دہشت گردی اور امن پسندی 9/11


شام کے پانچ بجے ہم سعودیہ کے شہر ریاض کے امریکی کمپاونڈ Rose Village میں موجود تھے۔ اور ہر گزرتے پل کے ساتھ ہماری ہیجان خیزی اور لرزہ خیزی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ امریکی وقت کے مطابق یہ 9 ستمبر 2001 کی بدبخت صبح تھی جب دنیاوی خدائی کا دعویدار اور 1992 کے بعد پوری دنیا میں اپنے اپ کو سنگل سپر پاور منوانے والا امریکہ جدید دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی کا نشانہ بنا اور پوری دنیا اپنے اپ کو غیر محفوظ تصور کرنے پر مجبور ہوئی اور پھر امن قائم کرنے اور امن کی آڑ میں کئی ملکوں میں دہشت گردی کا کھیل کھیلا گیا۔

یہ منگل کی صبح تھی جب پونے نو بجے نیو یارک Manhattan میں 110 منزلہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ایک ٹاور سے امریکی ائر لائن کا طیارہ ٹکرایا اور پھر سترہ منٹ بعد دوسرے ٹاور سے جب یونائٹیڈ ائر لائن کا طیارہ ٹکرایا تو نیویارک میں شاید قیامت کا منظر تھا۔ پوری دنیا کے نیوز چینل ابھی اس قیامت خیزی کی منظر کشی میں مصروف تھے کہ 34 منٹ بعد امریکی ائر لائن کا ایک اور طیارہ امریکی فوج کے ہیڈ کوارٹر پینٹاگون کے اوپر گرایا گیا۔

یہ قیامت نما دہشت گردی ابھی جاری تھی اور پھر چوتھا ہائی جیک ہونے والا طیارہ جو وائیٹ ہاؤس پہ گرائے جانے کا امکان تھا مگر طیارے میں موجود کچھ مسافر پہلے ہائی جیک ہونے والے طیاروں کا احوال جان چکے تھے اور پھر ان مسافروں نے ہائی جیکرز کے ساتھ مداخلت کی اور ہائی جیکرز اس طیارے کو پنسلوینیا کی زمین پہ گرانے پر مجبور ہو گئے۔

امریکہ کی جانب سے ایک گھنٹے بعد القاعدہ۔ اسامہ بن لادن۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور صلیبی جنگوں کا ذکر چھڑ گیا۔ امریکی تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی سربراہی میں عرب دہشت گرد یا کچھ لوگوں کے مطابق مجاہدین نے باقاعدہ امریکہ میں پائلٹ کے طور پر ٹریننگ لی اور پھر تین طیاروں میں پانچ پانچ دہشت گرد اور چوتھے طیارے میں چار دہشت گرد سوار ہوئے اور طیاروں کو ہائی جیک کر کے یہ قیامت خیز دہشت گردی کی گئی۔

جس کے نتیجہ میں فوری طور پر 2996 انسان لقمہ اجل۔ 25000 شدید زخمی اور کھربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر جو دنیا کی سب سے سحر انگیز جگہ Manhattan میں واقع تھا وہ یکا یک انسانی حیوانیت کی منظر کشی پیش کرنے لگ گیا۔ اگرچہ بالکل اس کے پہلو میں نیا ورلڈ ٹریڈ سینٹر 2006 تک مکمل کر لیا گیا مگر پرانا ورلڈ ٹریڈ سینٹر آج بھی وہاں نوحہ کناں اور دہشت گردی کا پیغام دے رہا ہے۔

اس دہشت گردی کے بعد فطری طور پر امریکہ ایک بپھرا ہوا ہاتھی بن گیا اور اسامہ بن لادن کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے افغانستان پر حملہ اور ممکنہ طور پر تیسری جنگ عظیم کی تیاری کرنے لگ گیا۔ مگر بہت جلد پورے عالم اسلام کی جانب سے کسی بھی قسم کی مزاحمت نہ آنے پر امریکہ نے مکمل پراعتماد ہو کر افغانستان پر حملہ کر دیا۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 7 اکتوبر 2001 کو افغانستان پر حملہ کیا اور اور 17 دسمبر 2001 تک طالبان اور القاعدہ کو شکست دے کر اپنی فتح کا اعلان کر دیا۔ اس فتح کے باوجود امریکہ نے ملا عمر اور اسامہ بن لادن کو جواز بنا کر افغانستان میں مسلسل اپنا قبضہ قائم رکھا۔ بالآخر امریکہ کی جانب سے مئی 2011 میں اسامہ بن لادن اور اپریل 2013 میں ملا عمر کی ہلاکت کا دعوی سامنے آیا۔

یہاں پہ بات عقل کے منافی ہے کہ چھ آسمانوں اور زمین کی تہوں کی خبریں دینے والی سپر پاوروں کو اسامہ بن لادن اور ملا عمر کو مارنے میں دس اور بارہ سال کیسے لگ گئے۔ کیا یہ ان کی واقعی بے بسی تھی یا پھر اپنے ناجائز قبضہ کو طول دینے کے لئے ڈراما تھا۔ اور پھر اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی ہلاکت کے بعد مزید امریکہ اور اتحادی افغانستان میں ایک دہائی تک کیوں قابض رہے۔ یہاں ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ یا پھر دوسری جانب شاید اللہ کی طرف سے امریکہ اور اتحادیوں کی طالبان کے ہاتھوں باعزت اور باضابطہ رسوائی اور پسپائی تھی۔

البتہ پھر یوں لگنے لگ گیا کہ جیسے افغانستان پہ حملہ کے بعد تو امریکہ کو انسانی جانوں سے کھیلنے کا لائسینس مل گیا ہے۔ دو سال بعد عراق پہ حملہ اور آٹھ سال تک ناجائز قبضہ۔ لیبیا۔ شام اور مصر میں انسانی لاشوں پر سیاسی کھیل جیسے گھناونے کھیل کھیلے جانے لگے۔ یہاں تک کہ اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان کے جمہوری وزیراعظم سے لے کر نام نہاد اسلامی ملا تک کی شلواریں JF کینیڈی ائرپورٹ نیویارک پہ اترتی رہیں۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیویارک میں ہونے والی تاریخی دہشت گردی تو دہشت گردوں نے کی تھی۔ مگر امن قائم کرنے کے دعویداروں اور جمہوری طاقتوں نے امن قائم کرنے کی آڑ میں جو انسانی جانوں سے کھیل کھیلا ہے کیا وہ دہشت گردی ہے یا امن پسندی؟ کیا مٹھی بھر دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کی اڑ میں کسی خود مختار ملک پر حملہ اور پھر دہائیوں تک قبضہ کو بین الاقوامی طاقتیں امن پسندی کا نام دیتی ہیں یا دہشت گردی کا؟

مجموعی طور پر پچھلی دو دہائیوں میں لگ بھگ پانچ لاکھ معصوم انسانی جانوں کے ضیاع کو امریکی دانشور کیا نام دیں گے؟ دس ملین امن پسند انسانوں کو بے گھر اور ملینز عورتوں کو بیوہ یا بے سہارا یا بے توقیر کرنے پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں کیا کہیں گیں؟ کیا امریکہ یا مغربی دانشور بھی تعصب کی عینک اتاریں گے یا پھر اپنے مفاد اور مذہبی نظریات کے دائرے میں ہی رہیں گے۔ آخر ایک دن معصوم جانوں کا خون بولے گا اور طاقت کا طلسم ٹوٹتے ہی دنیا جان جائے گی کہ امن قائم کرنے کی اڑ میں جنگ اور دہشت گردی میں فرق ہوتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments