الیکٹرانک وننگ میکنزم!


آج 13 ستمبر کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوگا جس سے صدر مملکت کے ایک روایتی سے خطاب کے ذریعے نئے پارلیمانی سال کی شروعات ہوں گی۔ اسمبلی قواعد کے مطابق صدر مملکت کے خطاب کے لئے طلب کیے گئے اجلاس کے ایجنڈے میں دیگر امور شامل نہیں کیے جا سکتے لیکن ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت اسی مشترکہ اجلاس میں دو یا پھر تین قوانین منظور کرانے کے لئے پر عزم ہے ایک انتخابی اصلاحات کا بل جس میں ہر سطح کے انتخابات میں رائے شماری کے لئے ای وی ایم کے استعمال کو یقینی بنانا شامل ہے الیکٹریکل ووٹنگ مشین بروئے کار لانے میں حکومتی جوش و خروش اتنا پھیلا ہوا ہے کہ اس میں بصیرت اور ہوشمندی ہر لمحے کم ہوتی چلی جا رہی ہے حکومت اس مشین کی ٹیکنیک، ڈیٹا پراسیسنگ، کارکردگی اور شفافیت نیز استعمال کی ہمہ گیر اہلیت جیسے تمام اہم سنجیدہ سوالات پر توجہ دینے کے لئے قطعی طور تیار نہیں ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سوالوں کے اطمینان بخش جواب دینے کے برعکس برادر محترم شبلی فراز۔ چراغ پا ہو رہے تھے لگتا ہے کہ وہ کسی نادیدہ ”محاصرہ“ میں ہیں اور اس سے نکلنے کے لئے آمادہ بھی نہیں۔

ملک کی تمام سیاسی جماعتیں جو حکومت میں شریک نہیں اس مشین کے استعمال پر تشویشناک تحفظات ظاہر کر چکی ہیں پیپلز پارٹی بھی جو اس عہد ٍ ستم کیش میں سندھ کی حکمرانی پر اکتفا کیے ہوئے ہے ای وی ایم رد کر چکی ہے۔ ای وی ایم پر اپنے قانونی اعتراضات اور تحفظات کی ایک مربوط فہرست الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سامنے آئی ہے۔ 37 نکاتی اعتراضات پر مشتمل یہ تحریر پارلیمنٹ کی کمیٹی اور دیگر متعلقہ مجاز حکام کے اجلاس میں پیش کی جا چکی ہے۔

11۔ ستمبر کو ایسے ہی ایک اجلاس میں جبکہ جناب بابر اعوان حکومت کی جانب الیکشن کمیشن کے تحریری اعتراضات کا جواب دے رہے تھے تو وفاقی وزیر جناب اعظم سواتی نے اپنی خود ساختہ ”فکری دانش مندانہ عظمت“ کے خود پرستانہ رویے کا اظہار کرنا شروع کر دیا انہوں نے اچانک اجلاس میں تقریر شروع کر دی اور پھر ای وی ایم کے استعمال پر متعلقہ اسٹیک ہولڈر کے اعتراضات پر گفتگو فرمانے لگے انہوں نے بطور خاص الیکشن کمیشن کو ہدف تضحیک بنایا اسے جلا دینے کا نعرہ مستانہ بلند فرمایا کیونکہ ان کے بقول ”اس ادارے نے ہمارے سیاسی مخالفین سے رقم لے کر ہماری حکومت کی مخالفت شروع کر رکھی ہے“ تاہم الیکشن کمیشن پر سنگباری کرتے وقت وہ بھول گئے کہ اسی ادارے نے پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کو پچھلے پانچ سال سے مسلسل التوا میں رکھا ہوا ہے تو کیا ادارہ پی ٹی آئی کا زرخرید ہو چکا ہے!

ای وی ایم پر پہلا اعتراض ووٹ کو خفیہ نہ رکھنے کے حوالے سے سامنے آیا ہے پولنگ بوتھ میں ووٹر کو موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی مبادا کہ ووٹر اپنے ووٹ کی تصویر بنا لے اور پھر اگر چاہے تو اس کے عوض مفاد بٹورے۔ آئین کی دفعہ 226 رائے دہی کو مکمل راز داری میں رکھنے کا حکم لگاتی ہے چند مستثنیات کے ساتھ۔ مگر ای وی ایم (جسے اب الیکٹرونیکلی وننگ میکنزم کہنا مناسب ہوگا) اس آئینی شق کے بر عکس بذریعہ مشین ووٹر کو ووٹ استعمال کیے جانے کے بعد باقاعدہ رسید دے گی جس میں اس کا نام شناخت اور یہ بھی بتایا گیا ہوگا کہ اس نے کس امیدوار یا جماعت کو ووٹ دیا ہے ووٹر یہ پرچی یا رسید لے کر پولنگ اسٹیشن سے باہر نکل جائے گا۔ ممکن ہے وہ اس رسید کے عوض مفاد حاصل کرے لیکن یہ بھی ممکن ہے یہی رسید اس کے لیے وبال جان بن جائے کہ مخالفین اس رسید پر اسے ووٹ نہ دینے پر نقصان پہنچائیں۔

یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ ووٹ ڈالنے کے طریقہ کار میں بنیادی تبدیلی کو جس کا عزم ای وی ایم کے حوالے سے کیا جا رہا ہے۔ آئین کی دفعہ 226 میں ترمیم کے بغیر محض انتخابی اصلاحات کے ایک قانون کے ذریعے رائج کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا حکومت 13۔ ستمبر کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں صدر مملکت کے خطاب کے بعد قانون سازی کر کے آئین اور قواعد کی خلاف ورزی نہیں کرے گی؟ پارلیمان میں اپنی عددی حیثیت کے مطابق حکومت قانون سازی (کسی دوسرے موقع پر) تو کر سکتی ہے لیکن آئینی ترمیم کے لئے تو اس کے پاس مطلوب عددی قوت موجود نہیں۔ کیا حکومت اپنے عجلت آمیز اقدام سے ملک میں نیا آئینی بحران پیدا کرنے جا رہی ہے؟ شعوری طور پر یا محض نا اہلیت کے سبب سہی؟

کہا جا رہا ہے کہ مذکورہ مشین انٹرنیٹ سے منسلک نہیں ہوگی لہذا اس کے ہیک کیے جانے کا خدشہ نہیں۔ درست اگر انٹرنیٹ کے نظام سے مشین منسلک نہیں تو پھر مندرجہ ذیل سوالات کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔

الف۔ مشین ووٹر کی شناخت کیسے کرے گی

، قومی شناختی کارڈ کا نمبر درج کرنے کے بعد اگر بائیو میٹرکس کے ذریعے تصدیق نہیں کی جائے گی کہ رائے دہندہ اصلی ہے یا نقلی؟ تو کوئی بھی شخص بہ آسانی کسی دوسرے کا شناختی کارڈ یا نمبر لے کر مشین کے ذریعے جعلی ووٹ ڈال سکے گا۔ لہذا جعلی رائے دہی روکنے کے لیے بائیو میٹرکس ناگزیر ٹھہری، تو پھر اسے انٹرنیٹ اور نادرا کے ریکارڈ تک رسائی بھی دینی ہوگی۔ وگرنہ سارا بندوبست ناکارہ ثابت ہوگا، اور اگر نادرا کے سسٹم سے مربوط کیا جائے گا الیکشن کمیشن کے علی الرغم نادرا کا انتخابی عمل میں اہم کردار ہوگا جو ای سی کے برعکس حکومت کا ایک محکمہ ہے۔ اور چونکہ ووٹ کے استعمال کے متعلق سب سے پہلے نادرا کے سسٹم کو آگہی ملے گی۔ تو کیا ضمانت ہے کہ نادرا حاصل شدہ معلومات کو کسی ردو بدل کے بغیر الیکشن کیشن کو ارسال کردے گا؟ جبکہ وہ مانتے ہیں کہ آر ٹی ایس ناکارہ نہیں ہوا نہیں تھا بلکہ اسے کسی نے بند کر دیا تھا۔ اس اعتراف سے انتخابی نتائج بدلنے والے عناصر کی موجودگی کا مسلمہ علم حاصل ہوتا ہے۔

معلوم ہوا کہ ہمارے انتخابی نظام میں رائے دہی کے اظہار کے طریقہ کار میں بڑی خرابی نہیں البتہ من پسند نتائج کے طلب گار حلقے اس کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں دوسری نوعیت کی واردات کے ذریعے۔ انتخاب سے پہلے اور بعد میں بھی۔ تو مسئلہ رائے دہی کے طریقہ کار بدلنے کی بجائے ان عوامل عناصر اور طاقتوروں کے کردار و رسوخ اور سوچ کو بدلنے کا ہے جو جمہوری عمل کو ایک مسلط شدہ نظام بنا دینے کے ہنر میں یدطولیٰ رکھتے ہیں

مشین انٹرنیٹ سے منسلک نہ ہو تو نتائج کس طرح یکجا ہوں گے؟ کیا مذکورہ مشین محض کیلکولیٹر ہے جو وقت مقررہ پر سارے اعداد و شمار جمع کر کے پرنٹ کردے گا؟ یا پھر پولنگ کے اختتام پر ہر مشین کا ڈیٹا ریٹرننگ افسر کے پاس جمع ہوگا جہاں سے متعلقہ امیدواروں یا پھر الیکشن کمیشن کو ارسال کیا جائے گا؟ ایسا ہے تو یہ عمل برق رفتار (الیکٹرانک) طرز عمل اور شفافیت کے سراسر منافی ہے چنانچہ حکومت کی دلیل کے برعکس اس کی انٹرنیٹ سے وابستگی ضرور ہونی چاہیے۔ گو کہ اس میں بھی چند نقائص موجود ہیں مثلاً ووٹر کو ملنے والی رسید (آئین کے مطابق تو نہیں دینی چاہیے ) لیکن رسید کی عدم موجودگی میں انتخابی عذرداریوں کے مراحل میں وہ کون سی شے ثبوت ہو جسے عدالتی عمل میں جانچا جائے گا؟ جبکہ کاغذی ووٹ ( بیلٹ پیپرز) کہیں بھی کسی کے پاس نہیں ہوں گے؟ اس مشین کے رواج سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا عمل بھی ناممکن ہو جائے گا تو دھاندلی کون اور کیسے ثابت کرسکے گا؟

مذکورہ انتخابی اصلاحات بل میں وہ تاریخی جڑت موجود نہیں جو معاشرتی یکجہتی ممکن بناتی ہے بلکہ اس میں خواہشات اور معروضی حقائق کے بیچ شدید ٹکراؤ اور تضاد پایا جاتا ہے ایسا تضاد جو اس قانون کی تخلیق کو تولیدی طور پر موجود ہے اور وہی اسے ناکام ثابت کردے گا اگر تضاد اور ٹکراؤ کو قانون سازی کے دوران ختم یا حل نہ کیا گیا ( جس کا امکان نظر نہیں آ رہا) تو بعید نہیں کہ تضادات کا ٹکراؤ عوامی اور عدالتی میدان میں سامنے آئے گا

بلوچستان کے بیشتر اندرونی علاقوں میں بجلی دستیاب نہیں نہ ہی انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ کسی بھی ترکیب سے مذکورہ برقی مشین بلوچستان کے بہت سے حلقوں میں کارآمد نہیں ہوگی گزشتہ انتخابات میں بالخصوص مکران، آواران، خاران جیسے اضلاع کے پولنگ سٹیشنوں پر فوج کی نگرانی میں بھی ہولنگ سٹاف پہنچا تھا نہ ساز و سامان۔ آواران کے ایک حلقے میں جہاں 225 پولنگ اسٹیشن تھے وہاں محض 25 پر عملہ پہنچا لیکن ووٹر نہیں آئے مجوزہ نئے نظام میں جسے رواں و فعال بنانے کے لئے ووٹرز کا جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے آگاہ ہونا لازمی ہے وہاں بجلی اور انٹرنیٹ سروس کی بحالی اشد ضروری ہوگی جبکہ تشدد پسند عناصر کے لئے بہت آسان ہوگا کہ وہ بجلی کی ترسیل اور انٹرنیٹ ٹاورز (اگر موجود ہوں تو) کو نقصان پہنچا سکیں تو پورا انتخابی عمل ہی معطل ہو سکتا ہے۔ لہذا جدت کاری کی عجلت کو چھوڑیے انتخاب جیتنے کے آزمودہ طریق پر ہی انحصار کریں عوام اور ملکی خزانے پر منفی اثرات نہ ڈالیں تو بہتر ہوگا

ای وی ایم کے مشاہدے اور جائزے کے لئے سینٹ کمیٹی کے روبرو مشین رکھی گئی تو بنایا گیا انتخابات کے لئے مطلوب مشینوں کی خریداری کے لئے ٹینڈر ہوں گے مختلف کمپنیاں اپنی اپنی ساختہ مشینوں کے نرخ اور معیار کی تفصیل دیں گی چنانچہ سوال یہ اٹھا کہ جو مشین معائنے، جائزے اور مشاہدے کے لئے ارکان کمیٹی کو دکھائی جا رہی ہے یہ لازماً وہ مشین نہیں جسے بروئے کار لایا جائے گا تو سینیٹرز کا معقول استدلال تھا کہ پھر وہ موجودہ مشین کا معائنہ کیوں کریں؟ چنانچہ کمیٹی کے ارکان نے مزید کارروائی جاری رکھنے سے معذوری اختیار کر لی اس موقع پر بھی محاصرہ میں آئے ہوئے جناب شبلی فراز نے ارکان سے تلخ کلامی کا مظاہرہ کیا اب جبکہ حکومت عجلت میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات سمیت میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ای ووٹ کا حق دینے کے بل عددی قوت کے بل بوتے منظور کرانے پر تلی ہے تو حزب اختلاف کے پاس ان بلوں میں ترامیم و اصلاحات کی گنجائش باقی نہیں رہی وہ حکومتی حلقے کے متعدد ارکان کے تعاون کے بغیر اس قانون سازی کو روک سکیں تو پھر اس کارروائی سے الگ رہنے کے علاوہ کوئی چارہ رہ نہیں گیا اگر جناب بلاول بھٹو جو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت گرانے کے مدعی ہیں چاہیں تو حکومتی بینچوں پر موجود اپنے اثاثوں کو بروے کار لاکر مذکورہ بلز رد کرانے کی کوشش کر سکتے ہیں جو تحریک عدم کے مماثل عمل ہوگا لیکن شاید وہ ایسا نہ پائیں۔ قیاس غالب ہے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان اور چیف کمشنر حکومتی دباؤ اور مطالبے پر احتجاجاً مستعفی ہو کر آئینی بحران کی شدت میں مزید گہرائی پیدا کردیں۔ دریں حالات واقعات ترتیب وار جس سمت بڑھ رہے ہیں انہیں ناقابل واپسی مقام تک پہنچنے سے قبل روکنا ضروری ہے حکومت از خود دانشمندی و دور اندیشی کا مظاہرہ کرے یا اس کے سرپرست اپنا رسوخ استعمال کریں۔ ای وی ایم کے بطن سے انتخابات کا عملی انعقاد بھی دھند میں لپٹے ”سیاہ بادلوں“ کی مناسب طور پر نشاندہی کرتا ہے البتہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں جن سیاسی واقعات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے ان کو یقینی سمجھتے ہوئے جناب میاں نواز شریف نے اسی سال ملک واپسی کا اشارہ دیا ہو یا پھر مذکورہ خدشات کا ادراک کرتے ہوئے اہل رسوخ نے اپنے رویے تبدیل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہو۔ کچھ تو ہے جو خنک موسم میں بھی سیاسی درجہ حرارت بڑھنے کا احساس جگا رہا ہے۔ جبکہ حکومتی رویہ اپوزیشن کے اس الزام کو تقویت دے رہا ہے کہ حکومتی جماعت اگلے انتخابات میں شکست سے بچنے کے لیے ای وی ایم کو نئے آر ٹی ایس کی جگہ رائج کرنے جا رہی ہے۔ کیا یوں ملک کا جمہوری تاثر برقرار رہ پاے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments