مسلم لیگ (ن) اور سسی کا لٹتا بھنبھور


پاکستان کی سیاسی رنگا رنگی میں کچھ بھی پردہ غیب سے نمودار ہو سکتا ہے اس لیے کوئی بھی تجزیہ معمولی سی یقینی کیفیت نہیں رکھتا لیکن پھر بھی اندازہ تو لگایا جا ہی سکتا ہے۔ ہمارے پڑوس میں اس صدی کی سب سے بڑی سیاسی تبدیلی وقوع پذیر ہے۔ افغانی بندوبست کو آخری لمحے تک مکمل تعاون کا یقین دلاتے امریکی اشرف غنی کو یوں غچہ دے کر اڑن چھو ہوئے کہ ساتھ لے جانے کو سامان پیک کرنے کی مہلت بھی نہ ملی۔ لیکن بعد کے معاملات ذرا تھم سے گئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کو کسی بات کی جلدی نہیں ہے۔

لیکن میرا موضوع طالبان ہیں نہ افغانستان میرا موضوع ہے میرا اپنا وطن جس پر ہمیشہ کی طرح آسیب کا اندھیرا سایہ فگن ہے۔ ستم بالائے ستم یہ اس سارے حبس زدہ ماحول میں ہمیں جس اپوزیشن کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر بساط بھر مزاحمت کرنا ہے میری مراد نون لیگ سے ہے اس کی غیر سنجیدگی ایک سنجیدہ لطیفہ بنتی نظر آ رہی ہے۔ تسلسل سے عاری یکسوئی سے بے نیاز اور سراپا کنفیوژن سیاست کی معراج حالیہ افغانستان کے واقعات میں نظر آتی ہے۔

پالیسی بیان تو ایک طرف ڈھنگ کی ٹویٹ تک نظر نہ آ سکی۔ صورتحال یہاں تک گنجلک ہو چکی ہے کہ پارٹی افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام پر بیک وقت رقص کناں اور ماتم کناں ہے۔ جناب میاں نواز شریف کے داماد اور اسحق ڈار کے سیاسی وارث سمجھے جا رہے علی ڈار اپنی ایک ڈیلیٹ کردہ ٹویٹ میں طالبان حکومت کے قیام پر اے پی ایس کے شہدا کو یاد کر رہے تھے جبکہ دوسری جانب مائزہ حمید گجر اور خواجہ سعد رفیق خوشی کا اظہار بھی فرما چکے۔ لیکن پارٹی اس ضمن میں مکمل خاموش ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گونگلووں سے مٹی جھاڑنے کے لیے ہی سہی پارلیمان کا اجلاس بلانے کی سعی تو کر لی جاتی۔

یہ صرف کنفیوژن کی ایک مثال ہے ورنہ نون لیگ قدم قدم ایک ایسے بے سمت رستے کی مسافر ہے جس پر وہ خود اور ملکی سیاست کو دائروں میں ہی مقید رکھنا چاہتی ہے۔ تحریر کے آغاز میں میں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی رنگا رنگی میں کچھ بھی پردہ غیب سے نمودار ہو سکتا ہے اس لیے کوئی بھی تجزیہ معمولی سی یقینی کیفیت نہیں رکھتا لیکن پھر بھی اندازہ تو لگایا جا ہی سکتا ہے۔ میرا اندازہ یہ کہ احساس زیاں سے عاری نون لیگ کی ٹرین چھوٹ چکی ہے۔

کارکنوں میں شدید بددلی پھیل چکی ہے۔ لیگی راہنما دائیں آنکھ دبا کر جس نواز شہباز کی متضاد سیاست کو سیاسی چال بتایا کرتے ہیں وہی چال اب نون لیگ کے گلے کی پھانس بنی ہے۔ مطلب نون لیگ کے بقول ان کے مخالف اتنے سادہ ہیں کہ کہ ان کو آپ کی اس سیاسی چالبازی کا اندازہ تک نہیں۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لاکھ وجد آفریں سہی لیکن کسی کفریہ جملے کی طرح یہ نعرہ پارٹی چیئرمین راجہ ظفرالحق یا صدر شہباز شریف کی زباں سے کبھی ادا تک نہیں ہوا۔

نواز شریف صاحب تقاریر میں لاکھ گرج گرج کر عوام کو حکم صادر فرماتے رہیں کہ فلاں فلاں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ جناب ذرا وضاحت تو فرما دیں ان اٹھ کھڑے ہونے والوں کا تعلق اگر نون لیگ سے ہو تو پارٹی ڈسپلن کے مطابق وہ کیا کردار ادا فرمائیں؟ دوئم کیا اس اٹھ کھڑے ہونے کے مطالبے سے آپ ہی کی پارٹی کے آپ ہی کے لگائے ہوئے آپ ہی کے بھائی کو استثنا حاصل ہے؟

بات بہت سادہ سی ہے نون لیگ کی سیاست اس بھونڈے مفروضے پر قائم ہے کہ عمران خان کی نا اہلی اور عوامی شعور اپنے قدرتی ارتقا میں اس نا اہل ترین بندوبست کے خلاف پھٹ پڑے گا تو ہم براہ راست آ کر اس کی کمان سنبھال لیں گے۔ جناب انسانوں اور کارکنوں کو بھیڑ بکریاں سمجھنا چھوڑ دیں اگر خوش قسمتی سے قومی شعور وقت کی کٹھالی میں ایسے ڈھل گیا تو وہ آپ سے بھی اس سیاست کا حساب مانگے گا جس میں ٹویٹر آئی ڈیز تک مہینوں عدت میں چلی جاتی ہیں۔

سیاست کا عمومی اصول ہے کہ خلا تا دیر قائم نہیں رہتا اور اب یہ خلا بھی قائم نہیں رہے گا۔ میرا اندازہ ہے سسی کا بھنبھور لٹ چکا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments