قائد کا پاکستان یا نیا پاکستان


سرسید احمد خان نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کی جس تحریک کا آغاز جنگ آزادی کے بعد کیا تھا اس کو قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 14 اگست 1947 ء میں مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔

پاکستان کیا ہے؟ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے جس کی تعبیر بتاتے ہوئے قائداعظم نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا تھا کہ:

”ہمارا پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکرا حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں پر اسلام کے سنہری اصولوں کو آزمایا جاسکے۔“

مگر جب ہم آج کا پاکستان دیکھتے ہیں تو ہمیں ”قائداعظم کا پاکستان“ کہیں نظر نہیں آتا۔ جس مملکت اسلامیہ جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا وہ آج تک شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ جس کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں، کئی عورتوں کی گودیں اجڑیں اور اپنی عصمتوں سے محروم ہوئیں۔ اس پاکستان میں آج ہر طرف بدعنوانی، لاقانونیت، اقرباء پروری، ظلم و زیادتی کا دور دورہ ہے۔ جہاں ہر کوئی اپنے مفاد کی سیاست میں مصروف ہے۔ انہیں اس پاکستان سے کوئی غرض نہیں جس کے لئے مسلمانان ہند نے ناقابل فراموش قربانیاں پیش کیں۔

”تصور پاکستان“ کا مقصد ایک ہندوستان دشمن ریاست کا قیام نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جہاں برصغیر کے مسلمان سیاسی اور اقتصادی آزادی کا مزہ لے سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دین پر بلا خوف و خطر عمل کرسکیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے وہ پاکستان حاصل کر لیا ہے جس کی جانب قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں نے 23 مارچ 1940 ء میں سفر شروع کیا تھا؟ انگریز سامراج اور ہندو بنیے نے ہر قیمت پر پاکستان کا قیام روکنے کی کوشش کی اور اس دوران قائداعظم اور ان کے رفقاء نے نفرت اور دھوکہ پر مبنی ہر مہم کا عقلیت اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ٹھوس، منطقی دلائل اور عزم و ہمت سے مقابلہ کیا۔

افسوس کی بات ہے یہ کہ پاکستان کے قیام کے بعد جب قائداعظم اپنے قائم کردہ ملک میں بمشکل ایک سال گزارنے کے بعد 11 ستمبر 1948 ء کو راہی ملک عدم ہوئے، تو کس طرح ہم راستے سے ہٹ گئے اور بانیٔ پاکستان کے تصورات مسخ ہو گئے۔

ہم انگریز سامراج سے تو آزادی حاصل کرلی، مگر ذہنی غلامی سے 74 سال بعد بھی آزاد نہیں ہو سکے۔ جہاں تک مذہبی عقائد اور عبادت کی آزادی کی بات ہے، تو یہ بات سب کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں مسلمان اب بھی پولیس اور رینجرز کی مسلح حفاظت کے زیرسایہ نمازیں ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

قائداعظم کے نظریات، تصورات، خواہشات، اصول اور پاکستان کے لیے ان کا وژن ان کی تقاریر اور بیانات میں جابجا ملتا ہے۔ مگر ہر آنے والی حکومت نے انہیں اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر نصاب کا حصہ بنانے سے گریز کیا ہے۔ اس کی وجوہات نامعلوم ہیں، مگر ادھورے وعدے بڑی تعداد میں ہیں۔

قائداعظم کا مہاتما گاندھی کو ایک موقع پر جواب بالکل مناسب اور زبردست تھا، مگر اس کا مقصد نفرتیں بڑھانا نہیں تھا۔ قائداعظم نے کہا: ”ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے نزدیک قومیت کا جو بھی معیار ہو، مسلمان اور ہندو اس معیار کے اعتبار سے دو مختلف اقوام ہیں۔ ہم 10 کروڑ لوگوں کی قوم ہیں، اس سے بھی زیادہ یہ کہ ہماری ایک مختلف ثقافت، تہذیب، زبان، ادب، ثقافت، طرز تعمیر، نام، اقدار، قوانین، اخلاقی ضوابط، رواج، کیلنڈر، تاریخ، روایات، رویے اور عزائم ہیں۔ مختصراً یہ کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں مختلف ہیں۔ ہر عالمی قانون کے مطابق ہم ایک الگ قوم ہیں۔“

جناح نے کبھی بھی مسلمانان ہند اور ہندوؤں کے ساتھ امن اور باہمی احترام کے ساتھ رہنے کی امید اور خواہش نہیں چھوڑی اور ہندو مسلم اتحاد کی خواہش پر عمل پیرا رہے، جس کا سفیر انہیں قرار دیا گیا تھا مگر بدقسمتی سے ہندو بنیے کی سازش قائداعظم پر بہت جلد عیاں ہو گئی اور انہوں نے اپنی پوری توجہ مسلمانان ہند کے لئے ایک الگ وطن کے لئے مرکوز کردیں۔

قائداعظم نے اپنی پوری زندگی سیاست کو وقف کرنے کے باوجود اپنے دامن پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیا۔ وہ سیاست میں اخلاقیات اور احتساب پر یقین رکھتے تھے۔ وہ ہر قسم کی کرپشن کے خلاف تھے اور تمام لوگوں کے معاشی اور معاشرتی بہتری چاہتے تھے اور زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کو مکمل نمائندگی دینے کے حق میں تھے۔

یہی وہ اصول تھے جو جناح اپنے پاکستان میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اگر موجودہ حکمران اور سیاستدان ”روشن پاکستان“ اور ”نیا پاکستان“ بنانا چاہتے ہیں، پاکستان کو ایک جمہوری، اسلام کے بنیادی اصولوں اور مساوات پر مبنی ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ وہ صرف نعروں پر انحصار کرنے کے بجائے وہ اصول اپنے ”نئے پاکستان“ اور ”روشن پاکستان“ میں متعارف کروائیں جو قائداعظم اپنے ”پاکستان“ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ بصورت دیگر کھوکھلے نعروں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

قائداعظم کی فکر و سیاست اسلامی اصولوں کے تابع تھی اور انہوں نے جس پاکستان کی تشکیل کی تھی وہاں غیر مسلموں کے حقوق کو بھی خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ آج قائد کا پاکستان عوام کے حقوق کے تناظر میں جو تصویر پیش کر رہا ہے وہ اقبالؒ کے خواب اور جناحؒ کی امیدوں سے متصادم ہے۔ آج طلبہ اور نوجوانوں کو پھر تشکیل پاکستان کے لئے اسی عزم کے ساتھ کام کرنا ہو گا جس عزم کے ساتھ تحریک پاکستان میں ادا کیا تھا۔ ”قائداعظم کے پاکستان“ کی تلاش کے لئے ایک بار پھر اسی عزم و ہمت اور ولولے کی ضرورت ہے۔

پاکستان ملت اسلامیہ کا بنیادی مطالبہ تھا۔ آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ آپس میں تفریق کے سوالات ختم کیے جائیں اور ملکی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اتحاد و یگانگت کو فروغ دیا جائے۔

افسوس کی بات ہے کہ جس پاکستان کا تصور قائداعظم نے اپنے اصولوں اور اپنے وژن کے تحت دیا تھا، وہ پاکستان حاصل نہیں کیا جا سکا، جیسا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لندن میں اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ”قائداعظم کے پاکستان کا قیام معاشرے میں سے تعصب، عدم برداشت اور انتہاپسندی کا خاتمہ کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔“ جب وہ کہتے ہیں کہ آج کا پاکستان ”جناح کا پاکستان“ نہیں ہے تو ان سے اتفاق کیے بغیر رہنا ممکن بھی نہیں ہے۔

ہمارے نام نہاد سیاستدان اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے، خطاب کرتے ہوئے، یا بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہوئے قائداعظم کی تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر تصویریں کھنچواتے ہوئے مطمئن تو نظر آتے ہیں۔ مگر ان کے افکار اور تعلیمات پر عمل سے گریزاں ہے۔ قائداعظم تو قومی خزانے سے ایک روپیہ لینا حرام سمجھتے تھے اور آج کے حکمران قومی خزانے کو ذاتی جائیداد سمجھتے ہیں۔

قائد اعظم نے گورنر جنرل کی حیثیت سے پاکستان کی پہلی وفاقی کابینہ تشکیل دی جو صرف 10 شخصیات پر مشتمل تھی حالانکہ مشرقی پاکستان بھی اس وقت پاکستان کا حصہ تھا۔ اس کابینہ میں نوابزادہ خان لیاقت علی خان، آئی آئی چندریگر، غلام محمد، سردار عبدالرب نشتر، غضنفر علی خان، جوگندر ناتھ منڈل، سر ظفر اللہ خان، فضل الرحمان، خواجہ شہاب الدین اور پیرزادہ عبدالستار جیسے نیک نام اور اہل لیڈر شامل تھے۔ قائداعظم نے یہ کابینہ میرٹ اور صرف میرٹ پر تشکیل دی۔

کوئی دباؤ قبول نہ کیا ملکی خزانے پر بوجھ نہ ڈالا۔ کوئی اقربا پروری نہ کی۔ حالانکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا پورا استحقاق تھا کہ ان کو کابینہ میں شامل کیا جاتا۔ کیوں کہ خواتین کو متحرک کرنے میں جن خواتین نے اپنا کردار ادا کیا ان مادر ملت کا کردار سب سے زیادہ واضح اور روشن تھا۔ مگر اقرباء پروری کا تاثر نہ جائے اس لئے محترمہ فاطمہ جناح کو کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا۔

آج پاکستان بدقسمتی سے آدھا ہے مگر اس کی کابینہ کے ارکان ستر کے لگ بھگ ہیں جن کی نیک نامی اور اہلیت کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ یہ کابینہ اس لیڈر نے تشکیل دی ہے جس نے قوم سے پختہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی کابینہ میں بیس پچیس سے زیادہ افراد شامل نہیں کرے گا۔ کابینہ بناتے وقت میرٹ کو نظر انداز کیا گیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ پاکستان ایک غریب اور مقروض ملک ہے جو بڑی کابینہ کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا ۔ قومی خزانے پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ جس کے سبب مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ جس کا سب سے زیادہ متاثر وہی غریب عوام ہے جس کی خوشحالی کے دعوے کیے جاتے ہیں۔

قائداعظم نے اپنی حکومت کے ایک سال کے دوران مثالی گورننس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ افسر شاہی کو باور کرایا کہ وہ عوام کے حاکم نہیں بلکہ خادم ہیں، وہ سیاست سے الگ تھلگ رہیں۔ عوام کے مسائل کو برداشت کے ساتھ سنیں۔ اقربا پروری سے اور رشوت ستانی سے گریز کریں، کسی کے دباؤ میں نہ آئیں۔ اپنے فرائض انتہائی احساس وفاداری، دیانت داری، راست بازی، لگن اور وفا شعاری کے ساتھ انجام دیں تاکہ اپنے اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں۔ آج کی بیوروکریسی قائد اعظم کے فرمان سے کھلا انحراف کر رہی ہے۔ مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔

قائد اعظم نے آئین اور قانون کی حکمرانی کی شاندار مثال پیش کی۔ انہوں نے ریلوے کی ٹرین کے گزرنے کا انتظار کیا اور ریلوے کا پھاٹک کھلوا کر آگے جانے سے انکار کر دیا۔ قائداعظم نے سیاست کو سرمائے سے الگ رکھا سیاست کو خدمت عبادت سمجھا۔ افسوس آج سیاست سرمایہ کاری اور تجارت بن چکی ہے۔ انہوں نے قومی خزانے کو عوام کی امانت سمجھ کر خرچ کیا رات کو سونے سے پہلے گورنر جنرل ہاؤس کی فالتو بتیاں بجھا دیتے۔ موجودہ پاکستان میں مقتدر حکمران اشرافیہ نے لوٹ مار کر کے بیرون ملک اپنی جائیدادیں بنا رکھی ہیں جبکہ قائد اعظم نے اپنی محنت کی کمائی کے ساتھ بنائی جائیدادیں اور اثاثے فلاحی اور تعلیمی اداروں کو وقف کر دیے۔

آج کے پاکستان کو انگریزوں کے نظام کے مطابق چلایا جا رہا ہے جو قائد اعظم کے تصورات کی مکمل نفی ہے۔ ان حالات میں خاموشی و بے حسی جرم ہے۔ پاکستان کے عوام کا قومی فرض ہے کہ وہ آزادی کی تکمیل کے لئے، قائد اعظم کے پاکستان کی تشکیل کے لئے دوبارہ جدوجہد کریں۔ آنکھیں کھول کر بیدار اور باشعور ہوجائیں۔

ہمیں نیا پاکستان اور روشن پاکستان نہیں صرف اور صرف قائد اعظم کا پاکستان چاہیے۔ وہ پاکستان جس کے لئے نعرہ لگایا گیا:

پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الٰہ الا اللہ
پاکستان کا قانون کیا۔ محمد الرسول اللہ

ہمیں وہ پاکستان چاہیے جہاں پر اقربا پروری، رشوت خوری، بدعنوانی، ذخیرہ اندوزی اور لاقانونیت کا نام و نشان نہ ہو۔ ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔ امراء اور غرباء کے فرق کو مٹایا جائے۔ امیر اور غریب کے لئے ایک ہی قانون ہو، تعلیم یکساں ہو۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

کے مصداق کوئی وی آئی پی پروٹوکول، جلسے جلوسوں کی وجہ سے پریشانی کا شکار نہ ہو۔ سب کو اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے ہر کام کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ہو۔ عدالتی نظام آسان اور تیز تر ہو، تاکہ کسی کیس کا فیصلہ اس کے مرنے کے بعد نہ ہو۔

قائداعظم کے افکار پر عمل کرتے ہوئے ہی ہم ایک اسلامی فلاحی ریاست کی طرف گامزن ہوسکتے ہیں۔ ورنہ ”نیا پاکستان“ بنا لیں یا ”روشن پاکستان“ کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جب تک ہم اپنے قائد اور تحریک پاکستان کی وجوہات کو نہیں جانیں گے، اس پر عمل نہیں کریں گے ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments