تقدیر امم


انسان ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ وہ آئندہ کے متعلق جس حد تک ممکن ہو علم حاصل کر سکے۔ سیاسی یا بین الاقوامی امور سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو خاص طور پر اس بات کی خواہش ہوتی ہے کہ پتہ کریں کہ مثلاً آئندہ کوئی ملک کیا طرز عمل اپنائے گا یا یہ کہ ایک صدی کے بعد دنیا کا نقشہ کیا ہو گا؟ یہ ظاہر ہے کہ اس ضمن میں جو اندازے لگائے جاتے ہیں وہ اتنے ہی درست ثابت ہوں گے جتنا وہ معقول اور حقائق پر مبنی ہوں گے۔ اسی طرح جتنا ان اندازوں کی بنیاد غیر مبدل چیزوں پر ہو گی اتنا ہی وہ درست ہوں گے ورنہ پچاس یا ستر سال بعد کا کوئی واقعہ حالات کو بالکل مختلف رخ دے سکتا اور اندازوں کو غلط ثابت کر سکتا ہے۔

قوموں کی زندگی میں چند دہائیاں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ وقتی مسائل اور مشکلات کسی قوم کے طرز عمل پر زیادہ دیر اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ مثلاً آج سے سو سال قبل 1918ء میں پہلی عالمی جنگ عظیم کے اختتام پر کیا یہ کہا جا سکتا تھا کہ جرمنی دوبارہ عالمی طاقت بننے کے بعد دوسری مرتبہ مکمل طور پر تباہ اور تقسیم ہو جائے گا اور اس کے بعد پھر تیسری مرتبہ ایک عالمی طاقت بن کر ابھرے گا؟ تاہم اگر گزشتہ صدیوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ جرمنی مسلسل ایک ہی سمت میں سفر کر رہا ہے اور جنگ عظیم اول و ثانی ایسے شدید تباہ کن زلزلے بھی اس کی سمت تبدیل نہیں کر سکے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ اگر دریا ایک سمت میں بہہ رہا ہو تو اس کے بہاؤ کے خلاف تیرنا ممکن تو ہے مگر صرف محدود وقت تک! آخر کار دریا تیرنے والے کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ چنانچہ دریا کی ہلکی مگر مسلسل حرکت ہمیشہ وقتی حرکت پر غالب آ جاتی ہے خواہ وہ وقتی حرکت کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ ایسی ہلکی مگر مسلسل حرکت کو پہچاننے کی ضرورت ہے تاکہ وقتی حالات اور انقلابات سے بالا ہو کر ان کا اثر دیکھا جا سکے۔

ہر قوم کے کچھ ایسے مفادات ہیں جو کہ اس کی صدیوں پرانی تاریخ کے نتیجہ میں تشکیل پاتے ہیں۔ انتہائی گہرے خوف ہیں جو کسی قوم کی اجتماعی سوچ پر اثر چھوڑ چکے ہوتے ہیں اور ان سے مفر ممکن نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہر قوم فیصلے کرتے وقت اپنی تاریخ، اپنے خوف، اپنے مفادات کی اسیر ہوتی ہے۔ یہ بات جہاں ہر انسان پر انفرادی طور پر اطلاق پاتی ہے وہیں قوموں پر بھی۔ پس اصل سوال یہ نہیں ہے کہ کیا ہو گا؟ بلکہ یہ ہے کہ کیوں ہو گا؟ بار بار تباہ ہونے کے باوجود آخر جرمنی ہی کیوں یورپ کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرتا ہے؟ کیوں جرمنی جنگ میں پہل کرتا ہے؟

کسی ملک کے ایسے گہرے، طویل المدتی مفادات کی بنیاد کیسے دریافت کی جائے؟ اس سلسلہ میں ایک نظریہ یہ ہے کہ یہ طویل المدتی اور مسلسل اثر دکھانے والے مفادات جغرافیہ پر مبنی ہوتے ہیں۔ جغرافیہ وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتا اور یہ کسی بھی قوم کے مزاج، اس کی تاریخ اور اس کی صلاحیتوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ ایک بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ مثلاً پہاڑی قوموں کا مزاج، کھیتی باڑی کرنے والی قوموں کے مزاج سے مختلف ہوتا ہے۔ صحرائی قوموں کی عادات، جنگلوں میں رہنے والوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ وغیرہ۔ لیکن جغرافیہ تاریخ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، اقتصادیات پر بھی حتیٰ کہ کسی قوم کی عددی طاقت پر بھی۔

جرمنی یورپ کے وسط میں واقع ہے۔ چنانچہ اکثر یورپی اقوام اپنا تجارتی سامان یورپ کے دوسرے حصوں میں منتقل کرنے کے لئے جرمنی پر منحصر ہیں اور یوں جرمنی کو ان پر تجارتی سبقت حاصل ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جرمنی میں ایسے دریا موجود ہیں جو کہ نقل و حمل کے سستے ترین طریقے یعنی جہاز رانی کے لئے موزوں ہیں یعنی ان میں ایسے آبشار اور دیگر قدرتی رکاوٹیں نہیں ہیں جو جہاز رانی کی راہ میں حائل ہوں۔ پھر یہ بھی کہ کچھ دریا جنوب سے شمال کی طرف اور کچھ مغرب سے مشرق کی طرف بہنے والے ہیں۔ چنانچہ صنعتی انقلاب کے بعد جب کارخانوں میں بہت بڑے پیمانے پر چیزیں تیار ہونے لگیں تو ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے یا ان کے لئے خام مال اور کوئلہ پہنچانے کے سستے ذرائع میں بھی جرمنی کو کئی ممالک پر برتری حاصل رہی۔

کسی قوم کو طاقت ور بنانے کے لئے مگر محض تجارتی سبقت کافی نہیں۔ اس کے لئے افرادی قوت بھی درکار ہے۔ اور اس کے لئے پھر جغرافیہ اہم ہے کیونکہ آبادی وہیں زیادہ ہو سکتی ہے جہاں غذائی ضروریات پورا کرنے کے لئے زراعت ممکن ہو۔ جرمنی کی آب و ہوا نہ تو اتنی سرد ہے نہ اتنی گرم کہ زرعی پیداوار میں نقصان ہو۔ بارشوں کی بہتات کی وجہ سے سستا پانی بھی موجود ہے۔ زمین قابل زراعت بھی ہے۔ پس جرمنی کا یورپ کی سب سے بڑی، متمول اور طاقتور قوم بننا ایک طبعی امر ہے جسے وقتی حادثات تبدیل نہیں کر سکتے خواہ وہ جنگ عظیم ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے بار بار مکمل طور پر تباہ ہونے کے باوجود جرمنی ہی یورپ کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرتا ہے۔

تمام قومیں یہ قدرتی خواہش رکھتی ہیں کہ ان کی طاقت و امارت میں اضافہ ہویا کم از کم ان کو زوال نہ ہو۔ اس کے لئے وہ اپنی تجارت اور اپنے ملک کو ہر ممکنہ خطرہ سے محفوظ رکھنا اور اپنے تجارتی اور سیاسی مفادات کی ہر جگہ حفاظت کرنا چاہتی ہیں۔ یہ بنیاد ہے دنیا پر حکمرانی، یا رعب قائم رکھنے کے مقابلہ کی۔ اسی مقصد کی خاطر ہزاروں سال سے قومیں فوجی چھاؤنیاں اور نو آبادیات قائم کرتی آئی ہیں۔ ورنہ نہ امریکہ کو سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کر کے ہزاروں کلو میٹر دور بحری بیڑے رکھنے کی ضرورت ہے نہ برطانیہ یا فرانس کو بھاری قیمت پر دور دراز جزائر پر فوجی اڈے قائم کرنے کی۔

دنیا کی بڑھتی آبادی، سائنسی ترقی اور خزائن پر دسترس میں اضافہ کے ساتھ عالمی تجارت میں ترقی اور اس کی شکل تبدیل ہوتی رہی ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے صنعتی انقلاب کے بعد جب کارخانوں میں مشینوں کی مدد سے بڑے پیمانے پر چیزیں تیار کی جانے لگیں تو ان کو فروخت کرنے کے لئے دور دراز منڈیوں میں لے جانے کا سب سے سستا طریقہ بحری جہازوں کا استعمال تھا۔ دریاؤں اور سمندروں کی اہمیت اس بات سے واضح ہو سکتی ہے کہ بحری جہازوں سے مال کی نقل و حرکت ریل یا ٹرکوں کی نسبت دس تا تیس گنا سستی ہوتی ہے۔

اسی طرح صنعتی پیداوار کے لئے درکار خام مال دور دراز ممالک میں مہیا تھا۔ اس کو کارخانوں تک پہنچانے کے لئے بھی بحری جہاز ضروری تھے۔ اور ان جہازوں کی حفاظت یا قدرتی خزائن پر قبضہ کے لئے دور دراز ملکوں تک فوج پہنچانے کا اہم ترین ذریعہ بھی بحری جہاز ہی ہیں۔ آج بھی، جبکہ فضائی سفر میں بہت کچھ ترقی ہو چکی ہے، زمین پر فوجیں اتارے بغیر کوئی عسکری کارروائی دیر پا ثابت نہیں ہو سکی۔ اس لئے امریکی رئیر ایڈمرل ماہان نے 1890ء میں یہ خیال پیش کیا کہ دنیا پر حکمرانی کا مرکزی نقطہ سمندروں پر حکمرانی ہے۔ اور یہ حکمرانی قدرتی طور پر صرف ان ممالک کو حاصل ہو سکتی ہے جن کا جغرافیہ انہیں کھلے سمندروں تک رسائی، گہری بندرگاہوں کی تعمیر، اور بحری سفر کا تجربہ رکھنے والی آبادی مہیا کرے۔

مثلاً برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھا، 1890ء میں جس پر سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ اس طاقت کی بنیاد اس بات پر تھی کہ برطانیہ ایک جزیرہ ہے جس کا کوئی بھی شہر سمندر سے زیادہ دور واقع نہیں۔ جنگلات کی بہتات کی وجہ سے بحری جہاز، جو کہ اس زمانہ میں لکڑی کے ہوتے تھے، بنانے کا سامان بھی میسر تھا۔ چنانچہ برطانوی قوم کو جہاز رانی، بحری تجارت اور بحری جنگوں کا صدیوں پر محیط تجربہ ہے۔ فرانس، سپین، بلکہ پرتگال جیسے چھوٹے ممالک نے بھی دور دراز علاقوں کو فتح کیا لیکن ان کے مقابل پر جرمنی، ہنگری، آسٹریا، روس جو کہ کئی لحاظ سے ان سے زیادہ طاقتور تھے، ایسا نہ کر سکے (روس کی فتوحات اس کے زمینی سرحدی ممالک تک محدود رہیں ) ۔

سرسری جائزہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ برطانیہ، سپین وغیرہ سمندر پر واقع ہیں اور انہیں بحر اوقیانوس (atlantic ocean) جیسے کھلے سمندر تک رسائی حاصل ہے۔ اسی لئے ان کے پاس بحری بیڑے بنانے اور بحری جنگوں کا لمبا تجربہ موجود ہے۔ جبکہ آسٹریا، ہنگری، جرمنی کو یہ موقع میسر نہیں تھا اور اسی لئے ان کے پاس قابل ذکر بحری بیڑے بھی نہیں تھے نہ ہی بحری جنگوں کا تجربہ۔ ایک عالمی طاقت ہونے اور وسائل رکھنے کے باوجود روس بھی امریکہ کے مقابل پر کبھی بھی قابل ذکر بحری طاقت نہیں بن سکا۔

 اگلا سوال یہ ہے کہ پھر برطانیہ کا زوال کیوں ہوا؟ اور امریکہ اس سے آگے کیسے نکل گیا؟ اس کے لئے یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ مشرق میں بحر اوقیانوس اور مغرب میں بحر الکاہل (pacific ocean) دونوں سمندروں تک رسائی رکھتا ہے۔ جبکہ یورپی اور افریقی ممالک کو بحر الکاہل تک اور ایشیائی ممالک کو بحر اوقیانوس تک رسائی حاصل نہیں۔ چنانچہ امریکہ کو اس لحاظ سے تمام یورپی، افریقی، اور ایشیائی ممالک پر سبقت حاصل ہے۔ جوں جوں عالمی تجارت کا ایک حصہ بحر اوقیانوس سے بحر الکاہل کی طرف منتقل ہوتا گیا، یورپ اور ایشیاء پر امریکہ کی یہ سبقت بڑھتی گئی۔

اس وقت بحر الکاہل میں تجارت، بحر اوقیانوس کی تجارت سے زیادہ ہے۔ اس جگہ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ میکسیکو کو بھی ان سمندروں تک رسائی حاصل تھی لیکن میکسیکو کی بجائے امریکہ کیوں عالمی طاقت بنا؟ اس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ بہرحال ماہان کے مشوروں پر عمل کر کے امریکہ آج یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی سمندر میں اپنے تجارتی جہازوں کی حفاظت کرے ا

ور بصورت تصادم کسی بھی دوسرے ملک کی بحری تجارت کو روک دے۔ چنانچہ دنیا پر اس وقت امریکہ کی حکمرانی ہے۔ اور یہ حکمرانی اس وقت تک قائم رہے گی جب تک امریکہ سمندروں پر حکمران ہے، یا تجارت کا مرکز سمندر سے دیگر ذرائع کی طرف منتقل نہیں ہو جاتا یا پھر تجارت کا مرکز ان دونوں بڑے سمندروں، بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس سے دور نہیں چلا جاتا، یا پھر امریکہ ٹوٹ نہیں جاتا۔

دوسرا اہم نظریہ انگریز ماہر میک کنڈر نے 1904ء میں پیش کیا۔ اس کے مطابق دنیا ایک مرتبہ پھر زمینی تجارت کی طرف لوٹنے والی ہے۔ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ریلوے وغیرہ کی ایجاد کی وجہ سے زمینی راستہ سے تجارت سستی، بحری خطرات سے محفوظ اور زیادہ آسان ہو گی۔ چنانچہ اس کے مطابق دنیا پر حکمرانی قدرتی طور پر اس قوم کی ہو گی جو دنیا کے محور یا دل پر قابض ہو گی۔ میک کنڈر کے مطابق یہ محور وسطی ایشیاء ہے جو کہ مغرب میں دریائے وولگا کے علاقہ سے لے کر مشرق میں بحر بیکال اور جنوب میں ایران کی سرحد تک ممتد ہے۔ یہ علاقہ سمندر سے اتنا دور ہے کہ اس پر سمندری راہ سے حملہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں بے شمار قابل زراعت زمین اور قدرتی خزائن موجود ہیں۔ یورپ و مشرق بعید کے مابین زمینی تجارت، افریقہ کی ایشیاء اور یورپ سے زمینی تجارت، سب اس علاقہ کے زیر اثر ہو ہے۔

تاہم عالمی تجارت اب تک نہ صرف بدستور سمندری راستوں پر منحصر ہے بلکہ اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ نظریہ غلط ہے۔ نظریہ اپنی جگہ نہ صرف درست ہے بلکہ اب مزید اہمیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سویت یونین کے اختتام کے بعد ہنری کیسنجر اور برزیزنسکی جیسے مشہور امریکی ماہرین نے امریکہ کو میک کنڈر کی تھیوری کی روشنی میں پالیسیاں بنانے اور اس محور پر روس کا اثر ختم کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی۔

آج کل جو چین کے سی پیک اور افغانستان کے مسائل ہیں ان کا تعلق اسی وسطی ایشیائی علاقہ پر اثر و رسوخ قائم کرنے اور اس علاقہ کے تجارتی راستے استعمال کرنے سے ہے۔ اس نظریہ پر ایک اور طریق پر بھی غور ہو رہا ہے۔ وہ یہ کہ خلاء میں بھی ہر جگہ برابر اہمیت کی حامل نہیں۔ جس طرح زمین پر بعض اہم علاقے ہیں جن پر قبضہ سے بالا دستی حاصل کی جا سکتی ہے، اسی طرح جو قومیں خلاء میں خاص جگہوں پر قبضہ کر لیں گی وہ خلائی دوڑ میں بالا دستی حاصل کر لیں گی۔ چنانچہ میک کنڈر کے نظریہ کی روشنی میں خلائی بالادستی کے لئے تیاری کی جا رہی ہے۔ پس یہ نظریات محض دیوانوں کی بڑ نہیں ہیں بلکہ بہت دور رس اثرات رکھنے والے ہیں۔ ترقی یافتہ قومیں اپنی طویل المدتی پالیسیاں بناتے ہوئے ایسے نظریات کو مدنظر رکھتی ہیں۔

مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو ”یورپ کا مسئلہ جرمنی ہے“ ۔ کئی صدیوں سے یورپ اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکا اور نہ ہی اس کا مستقبل قریب میں کوئی امکان ہے۔

اگر یورپ کا نقشہ دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ فرانس سے لے کر روس تک قوس بناتا ایک میدان بچھا ہوا ہے۔ اس میدان کو شمالی یورپی میدان کہتے ہیں۔ اس میدان میں کوئی ناقابل عبور رکاوٹ نہیں۔ نہ وسیع برفانی میدان ہیں، نہ دشوار گزر جنگل نہ ہی بلند و بالا پہاڑی سلسلے۔ یعنی عسکری نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو کوئی فوج فرانس سے بلا روک ٹوک روس تک جا سکتی ہے۔ اور تاریخ میں ایسا کئی مرتبہ ہو چکا ہے۔ نپولین سے ہٹلر تک متعدد فوجیں اسی میدان کو عبور کرتے ہوئے جرمنی اور روس پر حملہ آور ہوئیں۔

جرمنی اس میدان کے عین وسط میں واقع ہے! اس بناء پر جرمنی کو بہت سے فوائد بھی حاصل ہیں، جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے، لیکن دوسری طرف جرمنی مسلسل خوف کی حالت میں بھی رہتا ہے۔ کیونکہ اس پر مشرق و مغرب دونوں طرف سے حملہ ہو تا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی جب اپنے قریب کسی طاقت کو ابھرتا دیکھتا ہے تو حفظ ما تقدم کے طور پر جنگ شروع کر دیتا ہے کیونکہ اس کے لئے بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا ممکن نہیں۔

چونکہ شمالی یورپی میدان فوجوں کی آماجگاہ رہا ہے اس لئے روس کے لئے یہ سوال بہت اہم ہے کہ کسی بھی مغربی فوجی قوت کو روکنے کے لئے اس میدان میں سب سے موزوں جگہ کون سی ہے؟ جرمنی سے مشرق میں ماسکو تک ایک جگہ پر، جو کہ پولینڈ میں واقع ہے، کارپیتھی پہاڑی سلسلہ اس میدان کو کاٹ کر 500 کلومیٹر چوڑائی تک محدود کر دیتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جو عسکری لحاظ سے روس کے لئے سب سے اہم ہے۔ اور جرمنی کے لئے بھی۔ روس کا مفاد یہ ہے کہ یہ جگہ اس کے زیر تسلط رہے تاکہ وہ مغرب سے کسی بھی حملہ آور کو یہاں روک سکے۔

اور ایسا تاریخ کی روشنی میں اس کا بالکل جائز خوف ہے کیونکہ سویڈن، فرانس، جرمنی وغیرہ اس جانب سے متعدد بار روس پر حملہ کر چکے ہیں۔ لیکن مغرب کا مفاد یہ ہے کہ یہ جگہ اس کے قبضہ میں رہے تاکہ ممکنہ طور پر روس کی یورپ کی طرف پیش قدمی کو یہاں روکا جا سکے۔ چنانچہ روس بھی پولینڈ اور جرمنی وغیرہ پر حملے کر چکا ہے۔ 2021 کے آغاز میں پولینڈ نے بڑے وسیع پیمانے پر فوجی مشقیں کیں جن کا ایک مقصد یہ دیکھنا تھا کہ اگر روس پولینڈ پر حملہ کر دے تو کیا ہو گا۔ مشقوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ روسی افواج محض پانچ دن میں وارسا پہنچ گئیں اور پولینڈ کا جدید نیٹو اسلحہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ پولینڈ کی سرحد سے برلن محض 90 کلومیٹر ہے۔ چنانچہ جرمنی کا مفاد یہ ہے کہ روس کو اپنے سے جس حد تک ممکن ہو دور رکھے اور بیچ میں دیگر ممالک ہوں۔

روس اور جرمنی کی چکی میں پسنے والے مشرقی یورپی ممالک ہیں۔ بحر بالٹک سے بالقان تک ان ممالک کی ایک لڑی ہے جن میں سے قریباً ہر ملک ہاتھیوں کی اس لڑائی میں روندا جا چکا ہے۔ بعض تو متعدد بار۔ یہ ممالک کارپیتھی پہاڑی سلسلہ پر واقع ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے روس کسی صورت کارپیتھی پہاڑوں کے مشرق میں کوئی قابل ذکر فوجی طاقت برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کا ایک مظہر یوکرائن کا مسئلہ ہے۔ مغربی ممالک یوکرائن میں اپوزیشن کی حمایت کر رہے ہیں تاکہ یوکرائن پر مغربی تسلط قائم ہو جائے۔

اور روسی اثر کو مشرق کی جانب مزید دھکیل دیا جائے۔ یہ بات روس کے بنیادی قومی مفاد کے خلاف ہے۔ چنانچہ روس نے کسی بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے یوکرائن میں کریمیا پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہی کہانی اب بیلا روس میں دہرائی جا رہی ہے۔ یہاں بھی مغربی ممالک اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں جبکہ روس کسی قیمت پر یہ بات برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ بیلا روس ماسکو سے محض 450 کلومیٹر دور واقع ہے اور راستہ میں صاف میدان۔

مغرب جس قدر روس پر دباؤ بڑھائے گا اور روس اور جرمنی اپنے اپنے ملکی مفاد پر جس قدر زور دیتے جائیں گے، اسی قدر یورپی مسئلہ اجاگر ہوتا جائے گا۔ مشرقی یورپی ممالک بار بار کے تلخ تجربات کی روشنی میں مجبور ہیں کہ برطانیہ اور امریکہ کی طرف دیکھیں۔ ان کا سرخیل پولینڈ ہے جو کہ تاریخی تجربات کی روشنی میں سب سے زیادہ خوف کا شکار ہے۔ چنانچہ ان ممالک، خصوصاً پولینڈ، کا آئندہ سالوں میں برطانیہ اور امریکہ کی جانب جھکاؤ بڑھے گا۔ یاد رہے کہ جرمنی کے بعض تاریخی حصے اس وقت پولینڈ میں شامل ہیں۔ اور پولینڈ کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ جرمنی کسی وقت ان پر حق جتائے گا۔

اس وقت جو یورپی یونین میں امن و شانتی پائی جاتی ہے، اس کی بنیاد یہ ہے کہ جرمنی محفوظ ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد سے جرمنی کی یہ کوشش رہی ہے کہ دیگر ممالک کے ساتھ اتنے وسیع اور گہرے تجارتی تعلقات بنا لئے جائیں کہ اپنے مالی مفادات کی خاطر وہ جرمنی کے ساتھ امن سے رہیں۔ چنانچہ جرمنی نے بالخصوص فرانس کو اپنے ساتھ تجارتی اور سیاسی طور پر منسلک کر لیا ہے۔ یوں اس کی مغربی سرحد محفوظ ہے۔ روس کے ساتھ بھی جرمنی کے گہرے تجارتی مراسم قائم ہیں۔

سابق چانسلر شروڈر روس کی تیل و گیس کی سب سے بڑی کمپنی، جو کہ یہ پائپ لائن بھی تعمیر کر رہی ہے، کے لئے کام کر رہے ہیں۔ تاہم جس دن جرمنی کو اپنے قریب خطرہ محسوس ہوا، اس کے تیور بدلنا شروع ہو جائیں گے۔ یہ بات مگر سب کو معلوم ہے۔ چنانچہ یورپی ممالک کی قومی یاداشت میں جرمنی سے موجود خوف نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ کئی مرتبہ اس کا کھل کر اظہار کیا جا چکا ہے۔

پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ جرمنی کا جغرافیہ ایسا ہے کہ یہ یورپ میں طاقت ور ترین ملک بن کر رہتا ہے۔ مگر توازن کا فقدان بھی ایک مسئلہ ہے اور یورپی یونین میں یہ توازن بگڑ رہا ہے۔ برطانیہ کے نکل جانے کے بعد سے بقیہ یونین میں جرمنی کا رسوخ مزید بڑھ گیا ہے۔ یہ عدم توازن ایک حد تک ہی جاری رہ سکتا ہے۔ چنانچہ راقم کے نزدیک یورپی یونین کو دو میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہے۔ یا تو یہ جرمنی کی بالا دستی قبول کر کے یونائیٹڈ سٹیٹس آف یورپ بن جائے، جو کہ خلاف فطرت بات ہے اور کسی دوسری قوم کو قبول نہیں ہو گی، اور یا پھر اس کا انجام اس کا اختتام ہے۔

برطانیہ

برطانیہ یورپ کے کنارے پر واقع ایک جزیرہ ہے۔ کھلے سمندروں تک رسائی، جنگلات کی موجودگی کی وجہ سے بحری تجارت و بحری جنگوں کا تجربہ رکھنے والی آبادی موجود رہی ہے۔ یورپ میں ہونے والے معاملات کا برطانیہ پر اس وقت تک براہ راست اثر نہیں پڑتا جب تک کوئی ایک طاقت یورپ پر حاوی نہ ہو جائے۔ گزشتہ صدیوں میں جب بھی سپین، فرانس یا جرمنی یورپ پر حاوی ہوئے، انجام کار برطانیہ پر بھی حملہ آور ہوئے۔ اسی لئے برطانیہ کی پالیسی یہ ہے کہ یورپ سے الگ تھلگ رہے مگر یورپی ممالک میں توازن برقرار رکھے اور کسی ایک ملک کو یورپ پر حاوی نہ ہونے دے۔ جب بھی اس کا خطرہ پیدا ہو، برطانیہ یورپی جنگوں میں ملوث ہو جاتا ہے۔

اس سے پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ سویز اور جبرالٹر کے ذریعہ برطانیہ نصف یورپ کی بحری طاقت کو جب چاہے بحر متوسط میں محدود کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بقیہ نصف یورپ کی طاقت کو محدود کرنے کی صلاحیت بھی برطانیہ کے پاس ہے۔ اس کی وجہ شمالی بحر اوقیانوس میں موجود GIUK رخنہ ہے۔ یہ برطانیہ کے قریب واقع وہ جگہ ہے جس سے گزرے بغیر روس اور جرمنی سمیت کسی بھی شمالی یورپی ملک کے بحری جہاز کھلے سمندروں تک نہیں جا سکتے ہیں۔ برطانیہ بہت کم خرچ پر آسانی سے اس کی نگرانی کر سکتا اور بوقت ضرورت جہازوں کو روک سکتا ہے۔

یورپی یونین سے انخلاء یعنی بریگزٹ درحقیقت برطانوی قومی مفادات کا ایک اظہار ہے جو روز اول سے نوشتہ دیوار تھا۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ بریگزٹ کیوں ہوا، حیرت کی بات یہ ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کا ممبر کیوں بنا تھا۔ بریگزٹ کی وجہ یورپ سے الگ رہنے کی پالیسی ہے۔ برطانیہ بخوبی جانتا ہے کہ جلد یا بدیر یورپ پر جرمنی کی بالا دستی قائم ہو کر رہنی ہے۔ فرانس کے مقابل پر مگر برطانیہ ایک حد تک یورپ سے الگ رہنے کی عیاشی کا متحمل ہے۔ چنانچہ آئندہ سالوں میں برطانیہ کی پالیسیاں مشرقی یورپ کی طرفدار ہوں گی۔ اس کا امریکہ کی طرف جھکاؤ مزید بڑھے گا۔ جرمنی کے مقابل پر توازن قائم کرنے کے لئے دیگر یورپی ممالک کے ساتھ معاہدے کرے گا۔

لیکن قریباً ایک صدی سے جاری برطانیہ کی توڑ پھوڑ کا عمل ابھی رکا نہیں۔ اندرونی طور پر برطانیہ عملاً انگلستان ہے۔ اور انگلستان، راقم الحروف کے خیال میں، برطانوی قومی اتحاد کا سنہری موقع گزشتہ صدی میں ضائع کر چکا ہے۔ سکاٹ لینڈ میں آزادی کی تحریک اس کا محض ایک اظہار ہے۔ انگلستان ہر ممکن کوشش کرے گا کہ سکاٹ لینڈ آزاد نہ ہو تاکہ برطانیہ کو شمالی یورپ پر حاصل تزویراتی برتری قائم رہے۔ لیکن راقم کے خیال میں سکاٹ لینڈ لازماً آزاد ہو کر رہے گا۔

اس وقت بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ صدی چین کی صدی ہے۔ بعض لوگ سمجھ رہے ہیں کہ چین امریکہ کے مقابل پر بڑی طاقت بن کا ابھرے گا۔ بعض کا خیال ہے کہ چین شاید امریکہ کو اپنی ایک ارب آبادی کے بل بوتے پر پیچھے چھوڑ دے گا۔ تاہم یہ سب کچھ ناممکن ہے! کیونکہ چین کے دو بڑے جغرافیائی مسائل ہیں جو اس کی تقدیر کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

اول یہ کہ چین کی آب و ہوا اس کی آبادی کو مشرق میں رہنے پر مجبور کرتی ہے جہاں زراعت ممکن ہے۔ اسی لئے چین کی 94 فیصد آبادی ان علاقوں میں رہائش پذیر ہے جو کہ نقشہ میں سرخ رنگ میں دکھائے گئے ہیں۔ جبکہ مغرب میں نصف سے زائد ملک میں محض 6 فیصد آبادی ہے۔ چین کے جنوب میں کوہ ہمالیہ اس کے اثر کو جنوب میں جانے سے روکتا ہے تو شمال میں سائبیریا کے برفانی علاقے اسے روس سے الگ کرتے ہیں۔ دوسرے چین سمندر کی طرف بھی پیش قدمی نہیں کر سکتا۔

جاپان سے تائیوان تک چین کے سامنے مسلسل جزائر کی ایک لڑی موجود ہے جو کہ جاپان کے قبضہ میں ہے۔ پھر تائیوان سے فلپائن تک اسی طرح جزائر موجود ہیں۔ چنانچہ جاپان اور تائیوان اور فلپائن مل کر، بالفاظ دیگر امریکہ، جب چاہے چین کا ناطقہ بند کر سکتے ہیں۔ اگر کسی حیلہ سے چین اس حصار کو توڑ بھی لے تو آگے بحر الکاہل میں موجود جزائر کی دوسری لڑی ہے جو امریکہ کے براہ راست قبضہ میں ہے۔ چنانچہ چین عالمی بحری طاقت نہیں بن سکتا نہ ہی کبھی ماضی میں بحری طاقت رہا ہے۔

بحری طاقت بننے کے لئے جو تجربہ درکار ہے وہ بھی چین کے پاس نہیں۔ امریکہ کے مقابل پر چین دو مزید علاقائی طاقتوں، یعنی جاپان اور ہندوستان، کے درمیان گھرا ہوا بھی ہے۔ چنانچہ راقم الحروف کے نزدیک آئندہ تیس سال میں چین اسی طرح ایک علاقائی طاقت تک محدود ہو چکا ہو گا جس طرح اس سے پہلے جاپان 1970 اور 1980 کی دہائی میں ایک عظیم معاشی طاقت کے طور پر اٹھا تھا مگر اب اپنی اصلیت کی طرف واپس لوٹ چکا ہے۔

امریکہ جو اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور کہلاتا ہے تو اس کی کیا بنیاد ہے؟ محض بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل تک رسائی کافی نہیں۔ وہ تو میکسیکو کو بھی حاصل ہے پھر امریکہ ہی کیوں سپر پاور بنا؟ سمندروں تک رسائی عالمی طاقت ہونے کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اندرونی طور پر امریکہ میں جہاز رانی کے قابل دریاؤں کی لمبائی باقی ساری دنیا کے دریاؤں کی مجموعی لمبائی سے بھی زیادہ ہے! پس امریکہ میں زرعی یا صنعتی مال کی نقل و حرکت کا ایک وسیع قدرتی نظام موجود ہے۔

اندرونی تجارت اور مختلف شہروں کا آپس میں رابطہ نہایت آسان اور تجارت کو فروغ دینے والا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ امریکہ کا وسطی علاقہ زرعی زمین کا دنیا میں سب سے بڑا اور زرخیز ترین ٹکڑا ہے جو بے شمار زرعی پیداوار دے سکتا ہے۔ دریائے مسیسیپی کا یہ علاقہ ایک سو چالیس ارب ایکڑ زرعی زمین پر مشتمل ہے! اس کے مقابل پر مثلاً ہندوستان کے دریائے گنگا کا زرعی علاقہ، جو کہ ہمالیہ اور دہلی سے برما تک ممتد ہے، محض پینتالیس ارب ایکڑ ہے۔

تیسرا پہلو یہ ہے کہ دریائے مسیسیپی کا دریائی نظام ایک مسلسل اور مربوط نظام ہے جس میں سب دریا ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ چنانچہ پیداوار کو دریا تک پہنچانا اور پھر بحری جہاز کے ذریعہ منڈی میں بھیجنا نہایت آسان ہے۔ نیز ایک دوسرے سے جڑے ہونے کی وجہ سے یہ تمام علاقہ ایک ہی معاشی نظام میں منسلک ہے اور اس میں اتحاد پایا جاتا ہے۔

American Museum of Natural History

مشرق و مغرب میں ہزاروں کلومیٹر پر پھیلے بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل امریکہ کو یورپ و ایشیاء سے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ جنوب میں میکسیکو کی سرحد پر صحراء ہے اور شمال میں کینیڈا سے جھیلوں، جنگلوں اور برفانی میدانوں کا ایک وسیع سلسلہ محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ پس امریکہ کو حقیقی خطرہ اس وقت لاحق ہو گا جب اس کی جنوبی اور مغربی ریاستوں مثلاً ٹیکساس اور کیلیفورنیا کی میکسیکن نژاد آبادی سر اٹھائے گی اور آزادی کا مطالبہ کرے گی۔ لیکن اس میں ابھی وقت لگے گا۔

قرآن کریم کی قوموں کی تقدیر کے متعلق تعلیم

کیا یہ سب کچھ اسی طرح ہونا ضروری ہے؟ کیا واقعی قوموں کی کوئی تقدیر ہے؟ کیا یہ تقدیر بدلی جا سکتی ہے؟ قرآن کریم اس بارہ میں کیا رہنمائی فرماتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس ضمن میں مختلف رہنماء اصول بیان فرمائے ہیں۔ یہ اصول ایک طرف اٹل تقدیر کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہیں تو دوسری طرف مشکلات کا حل بھی بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے چند اہم اصول یہ ہیں :

1۔ اور ہر ایک امت کے لئے ایک گھڑی مقرر ہے۔ پس جب وہ گھڑی آ جائے تو نہ لمحہ بھر پہلے ہوتی ہے نہ پیچھے (الاعراف 34) ۔ ہر قوم کا ایک آخری ممکنہ وقت مقرر ہے۔ جس طرح انسان کتنا ہی صحت مند یا نیک کیوں نہ ہو اسے آخر ایک دن مرنا ہے۔ اسی طرح قومیں اپنی آخری حد سے آگے نہیں جا سکتیں خواہ کیسی ہی نیک یا طاقتور کیوں نہ ہوں۔ اگر کوئی قوم ظلم و ستم سے کام لے تو جس طرح انسان بیماری یا حادثہ سے نوجوانی میں بھی فوت ہو سکتا ہے اسی طرح قوم بھی وقت سے پہلے تباہ ہو سکتی ہے۔

2۔ اور اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ دور نہ کرے تو زمین پر فساد پھیل جائے (البقرۃ 251 ) ۔ بعض قومیں ظلم اور فساد پھیلاتی ہیں تو بعض دوسری قوموں کے ذریعہ ان کو بدل دیا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب امریکہ کے قدیم مقامی لوگ زندہ انسانوں کا دھڑکتا دل نکال کر دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والے مظالم کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی جگہ یورپی اقوام کو بسا دیا گیا۔ ایسا کرنا اس ظلم کو مٹانے کے لئے ضروری تھا۔

3۔ اور جو لوگوں کے لئے نفع رساں چیز ہے، تو وہ زمین پر رہتی ہے (الرعد 17) ۔ جو بھی انسانیت کی خدمت کرے گا، وہ باقی رکھا جائے گا۔ میڈیکل سائنس ہو یا خلائی فتوحات، انٹرنیٹ کی آسانی ہو یا موبائل کی سہولت۔ گاڑی، جہاز، چھاپہ خانہ فزکس، کیمسٹری، حساب، ہر میدان میں یورپی اقوام نے لازوال اور بے مثل کام کیا ہے۔ کسی اور قوم کو گزشتہ پانچ سو سال میں اس کا ہزارواں حصہ بھی انسانیت کی خدمت کی توفیق نہیں ملی۔ چنانچہ جب تک مغرب انسانیت کو فائدہ پہنچاتا رہے گا باقی رہے گا۔ خواہ تیسری جنگ عظیم ہی کیوں نہ ہو جائے۔

4۔ ہم نے تمہیں مرد و عورت سے تخلیق کیا اور تمہیں قوموں اور قبائل میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‌ۚ (الحجرات 13) ۔ انسانیت ہمیشہ اقوام اور نسلوں میں تقسیم رہے گی۔ جس کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ قوموں کی امنگیں، خوف، تاریخ، رقابت، مقابلہ، بھی باقی رہیں گے۔

5۔ اے چونٹیوں، اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کا لشکر تمہیں روند دیں اور وہ جانتے نہ ہوں (النمل 18) ۔ خواہ کوئی قوم کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ غیر شعوری طور پر بھی اس پر ظلم نہیں ہونا چاہیے نہ ہی اس کی امنگوں کا گلا گھوٹنا چاہیے۔ اس وقت سپین، فرانس، برطانیہ وغیرہ میں جو آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں ان کی وجہ یہی ہے کہ چھوٹی اقوام کا خیال نہیں رکھا گیا۔

6۔ انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہمارے سفر لمبے کر دے۔ اور انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا چنانچہ ہم نے ان کو کہانیاں بنا دیا اور ان کو پیس کر رکھ دیا (سباء 19) ۔ شہروں اور قصبوں میں لمبے فاصلے تفریق اور عدم اتحاد کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ قومی اتحاد کے لئے آپس کے روابط اور تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر آبادی ضروری ہے۔

قوموں کے ایک دوسرے پر حملے اور ایک دوسرے سے خوف کا حل قرآن نے یوں بیان فرمایا ہے۔ ڈر مت۔ دو جھگڑنے والے فریق ہیں جن میں سے کچھ نے دوسروں پر زیادتی کی ہے۔ پس ہمارے درمیان فیصلہ کر۔ ہم پر سختی نہ کر اور ہمیں سیدھے راستہ کی طرف رہنمائی کر (ص 22) ۔ پھر فرمایا: اور کسی قوم کی دشمنی بھی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم نا انصافی کرو (المائدہ 8) ۔ نیز فرمایا : نیکی اور تقویٰ کی باتوں پر تعاون کرو اور گناہ اور دشمنی کی باتوں پر تعاون مت کرو (المائدہ 2) ۔

پھر فرمایا: اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کروا دو۔ پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے کے خلاف لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ جائے۔ اگر وہ واپس لوٹ جائے تو ان دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کروا دو اور انصاف کرو (الحجرات 9) ۔ یعنی ہر قسم کے جھگڑوں کا فیصلہ انصاف کے مطابق کیا جائے۔ جو فریق ظلم و زیادتی کرے، اس کے خلاف باقی سب مل کر کارروائی کریں مگر صرف اتنی کہ جو اس کو ظلم سے روک دے۔ الٹا اس پر ظلم نہ کیا جائے۔ تمام بین الاقوامی معاہدے باہمی فائدہ پر مبنی ہوں، کوئی معاہدہ کسی تیسرے کے خلاف نہ ہو۔ بالخصوص کوئی معاہدہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے نہ ہو۔

اگر درحقیقت اس قرآنی تعلیم پر عمل ہو اور ایک بین الاقوامی ادارہ اس بات کا ضامن ہو کہ کسی کو کسی پر ظلم کی اجازت نہ دی جائے گی تو پھر نہ پولینڈ کو روس سے ڈرنے کی ضرورت رہے، نہ روس کو جرمنی سے حملے کا خوف۔ مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ قوم تو ایک طرف رہی، انفرادی طور پر بھی جس کو طاقت ملتی ہے وہ چاہتا ہے کہ اپنے مخالف کو کلیتاً نیست و نابود کر دے۔ اگر کسی سے زیادتی ہوئی ہو تو پھر تو ”نسلوں کو سبق سکھانے“ سے نیچے بات کرنا توہین سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں دنیا پر انصاف کیسے قائم ہو؟ ایں خیال است و محال است و جنوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments