چائے کے چرچے


چائے ایک ایسی مشروب ہے، جسے اگر مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے پیش نہ کیا جائے تو وہ کم و بیشتر ناراض ہی ہو جاتے ہیں۔ دکھ کی گھڑی ہو یا چار سو خوشی کا سماں ہو، ہم پاکستانی جن کو چائے کا موالی بھی کہا جاتا ہے، وہ ہر آتے جاتے، دوست و دشمن کو چائے پیش کرتے ہوئے نہیں کتراتے۔ چائے پینے کی نہ کوئی موسم ہے نہ موڈ، بس جو بھی وقت ہو، حالات ہوں، یہی سننے کو ملے گا، ایک کپ چائے تو پلا دینا۔ چائے کے ویسے تو بہت قصے کہانیاں، اشعار و مضمون ہم سب نے سنے ہیں، پر ہمارے چائے نے حال ہی میں تب عالمی شہرت پائی، جب سال 2019 ع کو بھارتی پائلٹ ابھینندن کو اسے کے جہاز سمیت پاکستان کی حدود میں گرایا گیا، اور صحیح سلامت گرفتار کر لیا گیا۔

دوران گرفتاری جب اسے پاکستانی چائے پیش کی گئی تو، اس نے سراہتے ہوئے کہا، چائے فینٹیسٹک تھی، مطلب اسے زبردست پاکستانی چائے پیش کی گئی تھی۔ اس فینٹیسٹک چائے پہ، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پہ بہت بحث مباحثے ہوئے، قہقہے لگے، ٹاپ ٹرینڈ چلے، اور چائے پینے والا بھارتی پائلٹ، عالمی امن قانون کے تحت واپس اپنے ملک بھارت کو کوچ کر گیا۔ وہاں جا کر اسے نے منہ سے کیا کیا اگلا، یہ تو وہ جانے یا اس کے ہمسائے جانیں، پر چائے کے چرچے پھر سے کچھ سالوں بعد ہر طرف پھیل گئے ہیں۔ چائے کی کاشت کو چائنہ سے برطانیہ تک پہنچانے والے گوروں نے بھلا یہ کب سوچا ہوگا کہ، یہ چائے اب چائنہ کے پڑوسی ملک میں ہر صبح سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہر گھر میں بنے گی۔

ان دنوں بھی چائے کا کپ ہمارے میڈیا کی زینت بن چکا ہے۔ اس دفعہ چائے کا کپ پکڑنے والا کوئی دشمن نہیں بلکہ بہت ہی اپنا ہے۔ پر فرق یہ ضرور ہے کہ وہ چائے یا قہوہ جو بھی کپ کے اندر ہے، وہ غیر ملکی ہے۔ اس میں چینی، چائے کی پتی، دودھ اور دیگر شامل اجزاء دیسی ہرگز نہیں ہے۔

افغانستان کی دارالحکومت کابل، جو کہ فی الوقت طالبانوں کے قبضے میں ہے، وہاں اتوار کے روز پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید تشریف لے گئے تو ان کو چائے پیش کی گئی، اور تصاویر خاصی وائرل ہوئی۔ فل سوٹ میں ملبوس ڈی جی جنرل فیض نے طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی بردار، افغانستان کے سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار، اور دوسری طالبان قیادت سے سرینا ہوٹل میں ملاقات کی۔ یاد رہے کہ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا بریفنگ میں دو ٹوک الفاظ میں یہ کہا کہ، کابل آنے کی درخواست پاکستان نے کی تھی۔

جنرل فیض طالبانوں کے افغانستان میں قبضے کے بعد پہلے غیرملکی ملٹری انٹیلی جنس چیف ہیں، جو کابل تشریف لے گئے، اور ایک روزہ دورے میں اپنی خواہشات کا اظہار کر بھی آئے، اور ان کی خواہشات کی قدر کرنے کی یقین دہانی بھی کر آئے۔ دکھنے میں ہینڈسم اور خوشگوار موڈ میں نظر آنے والے ڈی جی فیض کے اعلیٰ سطحی وفد میں کون کون شامل تھے، اور کیا بات چیت ہوئی، اس کی کوئی بھی میڈیا بریفنگ نہیں دی گئی۔ پر ہاں! جب وہاں کابل میں ایک صحافی نے سوال کیا کہ، اب افغانستان میں کیا ہوگا؟ تو جواب دیا : ”فکر نہ کریں، افغانستان میں سب اچھا ہوگا۔“

کسی پڑوسی ملک میں جا کر، وہاں کی وفاقی دارالحکومت میں بیٹھ کر، چائے کی چسکیاں لینا کوئی بری بات نہیں، پر ملکی عوام اعتراض تو اٹھائیں گے جب ملک میں ترسے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے بجائے یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ ہم مزید پناہ گیروں کا بوجھ اٹھانے پر بھی تیار ہیں۔ ہو نہ ہو، ان پناہ گیروں کی وجہ سے مقامی افراد کے معاشی حالات خراب ہوتے ہیں، اور ان پر برا اثر ضرور پڑتا ہے۔ بھلے ہی ملکی سیاسی و عسکری قیادت کو اس سے فرق نہ پڑتا ہو، پر ہم عوام ہی تو اصل بوجھ برداشت کرتے ہیں۔

ہم عوام تب بھی راضی نہیں تھے، جب افغان جنگ میں پاکستان امریکہ کا فریق بنا تھا، اور نیٹو ٹینکرز کو پاکستانی راستے استعمال کرنے دیے گئے، پاکستانی حدود میں ڈرون حملوں کی رسائی دی گئی۔ اور ہم عوام اب بھی راضی نہیں ہیں جب ہماری حکومت اور دیگر مقتدر قوتیں طالبانوں کی حمایت میں، وہ دردناک ماضی بھی بھول بیٹھے ہیں، جس کو یاد کرنا کسی عذاب سے کم نہیں۔ چائے تو ہم پاکستانی سب بڑے شوق سے پیتے ہیں، اور پتی ڈال ڈال کر چائے کو اتنا کڑک بناتے ہیں کہ سردرد ایک چٹکی میں دفع ہو جائے، پر ہم چائے کے بہانے اتنے بڑے بڑے فیصلے نہیں کر آتے، جس سے عام لوگوں کی زندگی پہ منفی اثر پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments