آئیں غوغا تابان کے ساتھ مل کر افغانستان کی آزادی و نسائیت کے گیت گائیں


”افغان باقی، کہسار باقی“ ہمیشہ کی طرح ایک دلربا نعرہ رہا ہے۔ مگر اس نعرے کا متن اب بدل چکا ہے کیونکہ اب یہ نعرہ افغانستان کی اصل وارث یعنی عورتوں کی زبان پر ہے۔ یہ نعرہ اب ان کا ورد زبان ہے جو انسان کو پیدا کرتی ہیں اور پروان چڑھاتی ہیں۔ اور اب اس نعرے کی اور ایک خوبصورتی اور معنی ہے۔

قبضہ مکمل ہو چکا ہے۔ فیض صاحب کی آفاقی نظم کے لفظ حقیقت کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آ چکے ہیں :
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!
جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم
کوئی اترا نہ میداں میں دشمن نہ ہم
کوئی صف بن نہ پائی، نہ کوئی علم

اور اس فتح پر شاداں ہیں اندھیروں کے پالے ہوئے۔ صرف مٹی، گارے اور اینٹوں سے بنے شہر فتح ہوئے ہیں، مگر سرحدوں کے اندر اور باہر موجود ان کے تمام اہم و غیر اہم، ظاہری و باطنی طوطیان خوش نواء پورے زور و شور سے انسانوں کو فتح کرنے کی بودی منادیاں کر رہے ہیں۔ ”سادہ فاتحین“ کی سادہ تصویروں کو عیاری اور تزک و احتشام کے ساتھ میڈیا پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کے ترجمان انہیں خدا چنیدہ غیاث بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ جو فریاد رسوں کے مددگار بن کر آئے ہیں اور ”رب کی دھرتی پر رب کا نظام“ لاگو کرنے کا مکمل ارادہ رکھتے ہیں۔ فتح کے نقارے بج رہے ہیں اور شہر کی فیصلوں پر فتح کے جھنڈے لگ چکے ہیں۔ مگر برا ہو مغربی نغمہ نگار لیونارڈ کوہن کا، کہ جس کے نزدیک فتح کے جھنڈے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، جو اپنی نظم میں لکھتا ہے :

I ’ve been here before –
I know this room, I ’ve walked this floor
I used to live alone before I knew you.
I ’ve seen your flag on the marble arch
Love is not a victory march;
I ’s a cold and it‘ s a broken Hallelujah

سادہ لفظوں میں شاعر کہتا ہے کہ یہ میرا وطن تھا اور میں تم سے بہت پہلے یہاں کا باسی ہوں۔ میں اس زمین پر پیدا ہوتا رہا ہوں اور اسی زمین کی آغوش میں سماتا رہا ہوں۔ میں نے فصیل شہر پر تمہاری فتح کا پرچم اور تمہارے فوجیوں کا جلوس فتح دیکھا ہے۔ مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ محبت فصیل پر جھنڈے لگانے اور فتح کے جلوس نکالنے کا نام نہیں ہے۔ محبت فتح نہیں ہوتی کیونکہ محبت تو سرد ہے محبت تو دل توڑ کر جوڑتی ہے اور قائم رہتی ہے۔

افغانستان ایک قبضے سے دوسرے قبضے میں گیا ہے۔ طاقت اور فتح کا سفاک کھیل جاری ہے مگر افغان عوام پر قبضہ نہیں ہو سکا ہے۔ افغانستان کے غیور عوام نہایت صبر اور تحمل سے اپنی حقیقی آزادی کی شال افتخار بن رہے ہیں۔ آزادی کی یہ شال، جس پہ حریت کے طلب گاروں کے خون کے شگوفے ہیں، کہساروں کے رنگ و اوصاف ہیں اور لا پتہ ہو جانے والوں کے لئے منتظر آنکھوں کے رتجگے ہیں۔ اس شال کے تار ماؤں کے آنسوؤں اور بوڑھے باپوں، اور بے وطن ہو جانے والے خاندانوں کی آہوں سے بنے جا رہے ہیں۔ اس شال کا رنگ سرخ ہے، گہرا سرخ اور اس پہ کہساروں کی برفوں کی سفیدی اور نیلگوں جھیلوں کی نیلاہٹیں بکھری ہوئی ہیں۔ آزادی کی یہ شال اب افغانستان کی عورتوں کے سر پر آنے سے پہلے ان کے ہاتھوں میں آ کر آزادی کا علم بن چکی ہے۔

انسانیت کی معلوم و نامعلوم تاریخ کا نچوڑ یہ ہے کہ حریت پسندوں کی جدوجہد کو زندہ رکھنے کے لئے جب جب عورتیں آگے آئیں تو وہ جدو جہدیں حقیقی فتح سے ہمکنار ہوئیں۔ اور یہی کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے۔ کابل کی سڑکوں پر عورتوں نے آزادی اظہار کا نعرہ لگایا ہے۔ اور بندوق برداروں کے سامنے ان کی فتح کے جھنڈے کے آگے اپنا پرچم حریت بلند کیا ہے۔ اور یہ احتجاج افغانوں کی آزادی میں نسائیت کا رنگ لے کر آیا ہے اس رنگ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ آج تک پھیکا نہیں پڑا۔

اور اس پر مستزاد یہ کہ آزادی کی تحریک میں شاعر نغمۂ نگار و گلوکار شامل ہو گئے ہیں۔ بندوقوں کے سامنے صدائے نغمہ ہمیشہ سے ہی ایک خاص منظر رہا ہے۔ شاعر کے قلم اور تخلیق کار کے موئے قلم نے طاقت پرستوں کو تاریخ کے زندانوں میں مقید کر دیا ہے۔ ایک نغمہ آیا ہے حریت و آزادی کی ایک صدا گونجی ہے افغانستان میں۔ غوغا افغانی نے ”سرود سحر“ گایا ہے۔

عوغا افغانی زبان یار فارسی میں ”امید سحر روشن“ گاتے ہوئے کہتی ہے :
ہم عورتیں یہاں
مثل پورا جہاں
گائیں گی نغمۂ آزادی
جیسے گلستاں میں قمریاں
اٹھو مرے ہم وطناں و صف دوستاں
کہ شاید میرا گلہ ان کے بوٹوں کے نیچے
مرا چہرہ ان کے گھونسوں کے آگے
نغمۂ سرا ہے آزادی کا بن کے نگہباں
قسم ہے خورشید قلب کی روشنی تازہ کی
کہ اس وحشت سے جنگ جاری رہے گی
کہ ہم عورتیں یہاں
مثل پورا جہاں
نغمۂ آزادی کی صدا خواں
جیسے گلستاں میں قمریاں

غوغا تابان افغانی کے ایک سادہ گیت نے وابستگان تیرگی شب کو ضیاء آزادی سے جھلسا دیا ہے۔ ان کے ترجمان سیخ پا ہیں اور ساز و آواز کی جدوجہد سے خوفزدہ فسانے گھڑ رہے ہیں۔ آئیے غوغا تابان کے ساتھ مل کر ہم سب افغانستان کی آزادی و نسائیت کے گیت گائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments