17 اگست 1988 اور بابائے چادر کا احسان


آج بابائے چادر کی یاد آئی ہے اور بے طرح آئی ہے۔ کیا کہیے کہ مرحوم ایسے صاحب بصیرت تھے کہ عورت کو محض ضرورت کی جنس جانا اور اس کے گرد مکڑی کا ایسا جالا ترتیب دیا کہ برسوں بیت گئے، آزاد ہونے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں لیکن عورت اس جال میں مزید دھنستی ہی چلی جاتی ہے۔

اسی کی دہائی کا آغاز تھا۔ بابائے چادر اپنے ذاتی مقاصد کو نفاذ اسلام کے کمبل لپیٹ کر ایک ہنگامہ برپا کر چکے تھے۔ تاریخی اصول کے اتباع میں مذہب کا اطلاق سب سے آسان شکار یعنی عورت کے جسم سے شروع ہونا تھا۔ یہ سوچتے ہوئے دانشور سر جوڑ کے بیٹھے تھے کہ ایسا کونسا فوری اور ارزاں ترین کام کیا جائے جس میں ہینگ لگے نہ پھٹکڑی کے مصداق رنگ چوکھا آئے۔ نو رتنوں کا تو مسئلہ ہی یہی ہوتا ہے کہ اصل مسائل کا نام لیتے ہوئے ان کے پر جلتے ہیں سو نزلہ آسان شکار پہ ہی آن گرتا ہے۔

سود ختم کرنے، غربت کا خاتمہ، پرائمری تعلیم عام کرنے یا قومی معاشی حالت بہتر کرنے کی بجائے نفاذ اسلام کا بوجھ عورت کے کندھوں پر رکھ دیا گیا تھا۔ ان بارہ تیرہ برس کی بچیوں کو راہ راست پہ لانے کا ارادہ کیا گیا تھا جو پدرسری نظام کی سفاکی سے بے خبر اچھلتی کودتی سکول جایا کرتی تھیں۔

پروانہ آیا تھا کہ سکول کے دروازے سے وہی بچی اندر داخل ہو سکے گی جو موٹے کاٹن کے یونی فارم کے اوپر ایک چادر اوڑھ کر جسم چھپا کر سکول آئے گی۔ سکول میں اعلان ہوا اور بتا دیا گیا کہ اس حکم سے مفر ممکن نہیں، جو بچی ایسا نہیں چاہتی، گھر بیٹھ جانا ہی اس کے لئے بہتر۔

ہم نویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ اعلان سن کر حیرت سے اپنے آپ کو دیکھا، منحنی جسم، بوٹا سا قد، دو چوٹیاں، آنکھوں پہ عینک اور چہرے پہ ناسمجھی۔ دور دور تک ایسے آثار نظر نہیں آئے جو لوگوں کا پتہ پانی کر دیں۔

حیرانی سے سوچا، ارے بھئی کیا ہے یہاں جسے یونی فارم کی قمیض کے علاوہ چادر سے بھی ڈھانپنا ہے؟ شباب کی نشانیاں تو کہیں تھیں نہیں اور جن بچیوں کے پاس کچھ ابتدائی علامات تھیں بھی وہ بھی ڈھیلی ڈھالی قمیض اور پٹی نما دوپٹے کے نیچے کہیں دفن تھیں۔

دوسرا خیال یہ آیا کہ کیا نوعمر لڑکی کا جسم اس قدر شہوت انگیز ہوتا ہے کہ معاشرے میں کسی گرگ باراں دیدہ کو خوفزدہ کر سکتا ہے؟ حقیقت کو مد نظر رکھا جائے تو بچی کا جسم خالق کا ترتیب شدہ ویسا ہی بدن ہے نا جو ان کی اماں بہنوں بیٹیوں کے پاس بھی ہے۔ وہی پستان، جو عورت کے جسم سے زندگی نچوڑ کر انہیں زندگی بخش دیتے ہیں۔ وہی پیٹ جس سے وہ خود برامد ہوئے ہیں اور اپنی اگلی نسل کو بھی وہیں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔

معاشرے کی ہر لڑکی کا جسم نارمل نظر، دل اور دماغ سے آخر کیوں نہیں دیکھا جا سکتا؟ کیا پورنوگرافی کی عینک پہن کے عورت کا ایکسرے کرنا لازم ہے؟ آخر اس کی آنکھ عورت کو اپنے جیسا کیوں نہیں سمجھ سکتی؟ عورت کے لئے مرد کی آنکھ مصفیٰ کیوں نہیں ہو سکتی؟

بہت سے تشنہ جواب معاملات کی سمجھ بہت بعد میں آئی کہ ہمسایہ ممالک میں بھی اسی نظریے کے تحت چھوٹی چھوٹی بچیوں کو چادر اوڑھائی جا چکی تھی۔ شاید مذہب کی نمائش کا سب سے آسان ترین طریقہ یہی تھا۔

دوسری طرف رہا بیسیوں متع کرنے کا رواج اور کہیں لونڈیوں اور چار شادیوں کی رسم، تو اس کا نام لینا تو جرم عظیم ٹھہرا۔ دیکھیے نا مرد نامی حاکم کو تو سات خون معاف ہوتے ہیں سو پاؤں کی جوتی، دو ٹکے کی عورت کی یہ ہمت کہ اعتراض میں لب کھولے۔ ایسی عورت کی زبان کاٹنا ہی جائز ہوتا ہے۔

خیر جناب سکول تو جانا ہی تھا سو حکم حاکم مرگ مفاجات کے تحت ڈھائی گز کاٹن کی چادر خریدی گئی جس کے تحت ہم اور باقی سب لڑکیاں مشرف بہ اسلام ہو گئیں۔

مذہب اوڑھنے کا یہ عمل گیٹ کے باہر شروع ہوتا جب چوکیدار کے سامنے کھڑے ہو کے بیگ سے نکال کے چادر پہنی جاتی اور گیٹ سے داخل ہوتے ہی اتر جاتی۔ یہی کچھ گیٹ سے نکلتے وقت بھی کیا جاتا۔ دیکھیے نا شرط تو یہی تھی نا کہ گیٹ سے داخلہ نہیں ہو گا سو گیٹ پہ اسلام کا نفاذ تھا البتہ گیٹ سے بیس گز دور ہم سب وہی تھے جو پہلے سے تھے۔ جابر حاکم کا مولا بخش اتنی ہی تبدیلی لا سکتا تھا اور چوکیدار کی عملداری بھی گیٹ تک ہی تھی۔

ٹیلیویژن پہ نظر آنے والی خواتین کی بھی کم بختی آئی کہ دوپٹہ سر پہ اٹکانا لازمی ٹھہرا۔ اب چاہے ہیروئن رومانوی ڈائیلاگ بول رہی ہو یا کسی کی مرگ پہ آہ وزاری، سر پہ پنوں کی مدد سے ٹکا ہوا دوپٹہ کبھی نہ ہلتا۔ یہ سب حقیقت سے دور اتنا مصنوعی لگتا کہ ٹی وی سستا تھیٹر بن گیا۔  ایک مہتاب راشدی تھیں جنہوں نے اس حکم کی تعمیل میں سرتابی دکھائی اور ان پر ٹیلی ویثن کے دروازے بند ہو گئے۔

بابائے چادر کا ساتھ دینے والے ادیب، دانشور اور صحافیوں نے اس نظریے کا خوب پرچار کیا۔ ہم آج بھی حیرت سے سوچتے ہیں کہ زندگی کے پراسرار تہہ در تہہ رموز کو افشا کرنے کی بجائے عورت کے زنداں کی دیواروں کو مزید بلند کرنے والے نظریات کی تائید کرنا ان عالی مرتبت ادیبوں کو زیب دیتا تھا؟ یا وہ محض اپنی باتوں سے چائے کی پیالی میں طوفان پیدا کرنا جانتے تھے اور اس کے آگے کچھ نہیں! ڈکٹیٹر سے مالی فوائد اور وقتی شہرت حاصل کرنا ان سب کا مطمح نظر ٹھہرا اسی لئے تو ان کے الفاظ میں سچائی اور دیانت کا فقدان انہیں عالمی ادب کے کسی سٹیج پہ نہیں کھڑا کر سکا۔

ایک اور مزے کی بات یہ تھی کہ بابائے چادر کی اپنی چہیتی لاڈلی بیٹی کبھی فوجی یونیفارم میں اور کبھی بغیر دوپٹے کے بدیسی لباس میں ہر محفل میں ابا جان کے ساتھ ساتھ ہوتی۔ ہم نے کہا نا کہ عوام کی بیٹیوں کا بھلا کیا مقابلہ ان سے جو دوسروں کو رستہ دکھانے کا عزم رکھتے ہوں۔ ان کی آنکھ کا شہتیر بھی تنکا ہی ہوتا ہے۔

جن ممالک کے رسم و رواج نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تھی، بہت برس بعد ہم وہاں پہنچے تو سر پیٹ لیا۔ وہاں کی عورت باہر نکلتے ہوئے چادر پہنے یا عبایہ، اس کے نیچے انجلینا جولی یا کیٹ ونسلیٹ کے ملبوسات کو شرماتا ہوا لباس پہنتی ہے۔ مختصر ترین، انگ انگ کو نمایاں کرتا ہوا۔ بعض دفعہ تو ہم خود شرما جاتے، بقیہ آپ خود سمجھ جائیے۔

ان کا وہ مختصر لباس خواب گاہ تک ہی محدود نہیں بلکہ گھر کے سب مردوں کے سامنے بھی اسی میں رہنا معمول ہے۔ پوچھنے پر جواب ملتا ہے کہ یہ تو محرم ہیں ان سے کیا پردہ؟ انتہائی چھوٹی نیکر اور گہرے گلے، بغیر آستینوں کا مختصر بلاؤ، یہ ہے پہناوا باپ بھائی، شوہر، سسر اور بیٹے کے سامنے۔ ہمیں اکثر حیرت سے پوچھا جاتا، کیا تم گھر میں بھی اتنے “ زیادہ” کپڑے پہنتی ہو؟

لباس کے علاوہ انہیں میک اپ کا شوق اس قدر ہے کہ چہرہ بے شک باریک نقاب سے ڈھانپا گیا ہو لیکن مغربی جدید اشیا کی مدد سے آنکھیں اس قدر فسوں کار کہ دل بار بار چاہے، پردہ اٹھا ساقیا!

اب عبایہ اور چادر کا حشر بھی جان لیجیے۔ملک کی سرحد پار کرتے ہی بلکہ جہاز اڑتے ہی عبایہ اور چادر کسی بیگ کی زینت بن جاتے ہیں اور اب اس کے نیچے سے برامد ہونے والی عورت کسی طور بھی مغربی عورت کے مقابلے میں پہچانی نہیں جا سکتی۔ سب سے دلچسپ بات یہ کہ شوہر باپ بھائی ساتھ میں موجود ہوتے ہیں اور کسی کے ماتھے پہ کوئی شکن نہیں ابھرتی۔

ڈاکٹر ہونے کے ناطے ایک اور دلچسپ بات سامنے آئی۔ وہاں کی عورت حاملہ ہو یا نسائی امراض کا شکار، انہیں مرد گائناکالوجسٹ سے علاج کروانا پسند ہے۔ سعودی عرب میں گائناکالوجسٹ ڈاکٹروں کی اکثریت مصر، اردن، شام اور سوڈان سے تعلق رکھنے والے مرد حضرات کی ہے اور ظاہر ہے کہ حکومت کی طرف سے ہی ان کی تقرری کی جاتی ہے۔

ہم اپنے ہسپتال میں آٹھ سینیئر گائناکالوجسٹس میں واحد عورت تھے اور ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمارے کمرے کے باہر سب سے کم خواتین موجود ہوتیں، جبکہ ساتھیوں کے کمروں کے باہر یوں لگتا جیسے کھڑکی توڑ ہفتہ ہو۔

کمرہ زچگی میں جب ہم اکھٹے راؤنڈ کرنے جاتے تو یقین کیجیے ہمیں دیکھتے ہی خواتین کے ماتھے پہ شکنیں پڑ جاتیں جبکہ ہمراہ کھڑے ساتھی ڈاکٹر وں سے اندرونی معائنہ کرواتے ہوئے منہ سے اف تک نہ نکلتی۔

موجودہ پاکستانی حکمران کی طرف سے ہر جرم کے پیچھے عورت کے لباس کو دوش دینا بابائے چادر کے نظریات کو بڑھاوا دینا ہے۔

اصل میں ہم ہیں آدھے تیتر آدھے بٹیر! ایک طرف ہمسایہ ممالک کی خواتین کا ظاہری روپ دل کو بھاتا ہے، مگر ان کے دوسرے لوازمات پورے کرنے کا یارا نہیں۔ سو ہندو معاشرے سے پتی ورتا نامی ماڈل مستعار لے لیا جاتا ہے۔ کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا کے مصداق بھان متی عرف پاکستانی مرد اپنا کنبہ جوڑ لیتا ہے جس میں عورت کو ایک ایسا کردار دیا جاتا ہے جو لونڈی کے علاوہ کچھ نہیں۔

نہ منہ میں زبان، نہ آنکھ میں خواہش، نہ طبعیت میں سرکشی، نہ ذات کا ادراک، نہ اپنے حقوق کی آگہی، نہ پسند ناپسند کا احساس، نہ شخصیت میں اعتماد، نہ پرواز کی چاہت، نہ کوئی فرمائش اور نہ ہی کوئی آرزو۔ لیجیے جناب مولویوں کی خاص تراکیب اور خاص اجزا سے آرڈر پہ تیار کی گئی پاکستانی عورت حاضر ہے۔

پسند کے مطابق لباس پہنائیے، دل میں اترنے کا رستہ خدمت بتائیے، توقعات رکھنے پہ سرزنش کا مژدہ سنائیے، زبان کھولنے کی صورت میں سزا کی تفصیلات سے آگاہ کیجیے، چھڑی ہر وقت ہاتھ میں تیار رکھیے اور بلاتکلف آزمائیے کہ روکنے والا تو کوئی ہے نہیں۔

نافرمانی کی صورت میں تین طلاق کی دھمکی تیار رکھیے، نوکری کرنے کی خواہش میں واضح کر دیجیے کہ تنخواہ تو آپ ہی وصول کریں گے آخر سرپرستی کرنے کی فیس تو ہوتی ہی ہے۔ حکم عدولی کی صورت میں بچے چھین کر گھر کا دروازہ بند کر دینے کو بھی واضح کر دیجیے۔ آپ کی ماں بہنیں کس قدر مقدس اور اہم ہیں اور آپ کے علاوہ ان کے سامنے بھی ہر صورت سر جھکانا، پہلی رات ہی واضح کر دیجیے۔

اور ہاں، سارا دن تمام گھر والوں کی چاکری کے بعد آپ کی شبینہ ضروریات و خواہشات میں تھکن نامی کبھی کوئی عذر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اختلاف کی صورت میں رات بھر فرشتوں کی لعنت سے بھی آگاہ کر دیجئے۔

دیکھیے بابائے چادر کا معاشرے پہ احسان! کیا ماڈل تیار کر کے گزر گئے کہ جس کا جادو چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سر پہ چڑھ کے بولتا ہے بلکہ تخت و تاج کے رستے بھی اسی کھل جا سم سم سے آپریٹ ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments