طالبان کی عبوری کابینہ، ‘بھارت کے لیے تشویش بھی ہے اور موقع بھی’


طالبان کی جانب سے افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام پر تاحال بھارت کی جانب سے کوئی باضابطہ ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ البتہ بعض بھارتی تجزیہ کاروں کے بقول دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بھارت کے لیے بھی یہ پیش رفت تشویش کا باعث ہے۔

بعض تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ چوں کہ یہ عبوری کابینہ ہے اس لیے توقع ہے کہ اس میں دوسرے گروپوں، قومیتوں اور خطوں کو بھی نمائندگی ملے گی اور غیر طالبان رہنماؤں کو بھی کابینہ میں شامل کیا جائے گا۔ بعض تجزیہ کاروں کے بقول موجودہ کابینہ میں بیشتر وہی چہرے ہیں جو سابقہ حکومت میں تھے۔

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر طالبان حکومت دہشت گردی کو آگے بڑھاتی ہے تو بھارت کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک بھی اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔

ان کے خیال میں چین کے سنکیانگ صوبے میں ایغور مسلمانوں کے علاوہ ترکمانستان، قازقستان، ازبکستان اور تاجکستان میں ایسے عناصر ہیں جو انتہا پسندانہ خیالات کے حامل ہیں جنہیں ایسٹرن ترکستان موومنٹ کہا جاتا ہے۔

اُن کے بقول اگر طالبان حکومت نے ان کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو حالات زیادہ خراب ہو جائیں گے جو افغانستان اور خطے کے مفاد میں نہیں ہو گا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ایک عبوری کابینہ ہے۔ طالبان نے ایک جامع اور تمام خطوں اور نسلوں کی نمائندگی والی کابینہ تشکیل دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لہٰذا ایسی توقع رکھنی چاہیے کہ کابینہ میں توسیع ہو گی۔

‘بھارت کو پرامید رہنا چاہیے’

وید پرتاپ ویدک کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ اس کابینہ میں حقانی نیٹ ورک کو زیادہ اہمیت حاصل ہے تاہم انہیں امید ہے کہ طالبان قیادت کابینہ میں توازن قائم کرنے کی کوشش کرے گی اور سابق صدر حامد کرزئی، قومی مصالحتی کونسل کے سر براہ عبداللہ عبداللہ اور عبد الرشید دوستم کے حامیوں کو بھی حکومت میں شامل کیا جائے گا۔ لہٰذا بھارت کو پر امید رہنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے علاوہ سابق افغان صدر برہان الدین ربانی، سابق نائب صدر یونس قانونی اور احمد شاہ مسعود کے لوگوں کو بھی حکومت میں شامل کرنا ہو گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور ایک جامع اور نمائندہ حکومت نہ بنی تو اس کا چلنا مشکل ہو گا۔

وید پرتاپ ویدک نے دعویٰ کیا کہ ابھی تو “طالبان نے آپسی تنازعات ختم کیے ہیں اور پشاور شوریٰ، میران شاہ شوریٰ اور کوئٹہ شوریٰ کے باہمی اختلافات ختم ہوئے ہیں۔”

ان کا خیال ہے کہ اب غیر طالبان سے مشاورت چل رہی ہو گی۔

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک مزید کہتے ہیں کہ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اگرچہ کابینہ پر پاکستان کی چھاپ نظر آتی ہے لیکن اس میں شیر محمد عباس ستنکزئی اور ملا عبد الغنی برادر بھی شامل ہیں جنہوں نے بھارت سے اچھے تعلقات رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

زان کے بقول بھارت کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ اس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے کابینہ میں شامل نہیں ہیں بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ ستنکزئی اور ملا برادر کے علاوہ کن لوگوں سے رابطہ قائم کر سکتا ہے۔

ان کے خیال میں افغانستان میں ایسے کئی مجاہدین ہیں جنہوں نے 1999 میں بھارت کے مسافر بردار طیارہ کی ہائی جیکنگ کے بعد پیدا شدہ بحران کو دور کرنے میں بھارت کی مدد کی تھی۔ ایسے لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ دسمبر 1999 میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے نئی دہلی آنے والی انڈین ایئر لائنز کی پرواز کو ہائی جیک کر لیا گیا تھا جس کے بعد اس پرواز کو امرتسر، لاہور اور دبئی کے بعد قندھار ایئر پورٹ پر اُتارا گیا تھا۔ ہائی جیکرز اور انڈین حکام کے درمیان کئی روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد بھارتی جیلوں میں قید کالعدم جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر، احمد عمر سعید شیخ اور مشتاق احمد زرگرز کی رہائی کے عوض پرواز کو بھارت جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

وید پرتاپ ویدک کے بقول اگر اس حکومت کی پالیسیاں سابقہ حکومت ہی کی مانند رہتی ہیں اور یہ اسی طرح کام کرتی ہے جیسا کہ پہلی حکومت کرتی تھی تو پھر بھارت کو سوچنا پڑے گا کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ کابینہ کی شکل و صورت دیکھ کر یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اس پر پاکستان کا اثر رہے گا۔ اگر طالبان قیادت نے سب کو نمائندگی دی تو وہ ایک مضبوط حکومت ہو گی اور پھر اس پر نہ تو پاکستان کا اثر رہے گا، نہ چین کا اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کا۔

کابینہ میں وہی پرانے لوگ ہیں

سابق سفارت کار میرا شنکر کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان نے وعدے کے مطابق کابینہ تشکیل نہیں دی ہے تاہم ہمیں انتظار کرنا اور یہ دیکھنا ہو گا کہ طالبان کی حکومت بھارت کے حوالے سے کیسی پالیسی اختیار کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کابینہ میں وہی پرانے لوگ ہیں جو سابقہ حکومت میں تھے۔

انہوں نے خبر رساں ادارے ‘پریس ٹرسٹ آف انڈیا’ (پی ٹی آئی) سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ کی تشکیل کے وقت وہاں پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی موجودگی سے پتا چلتا ہے کہ کابینہ سازی میں پاکستان کی در پردہ مداخلت رہی ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں پاکستان کا کوئی پسندیدہ فریق نہیں ہے۔ “ہمارا جغرافیہ ہمیں ایک دوسرے سے منسلک کرتا ہے اس لیے ہمارا رویہ حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے۔”

افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر راکیش سود کا کہنا ہے کہ کابینہ سازی کے بعد یہ مفروضہ زائل ہو گیا کہ یہ طالبان پہلے والے طالبان سے مختلف ہیں۔

بھارتی وزارتِ خارجہ میں سابق سکریٹری (ایسٹ) انل ودھاوا کا کہنا ہے کہ پہلے سے ہی اس کا امکان تھا کہ یہ جامع اور تمام طبقات کی نمائندہ حکومت نہیں ہو گی۔

امریکہ اور روس کے اعلیٰ عہدے داروں کا دورۂ نئی دہلی

دریں اثنا امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سربراہ ولیم برنس اور روس کی سیکیورٹی کونسل کے سکریٹری جنرل نکولائے پیتروسیف نے نئی دہلی کا دورہ کر کے بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے ملاقات کی اور افغانستان کی صورتِ حال اور خطے کی سیکیورٹی پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا۔

ذرائع کے مطابق سی آئی اے کے چیف چاہتے ہیں کہ بھارت امریکی افواج کے انخلا کے بعد خطے میں امریکہ کے ساتھ انٹیلی جنس کے تبادلے میں کلیدی کردار ادا کرے۔

ادھر روس کے سیکیورٹی کونسل کے سکریٹری جنرل نکولائے پیتروسیف نے بدھ کو نئی دہلی وزیرِ اعظم نریندر مودی، وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور مشیر قومی سلامتی اجیت ڈوول سے بھی ملاقاتیں کیں۔

انہوں نے طالبان کے وعدوں، افغانستان میں سرگرم بین الاقوامی گروپوں کی جانب سے دہشت گردی کے خطرے، ہتھیاروں کی ترسیل، انتہا پسندی اور افیون کی پیداوار اور منشیات کی اسمگلنگ سمیت دیگر اُمور پر تبادلۂ خیال کیا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments