل جائے گی، ایسا عموماً ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک کے جیالے اور متوالے تو اپنے سیاسی رہنماؤں کو پیروں کی طرح پوجتے ہیں اور ان کی اولادوں کو گدی نشین سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں تو ویسے بھی اسمبلی میں دس سے بیس فیصد اصل گدی نشین ہی ہوتے ہیں باقیوں کو بغیر گدیوں کے گدی والا مان لینے میں بھلا حرج ہی کیا ہے؟

قصہ مختصر جب تک ملک میں بڑی زمینداریاں باقی ہیں اور نظام سرمایہ داری نیم ترقی یافتہ ہے تب تک عام آدمیوں کی سیاست تک دسترس یا تو درمیانے اور نچلے حلقوں تک رہے گی اور یا وہ جو اپنے لیڈروں کے ”بھونپو“ بن جائیں وہ آگے جائیں گے۔ جو آگے جانے کے چند سال بعد خود بھی سرمایہ دار اور زمیندار بن جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہرگز بھی یہ نہیں ہے کہ عام لوگوں کو سیاست سے منہ موڑ لینا چاہیے بلکہ انہیں ایسے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی سیاست کرنی چاہیے جو انتخابات کے موقع پر اپنے جمہوری مطالبات منوائیں مثلاً پارٹیوں میں الیکشن کروائے جائیں، درمیانے طبقے کے افراد کے لیے اسمبلی کی سیٹوں کے لیے ٹکٹ مختص کیے جائیں، انتخابات کے دوران ہونے والے اخراجات کے لیے انتخابی امیدواروں کو رقم حکومت کی جانب سے ملنی چاہیے جس طرح دوسرے ملکوں میں ملتی ہے اور اگر اس رقم سے زائد اخراجات ثابت ہو جائیں تو وہ شخص ایک خاص عرصے کے لیے ٹکٹ کے لیے نا اہل قرار دے دیا جائے۔ لوگوں کو پارٹیوں کے اندر یا پارٹیوں سے باہر اپنے ”پریشر گروپس“ بنانے کی سیاست اپنانی چاہیے تاکہ وہ امراء کو اگر سیاست کو اپنی میراث بنانے سے روک نہیں سکتے تو کم از کم انہیں یہ سوچنے پہ تو مجبور کر دیں کہ معاملات کو بدلنے میں ہی عافیت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments