انگلینڈ میں ایمان کیوں تازہ ہوتا ہے؟


جب مجھے انگلینڈ میں پہلی تنخواہ کی سلپ ملی تو میں بھنا گیا۔ ایک تو مجھ سے ٹیکس زیادہ کاٹا گیا تھا اور دوسرے میری سینیارٹی ساری غتر بود کی گئی تھی جس سے میری تنخواہ میں کافی کمی آئی تھی۔ میں غصے سے بھرا ایڈمنسٹریٹر کے دفتر میں پہنچا، جو کہ ان دنوں ایک سینئر خاتون تھیں۔ انہوں نے عزت سے بٹھایا۔ چائے کافی کا پوچھا۔ میں نے معذرت کی اور سیدھا برسر مطلب آیا۔ میری شکایت پر انہوں نے کہا کہ ’سوری، میرے پاس چونکہ آپ کی معلومات نہ تھیں۔ پھر میں نے آپ کی تنخواہ روکنا مناسب نہ سمجھا اور فی الحال ایمرجنسی ٹیکس کوڈ لگا کر تنخواہ دلوا دی ہے۔ آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہو جائے گا اور آپ کو ساری رقم پچھلے ماہ سے ہی مل جائے گی‘ میں نے جب سکون کا سانس لیا تو انہوں نے ایک رف کاغذ آگے بڑھا دیا کہ اس پر ذرا اپنی شادی کی تاریخ، بچوں کی تعداد اور اپنی گزشتہ تجربے کا سال بہ سال مختصر خلاصہ لکھ لیں۔ میں نے وہ تو لکھ کر دے دیا لیکن پھر پوچھا کہ ان کے ساتھ کون کون سے کاغذات درکار ہوں گے۔ اس پر انہوں نے حیرت سے دیکھا اور کہا ’وہ کس لئے؟ بس آپ نے کہہ دیا تو کافی ہے۔ اب ظاہر ہے آپ جھوٹ تو نہ بولتے ہوں گے‘

اب میں اسے کیا بتاتا کہ ہم کیسے کیسے جھوٹ دھڑلے سے بول لیتے ہیں۔ حالانکہ حضور ﷺنے جھوٹ کو تمام گناہوں کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ یہ لوگ اس پابندی سے حضور ﷺ کے فرمان کو مانتے ہیں؟

پرسوں مجھے سخت بھوک لگی ہوئی تھی لیکن ہسپتال سے آ کر مجھے بیگم کے ساتھ سودا سلف خریدنے کے لئے سپر مارکیٹ جانا پڑا۔ وہاں پر میں نے چند ایک چاکلیٹ خریدے اور ایک دو بیگم کو پکڑا کر باقی راہ چلتے چلتے کھانے لگا۔ بیگم نے تھوڑی دیر کے بعد ٹوکا کہ دیکھتے نہیں سامنے سے دو لوگ آرہے ہیں اور تم کچر کچر چاکلیٹ کھائے جا رہے ہو۔ میں نے جلدی سے منہ بند کر لیا۔ جب تک وہ جوڑا گزر نہ گیا۔ میں نے تو سلام نہیں کیا لیکن بیگم نے سلام اور اس کا جواب دے دیا۔ مجھے کافی دنوں تک خفت رہی کہ حضور ﷺ نے چلتے پھرتے کھانے سے منع کیا ہوا ہے اور ہم سب کبھی بھی اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اب معاشرتی دباؤ کی وجہ سے سہی لیکن کم از کم ایک سنت پر تو دوبارہ عمل شروع کر دیا ہے۔

اسی طرح جب میں کل آپریشن تھیٹر میں داخل ہوا تو میرا او ٹی اے میرے پاس آیا اور بولا کہ ڈاکٹر عبید، آپ مجھ سے ناراض ہیں؟ میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے وضاحت کی کہ ’پرسوں جب جاتے وقت برآمدے میں ہماری نظریں ملیں تو آپ جواباً مسکرائے نہیں‘ ۔ میں نے جلدی سے اس کی وضاحت کی کہ شاید میں کسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ پشیمانی ہوئی کہ حضور ﷺ کی حدیث ہے کہ ’صدقہ دیا کرو اور سب سے آسان صدقہ ایک دوسرے سے مسکرا کر ملنا ہے۔‘ جبکہ ہماری عادت کچھ اس طرح سے بنی ہوئی ہے کہ ہر ایک ہر وقت تیوریاں چڑھائے ہوئے ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ معمولی معمولی باتوں پر لڑنا مرنا نکلتا ہے۔ اس کے بعد میں نے عہد کیا کہ آئندہ را احتیاط۔

چند ہفتے قبل جب میرے بچے بیگم کے ساتھ پہنچنے والے تھے تو میں نے جلدی جلدی سے کرائے کے ذرا بڑے گھر تلاش کرنے شروع کیے ۔ ایک گھر جو کہ ہسپتال کے بالکل قریب تھا، میں نے پسند کر لیا۔ سب سے بڑی خوبی اس میں یہ تھی کہ گھر سارے کا سارا تیار مل رہا تھا حتیٰ کہ باورچی خانے کے برتن بھی مجھے چھوڑے جا رہا تھا۔ ایک مسئلہ تھا کہ مالک مکان صرف اس صورت میں مکان دینے کو تیار تھا جب ہم اسے کم از کم ایک دو سال کے لئے کرایہ پر لے لیں۔

جبکہ میں مصر تھا کہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کا وعدہ فی الحال کر سکتا ہوں۔ بالآخر وہ چھ ماہ پر اور میری مرضی کے کرائے پر راضی ہوہی گیا۔ تاہم اس نے گھر خالی کرنے کے لئے دو ہفتوں کی مہلت مانگ لی۔ میں نے اپنا مسئلہ بیان کیا کہ اس دوران پوری فیملی کو میں کہاں رکھوں گا۔ بچوں کے پہنچنے سے قبل میں نے اسے فون کیا کہ کم از کم گھر خالی کرنے تک مجھے دو کمرے ہی کرائے پر دے دیں۔ اس وقت میں نے آنسر مشین پر اپنا پیغام ریکارڈ کرا دیا۔

تاہم جب شام کو اس کا فون آیا تو کہنے لگا کہ قانون کے مطابق وہ ایک دفعہ کرائے کا وعدہ کر کے پھر کسی سے انہی کمروں کا کرایہ لینے کا حق نہیں رکھتا تھا۔ تاہم وہ میرے بچوں کو اپنے مہمان کے طور پر رکھ سکتا ہے۔ قانون کی یہ پابندی اور وعدے کا یہ پاس۔ یہ تو میرے حبیب ﷺ نے کہا تھا کہ جس نے اپنے وعدے کا پاس نہ رکھا اس کا تو دین ہی نہیں۔ اسی دوران میرے اور بیگم کے درمیان اس بات پر ٹنی رہی کہ وہ اس گھر میں جانا نہ چاہ رہی تھی اور میں اپنے وعدے کا پاس کرنا چاہتا تھا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ میرے جتنے جاننے والوں کو پتہ چل جاتا کہ ابھی لکھت پڑھت نہیں ہوئی تو وہ میری بیگم کی طرفداری کرتے جب کہ مجھ پر ان زبان کے پکے لوگوں کا کچھ نہ کچھ اثر ہوا تھا اور میں اپنی بات سے مکرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تھا۔

اسی طرح جب کل میں آپریشن تھیٹر میں تھک گیا تو راہداری میں ایک ٹرالی پر ویسے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا لیکن پوری راہداری میں ایک خاتون کو دیکھتا رہا جو کچھ اس ڈھب سے اس راہداری میں رکھے سارے سامان اور دیواروں کی صفائی کر رہی تھی جیسے کوئی ماں اپنے چھوٹے بچے کا منہ ہاتھ دھو رہی ہو۔ اس تندہی سے مسلسل کام میں مصروف تھی گویا اپنے خدا کو جواب دہ ہو کیونکہ میرے سرکار دوعالم ﷺ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔

یہ عجیب لوگ میرے حضور ﷺ کی احادیث پر ایسے ایثار سے عمل کرتے ہیں کہ ہم شرم سے پانی پانی ہو جاتے ہیں۔ اب مجھے پتہ چلا کہ میرے پروفیسر ثمین ارباب صاحب جب ولائت آنے کا ارادہ کرتے تو کیوں کہتے کہ چلتے ہیں اپنے اسلام کو تازہ کرتے ہیں۔ جی ہاں میں کہیں اور نہیں انگلینڈ کی بات کر رہا ہوں اور غیر مسلموں کے بارے میں بتا رہا ہوں جو شاید ہم پیدائشی مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام قبول نہیں کرتے ورنہ زیادہ تر تو ان کے کام اصلی مسلمانوں والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ روئے زمین میں ایسی اقوام کو خلافت دیتا ہے جس میں سب سے پہلے انسانیت کی خوبیاں ہوں۔ اگر وہ مسلمان نہ بھی ہوں تو ان کو خلافت دے دی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ میں عام معاشرے کا ذکر کر رہا ہوں اور حکومت کی سطح پر ان کی پالیسیاں میرے زیر نظر نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments