عوام کا کتنا خون نچوڑا جائے گا!


حکومتی وزراء عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے دعوے کر رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب بجلی کے نرخوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی جانب سے حکومت پر دباؤ ہے کہ توانائی کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے گردشی قرضوں میں کمی لائی جائے، اس لیے حکومت گردشی قرضوں میں کمی لانے کے لیے بجلی کے نرخوں میں مرحلہ وار اضافہ کر رہی ہے، یہ اضافہ سہ ماہی بنیادوں پر فیول ایڈجسٹمنٹ اور سرچارج کے ذریعے کیا جائے گا، تاکہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ذریعے آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے قرضوں کی واپسی کی جاسکے گی۔

اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے اقتصادی پالیسی سازوں کے پاس کوئی ایسا منصوبہ نہیں ہے کہ جس سے گردشی قرضوں میں کمی لائی جاسکے، حکومت کے وزراء کی تبدیلی بھی معیشت کی بہتری میں کوئی موثر تبدلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے، پاکستان کے اقتصادی ماہرین کے پاس عوام پر پے در پے بوجھ ڈالنے کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں ہے، ایک طرف بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب بجلی کی کمپنیاں صارفین کو بجلی کے ماہانہ بل 31 دن کے بجائے 37 دن کی بنیاد پر جاری کر رہی ہیں، اس کے باعث بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، یہ بات ایک عام شہری کو بھی معلوم ہو چکی ہے کہ بجلی، پٹرول کے نرخوں کے اضافے کا اثر پوری معیشت پر پڑتا ہے، اس سے اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔

اس وقت پاکستان کو درپیش قومی مسائل میں اولیت مہنگائی اور بے روزگاری ہے، حکومت اپنے تین سالہ دور اقتدار میں تمام تر دعوؤں کے باوجود مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے، اسی طرح معیشت کی بحالی کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، یہ اس حکومت کی بات نہیں ہے، ہر دور حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اقتصادی بحالی رہا ہے اور ہر حکومت نے اپنی مدت مکمل کرنے پر قرضوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہی کیا ہے، ہر آنے والی حکومت گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لینے کے ساتھ صرف اس سوچ پر عمل پیرا ہے کہ عالمی سودی اداروں کے قرضوں کی واپسی کے لیے عوام کی رگوں سے کتنا اور کیسے خون نچوڑا جاسکتا ہے۔

ہر دور حکومت میں عوام کی خوشحالی کی بجائے توجہ اسی بات پر مرکوز رہی ہے کہ محصولات اور ٹیکسوں میں کیسے اضافہ کیا جائے، تا کہ حکومتی اخراجات پورے کیے جاسکیں، عوامی فلاح و بہبود کے لیے تو سارے اقدامات نمائشی ہی کیے جاتے رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان مسلسل اپنی تقریروں میں بیان دیتے ہیں کہ 60 کے عشرے میں ملک اقتصادی طور پر آگے بڑھ رہا تھا، لیکن اب مسلسل زوال کی جانب جا رہا ہے، وزیر اعظم بجا طور پر اس کا ذمہ دار سابق حکومتوں کی بدعنوانی اور غلط پالیسی کو قرار دیتے ہیں، لیکن انہوں نے کبھی گہرائی کے ساتھ اس بات کا تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کی ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے اصل اسباب کیا ہیں، وہ سابق حکومتوں پر تنقید کے باوجود سابق حکومتوں کے اقتصادی ماہرین کے ذریعے ہی حالات کو بہتر بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ہر دور اقتدار میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے نمائندؤں سے ہی ڈوبتی معیشت کو سہارا دلوانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، یہ ایک تو اپنے اداروں کی طرف سے نوکری کرنے آتے رہے، دوسرا بینکار ہیں اور بینکار ماہر معیشت نہیں ہوتا، اسے صرف قرض اور سود وصول کرنے کی مہارت حاصل ہوتی ہے، موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اس کے سامنے بھی قومی معیشت کی بحالی کا چیلنج تھا، انہوں نے بھی عالمی اداروں کے آزمائے ہوئے لوگوں کا سہارا لیا ہے، وزیر خزانہ شوکت ترین نے آنے سے قبل گردشی قرضوں کی واپسی کے ساتھ معیشت کی بحالی کے بہت سے دعوے کیے تھے، مگر تیزی سے گزرتے وقت کے ساتھ گردشی قرضوں کی واپسی اور معیشت کی بحالی کی کوئی حوصلہ افزا امید نظر نہیں آتی ہے۔

عوام آئے روز بجلی، گیس، پٹرول کے بڑھتے نرخوں کے ہاتھوں انتہائی مشکلات کا شکار ہیں تو دوسری جانب حکومت نت نئے طریقوں سے عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے میں لگی ہے، وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت عوام کو سستی بجلی فراہم کرنا چاہتی ہے، لیکن اس وقت بجلی مہنگے پاور پلانٹ سے حاصل ہو رہی ہے، ایک طرف حکومت پاور پلانٹ مالکان کو ادائیگی کرتی ہے تو دوسری جانب عوام پر بوجھ پڑتا ہے، اگر حکومت سستی بجلی پیدا کرنے کے ذرائع استعمال کرے تو اس سے نہ صرف عوام سکھ کا سانس لیں گے، بلکہ ملک سے مہنگائی کا بھی خاتمہ ہوگا۔

گزشتہ دور اقتدار میں بجلی مہنگے پاور پلانٹ عوام کی مرضی سے لگائے گئے نہ موجودہ دور اقتدار میں سستی بجلی پیدا کرنے کے ذرائع عوام کی رضا کے لئے ڈھونڈے جائیں گے، یہ سب کچھ عالمی مالیاتی اداروں کی خوشنودی کے لئے کیا جا رہا ہے، ہر دور حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کیا، موجودہ حکومت نے بھی گھٹنے ٹیک دیے ہیں، تاہم اس طرح کب تک عوام کی رگوں سے خون نچوڑا جاتا رہے گا اور عوام خاموشی سے سب کچھ برداشت کرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments