افغانستان ہمیشہ سے مغرب کو شکست دیتا چلا آ رہا ہے


تاریخ پر گرفت نے اس تباہ کن جنگ سے بچا لیا ہوتا
ولیم ڈیلرمپل

ولیم ڈیلرمپل سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک بہت مشہور مورخ اور فوٹو گرافر ہیں۔ جنگ افغانستان پر ان کی مشہور تصنیف ٭ ریٹرن آف اے کنگ : دی بیٹل فار افغانستان 1839۔ 42 جس کو بلومز بری گروپ نے شائع کیا۔

اس ماہ پیش آنے والے واقعات سے پیشتر پہلی اینگلو افغان جنگ کو مشرق میں مغرب کی سب سے بڑی اور ذلت آمیز عسکری شکست تسلیم کیا جاتا تھا۔ برطانیہ کا افغانستان کے ساتھ 1839۔ 42 کا معرکہ انتہائی تباہ کن، مہنگا اور قابل اجتناب تھا۔ تب سے لے کر 1942 میں سنگاپور کی شکست تک برطانیہ کے لیے کوئی بھی معرکہ اس قدر بھاری نہ پڑا۔

جنگ کا سب سے رسوا ترین لمحہ کابل سے فوج کی پسپائی تھی جو کہ 6 جنوری 1842 کو عمل میں لائی گئی۔ 18، 500 افراد پر مشتمل ایک پوری آرمی برطانوی چھاؤنی سے پسپا ہو کر نکلی، مگر ان کے مقدر میں بہت قلیل اسلحہ سے مزین قبائلیوں کے ہاتھوں تباہی لکھی تھی۔ جنگ کی کہانی لکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ صرف ایک برطانوی سرجن ڈاکٹر برائڈن جنگ کے چھ دن بعد جلال آباد پہنچنے کے قابل ہو سکا۔

ایک تھکے ہارے ٹٹو پر سوار گرتے پڑتے برائیڈن کے اس مفلوک الحال فرار کو لے کر ٭لیڈی بٹلر کی آئل پینٹنگ ریمننٹ آف این آرمی اس دور کی یاد گار ترین تصویر بن گئی۔

اسی طرح ٭ ولیم بارنس وولن کی مشہور پینٹنگ Last Stand of the 44 th Foot جس میں مفلوک الحال مگر ثابت قدم سپاہیوں کے ایک گروہ کو گندمک کی پہاڑیوں پر سنگینوں کی ایک پتلی قطار کے پیچھے کھڑا دکھایا گیا ہے، جبکہ قریب ہی موجود پشتون قبائل جنگ کی مہیب سچائی پر مبنی اپنی فتح کا جشن ڈھول کی تھاپ پر مناتے ہوئے گھروں کو واپس لوٹ رہے تھے۔ دنیا کی اس وقت کی سب سے بہترین فوج شکست سے دو چار ہو چکی تھی، اس کی افواج کو یا تو تباہ کر دیا گیا تھا یا پھر قید کر لیا گیا تھا۔ شکست اپنے بہت گہرے اثرات چھوڑ جاتی ہے۔ غالباً یہ جلال آباد کے دروازوں پر ادھ مرے نراس برائیڈن کی تصویر ہی تھی جس نے برطانوی پالیسی سازوں کو مزید اس جیسی نئی مہمات شروع کرنے سے روک دیا۔

تیس سال بعد دوسری اینگلو افغان جنگ کی شروعات سے قبل گزشتہ جنگ کا ایک ماہر جارج لارنس لکھتا ہے، ہمارے ہاں ایک نئی نسل اٹھ کھڑی ہوئی ہے جو کہ ماضی کے انتہائی گمبھیر تجربات سے سبق سے سیکھنے کی بجائے ہمیں دوبارہ سے اس پر آشوب اور موذی ملک میں بھیجنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت عسکری تباہی سے بچا جا سکتا ہے اور اگر فوجی پیش قدمی عسکری نقطۂ نظر سے کامیاب بھی ثابت ہو تو پھر بھی سیاسی طور پر یہ سب بے فائدہ ہوگا۔ کابل کی پسپائی کے بعد ہونے والی ذلت آمیز تباہی مستقبل کے تمام امور سلطنت کے ماہر مدبرین کے لیے ایک تنبیہ ہوگی کہ وہ مستقبل میں ایسی کوئی غلطی نہ دہرائیں جس کے نتائج 1839۔ 42 کی جنگ کے جیسے برآمد ہوں۔

لارنس کی چتاؤنی کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی تھی جب ہیرالڈ میکملن نے اپنے جانشیں ایلس ڈوگلس ہوم کو نصیحت کی، ”جب تک تم افغانستان پر چڑھائی نہیں کرو گے تو بالکل ٹھیک رہو گے۔“ بدقسمتی سے جب جان میجر 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان ٹونی بلیئر کے سپرد کر رہا تھا تو افغانستان ایک قصہ پارینہ بن چکا تھا۔ 2001 میں 9 / 11 کی تباہی کے بعد ٹونی بلئیر نے بش کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے پھر سے افغانستان پر دھاوا بول دیا۔ اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آلڈس ہکسلے کی کتاب کے مشہور مقولے کے مترادف کچھ یوں ہے کہ تاریخ سے جو واحد سبق ہم سیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے۔

برطانیہ کی چوتھی افغان جنگ بھی بہت حد تک پہلی جنگ کا اعادہ ہی تھا۔ ان دونوں حملوں کے مابین تقابل فرضی نہیں بلکہ حقیقی قسم کا تھا۔ تقریباً وہی گروہی رقابتیں لیے 170 سال بعد ویسی ہی جنگیں اب کی بار نئے جھنڈوں، نئے عقائد اور نئے سیاسی منتظمین کے ساتھ مل کر لڑی گئیں۔ انہی شہروں پر وہی پرانی زبانیں بولنے والے لوگوں نے قبضہ کیا اور پھر انہیں دروں اور پہاڑی راستوں سے ان پر حملے بھی کیے گئے۔ دونوں ہی صورتوں میں حملہ آور اس سوچ کے ساتھ آئے تھے کہ وہ آسانی سے آ کر حکومت کا تختہ الٹ کر نئی حکومت کی بنیاد رکھیں گے اور چند سالوں کے اندر اندر واپس چلے جائیں گے۔ اور پھر دونوں ہی صورتوں میں وہ اپنے آپ کو ایک طویل اور خونی تصادم میں ملوث ہونے سے نہ بچا پائے۔

پہلی افغان جنگ کی بنیاد ایک فرضی خطرے کی جھوٹی خبر کی بنا پر رکھی گئی، کابل میں روس کے واحد سفیر کی موجودگی کی خبریں مبالغہ آرائی پر مبنی تھیں، جو کہ ایک جاہ طلب اور نظریاتی قسم کے شکروں کی طرف سے خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنے کے لیے توڑ موڑ کر پیش کی گئی تھیں۔ اور اس معاملے میں روس کے ایک فرضی حملے کی خبر گھڑی گئی۔ جیسا کہ برطانوی سفیر میک نیل نے تہران سے کچھ یوں لکھا : ”ہمیں اس بات کا اعلان کر دینا چاہیے کہ جو ہمارے ساتھ نہیں ہے وہ ہمارے مخالف سمجھا جائے گا۔ ہمیں ہر حال میں افغانستان کو بچانا ہے۔“ اور اس طرح ایک ایسی قابل گریز جنگ کا آغاز ہوا جس کی حیران کن گونج آج بھی سنائی دے رہی ہے۔

کٹھ پتلی حکمران، شاہ شجاع الملک کو ہی لے لیجے، جسے 1839 میں برطانیہ نے افغانوں پر مسلط کیا۔ وہ بھی پوپلزئی قبیلے کی اسی ذیلی شاخ سے تھا جس سے حامد کرزئی تعلق رکھتا ہے۔ اس کے شدید ترین حریف گلزئی قبیلے کے لوگ تھے جو کہ آج بھی طالبان کی مرکزی قیادت میں شامل ہیں۔ طالبان رہنما ملا عمر بھی اسی ہوتکی گلزئی قبیلے کا سردار تھا جس سے 1841 میں برطانوی فوج کی تباہی کرنے والے لشکر کی قیادت کرنے والا جنگجو سردار محمد شاہ خان تعلق رکھتا تھا۔ یہ مماثل اہل مغرب کی نگاہوں سے تو اوجھل رہے مگر طالبان اکثر ان کا تذکرہ کرتے رہتے تھے اور جیسے ہی کرزئی کو عنان حکومت سونپی گئی، طالبان نے ایک پریس ریلیز میں یہ بیان جاری کیا: ”ہر کوئی جانتا ہے کہ کرزئی کو کابل کس طرح سے لایا گیا ہے اور اس کو شاہ شجاع کے نہتے تخت پر کیسے بٹھا دیا گیا۔“

غالبا ’ہم اہل مغرب، جو کہ افغانوں کی غیر ملکی تسلط کے خلاف نفرت کو بدلنے کے لیے بہت کچھ کرتے رہے ہیں، شاید تاریخ کی ان تفصیلات کو بھلا چکے ہیں مگر افغان یہ سب نہیں بھولے۔ بالخصوص شاہ شجاع افغانستان میں غداری کی علامت کے طور پر مشہور ہو گیا: 2001 میں طالبان اپنے نوجوانوں سے یہ سوال پوچھتے تھے،‘ کیا تم شاہ شجاع کی اولاد کے طور پر اپنی پہچان چاہتے ہو یا کہ دوست محمد کی اولاد کے طور پر؟ جب ملا عمر اقتدار میں آیا تو اس نے معزول امیر دوست محمد کو اپنا ماڈل قرار دیا اور قندھار کے مزار میں رکھے ہوئے حضرت محمدﷺ کے جبہ مبارک کو پہن کر خود کو امیر المومنین کا خطاب دیا اور یوں پہلی افغان جنگ کے واقعات کا اعادہ ہوا جس کی بازگشت سے سب افغانوں کو اس کی سمجھ آنے لگی۔

حامد کرزئی ان تمام مماثلات سے واقف تھا اور جب 2012 میں پہلی افغان جنگ پر میری کتاب ٭ ریٹرن آف اے کنگ شائع ہوئی تو اس نے مجھے کابل بلایا۔ کرزئی نے اپنے محل میں دیے گئے عشائیوں میں میں کئی بار مجھ سے تاریخ کے دیے گئے اسباق پر بہت سے سوالات پر بحث کی۔ ان کا یہ خیال تھا کہ امریکہ ان کے ساتھ ایک بار پھر ویسا ہی کھیل رچا رہا ہے جیسا کہ برطانیہ نے آج سے ایک سو ستر سال قبل شاہ شجاع کے ساتھ رچایا تھا۔ اور کرزئی نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ”وہ سب جھوٹ جو کہ لارڈ آکلینڈ نے دوست محمد خان سے بولے تھے، کہ ہم تمہارے ملک میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، وہی کہانی ایک بار پھر امریکہ اور اس کے سارے اتحادی ہمارے ساتھ پھر سے دہرا رہے ہیں۔“ انہوں نے افغان عوام کی جانب سے ان کو دیے گئے ایک اور موقعے کو ضائع کر دیا۔ اور وہ بعینہ وہی سب دہرانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ انیسویں صدی میں کیا گیا تھا۔

کرزئی نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ وہ سمجھتا ہے کہ شاہ شجاع نے اپنی آزادی کے لیے اتنی کوشش کی ہی نہیں تھی، اور وہ یہ بالکل بھی نہیں چاہے گا کہ اسے کسی کی بھی کٹھ پتلی کے طور پر یاد رکھا جائے۔ ریٹرن آف اے کنگ پڑھنے کے بعد اس نے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کر لیا تاکہ وہ اپنے مورث اعلیٰ شاہ شجاع کی غلطیوں کو نہ دہرا سکے۔ وکی لیکس کے بعد نیویارک ٹائمز میں شائع کردہ ایک ای میل کے مطابق ہیلری کلنٹن نے اوبامہ کے دور صدارت میں کابل اور وائٹ ہاؤس کے مابین تعلقات میں سرد مہری پیدا کرنے میں میری کتاب کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔ ”

حامد کرزئی کا جانشین اشرف غنی ایک پڑھا لکھا، انسان دوست اور معیشت دان تھا۔ اس نے برکلے، کیلیفورنیا میں ٹیڈ کے سٹیج پر بھی کھڑے ہو کر خطاب بھی کیا اور ٭ناکام ریاستوں کے نام سے ایک مشہور کتاب بھی لکھی۔ مگر بدقسمتی سے اس نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ کرزئی ایک مدبر سیاست دان اور منتظم تھا ؛ جبکہ غنی ایک مغرور، سرکش، بے صبرا اور اڑیل قسم کا انسان تھا۔ اس کی شخصیت میں کشش اور شائستگی کی کمی کی وجہ سے قبائلی سردار اس سے دور ہوتے چلے گئے۔

دور دراز سے آنے والے قبائلی بزرگ سرداروں کو وہ ملاقات کے لیے صرف دس منٹ دیتا تھا۔ اور وہ بھی یوں کہ اپنے جوتے اتار کر پاؤں میز پر اپنے ملاقاتیوں کی جانب رکھ لیتا تھا جو کہ ہندوستانی اور افغان معاشرے میں بہت بڑی تذلیل سمجھی جاتی ہے۔ اور آخر کار ہم سب نے یہ دیکھ لیا کہ کوئی بھی غنی کو اقتدار میں دیکھنے کا خواہاں نہ تھا۔

پہلی افغان جنگ نے افغانیوں کے لیے ان کی طرز حکومت کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا۔ 1842 میں جب امیر دوست محمد برسراقتدار آیا تو اسے ورثے میں برطانوٰی اصلاحات کا تحفہ ملا جس نے اسے ایک واضح طور پر مستحکم افغانستان بنانے میں بہت مدد دی جو کہ جنگ سے پیشتر ایسا نہیں تھا۔ درحقیقت شجاع اور اس کے بہت سارے معاصرین نے اپنے لیے افغانستان کا لفظ کبھی استعمال ہی نہیں کیا تھا۔ اس وقت درانی سلطنت کے آخری بچ جانے والے حصوں کو سلطنت کابل کے نام سے جانا جاتا تھا اور وہ ایک ایسی جغرافیائی حدود پر واقع تھی جسے اس نے خراسان کے نام سے بیان کیا ہے۔

لیکن ایک ہی نسل میں لفظ افغانستان اندرون اور بیرون ملک نقشوں پر بھی استعمال ہونے لگا اور اس خطے میں بسنے والے لوگ خود کو افغانی کہلوانے لگے۔ شاہ شجاع کی واپسی اور اس کو تخت دلانے کی ناکام استعماری کوشش سدوزئی سلطنت کی بربادی کا باعث بنی اور یوں ان کی قائم کرد ہ درانی سلطنت کی آخری یادیں بھی مٹ گئیں۔ اس طرح جنگ نے افغان سلطنت کی نئی حدبندی قائم کر دی اور ایک نئے ملک افغانستان کی بنیاد رکھ دی گئی۔

اگر پہلی افغان جنگ نے افغان سلطنت کی بنیادوں کو استحکام فراہم کرنے میں مدد کی تھی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ مغربی دست اندازی اس کے زوال میں کس قدر کردار ادا کرے گی۔ گزشتہ بیس سالوں میں افغانستان حیران کن حد تک تبدیل ہوا ہے۔ شہر پھیل گئے ہیں، لوگ طول و عرض کے زیادہ سفر کرنے لگے ہیں اور ہزاروں خواتین کو زیور علم سے آراستہ کیا گیا ہے۔ ٹیلیوژن، انٹرنیٹ اور پرجوش میڈیا نے لوگوں کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کیا۔

ایسی صورتحال میں ایک منقسم افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کے لیے کوئی پیش بینی کرنا ممکن نہیں ہوگا، جب کہ پنجشیر وادی میں این ایس ڈی کے سابق سربراہ اور میرے پرانے دوست امر اللہ صالح کی زیر قیادت مزاحمتی تحریک کا آغاز ہو چکا ہے۔ لیکن جو بات افغان مورخ مرزا عطا نے 1842 میں لکھی تھی وہ آج بھی حقیقت ہے : ”خراسان کی سلطنت پر حملہ کرنا یا حکومت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔“

حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلی صدی میں بہت کم وقت کے لیے ایسا ہوا ہے کہ مختلف افغان قبائل نے کسی واحد حکمران کی حاکمیت کو قبول کیا ہو، اور پھر اس سے بھی قلیل وقت انہیں کوئی مستحکم سیاسی نظام قائم کرنے کو ملا۔ افغانستان ہمیشہ سے ایک ریاست کی بجائے آپس میں دست و گریباں ملک یا وکیل قبائلی فرمانرواؤں کا ایک اشکال نما سا بنا رہا ہے۔ جہاں اطاعت یا تو بالکل ذاتی تعلق کی بنیاد پر کی جاتی تھی جو کہ مسلم حق نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ مصالحت یا پھر بزور بازو حاصل کیا جاتا تھا۔

قبائلی روایات ہمیشہ سے برابری اور خودمختاری کی بنیاد پر قائم کی جاتی تھیں اور وہ حاکمیت کو اپنی شرائط پر ہی تسلیم کرتے تھے۔ مالی مفاد تعاون کے لیے تو مفید ثابت ہو تا مگر یہ وفاداری کا ضامن کم ہی ثابت ہوتا : ایک افغان سپاہی شاہ، بادشاہ یا پھر دور کابل میں بیٹھے صدر کی بجائے اپنے مقامی سردار کا وفادار رہتا جو کہ اس کو پالتا اور اس کے اخراجات پورے کرتا۔ حتٰی کہ قبائلی حاکم بھی وفاداری کی ضمانت دینے میں ناکام رہتے کیونکہ یہ قبائلی سردار خود بھی حیلہ ساز اور منتشر تھے۔

جیسا کہ ایک مشہور کہاوت ہے کہ کہ ہر پہاڑی کے پیچھے ایک شہنشاہ بیٹھا ہوا ہے۔ یا پھر ہر شخص خان ہے۔ ایسی صورتحال میں مسند اقتدار پر حکومت کی مکمل اجارہ داری قائم رکھنا ایک بہت مشکل امر ہوتا ہے، بلکہ وہ بھی فرمانروائی کے دعویداروں میں سے محض ایک دعویدار ہی ہوتی ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ ”ایک افغان امیر چیونٹیوں کے ڈھیر پر سوتا ہے۔“

افغانستان کے پہلے برطانوی مورخ ماؤنٹ سٹیورٹ الفنسٹون نے جب اپنے سامنے شاہ شجاع کی حکومت پارہ پارہ ہوتے دیکھی تو اسے اس حقیقت کا ادراک ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ ”قبائل کی داخلی حکومتیں ان کی مرکزی حکومت کے خاتمے کا مناسب جواب فراہم کرتی ہیں، کیونکہ مرکزی شاہی حکومت تمام تر افراتفریوں کے باوجود بھی اپنے جاری کاموں کو درہم برہم نہیں ہونے دیتی اور نہ ہی اپنے لوگوں کی زندگیوں کو بے چین کرتی تھی۔“ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے کہ افغانی اپنے پہاڑوں کو یاغستان۔ یا بغاوت کی سرزمین کے نام سے فخریہ انداز میں یاد کرتے ہیں۔

یہی مسئلہ اب طالبان کو بھی درپیش ہے۔ کیونکہ اب طالبان نے اپنی عسکری قیادت کو امارت اسلامیہ افغانستان میں بدل دیا ہے، قبائلی اتحاد اور تشکیل جس نے حالیہ چند سالوں میں دو متحارب قبائلی گروہوں کو ایک دوسرے سے جوڑا ہوا تھا اب اس کا اصل امتحان جاری ہے۔ 2013 میں ملا عمر کی وفات کے بعد کوئٹہ شوریٰ اور مشرق میں مقیم عسکری کمانڈروں میں گروہی اختلاف ابھر کر سامنے آئے۔ نتیجتاً طالبان کے گروہوں میں ایک نئی صف بندی تشکیل پانے لگی۔ بالخصوص حقانی نیٹ ورک جیسے شدت پسند جو کہ لڑائی کو طول دینا چاہتے تھے اور زیادہ معتدل طالبان رہنما جو کہ کابل اور اسلام آباد کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں تھے۔

ابھی کچھ کہنا پیش از وقت ہوگا کہ مشرقی اور مغربی افغانستان سے تعلق رکھنے والے طالبان کمانڈر، کوئٹہ شوریٰ اور دوحا مذاکرات میں شامل طالبان کا سیاسی گروہ اپنے اختلافات پر قابو پا کر کس طرح سے افغانستان کی ایک قدرتی مرکز گریز قسم کی حکومت کو کامیابی سے چلا پاتا ہے۔ یقیناً طالبان کی حالیہ مہم ہماری توقعات سے بڑھ کر منظم اور ہر لحاظ سے مربوط رہی ہے۔ یہ تو صرف وقت ہی بتائے گا کہ ان کی یہ تحریک منظم رہتی ہے یا ایک بار پھر سے علاقائی طالبان جاگیرداروں کے جتھوں میں بٹ جائے گی۔

اب ایک نئی طویل المدت جنگی حکمت عملی کون سی ہوگی؟ کیونکہ اب بہت کم لوگ ہی ہوں گے جو امریکہ یا نیٹو افواج کے کیے گئے وعدوں پر یقین کریں گے اور مزید یہ کہ ہم نے ہر جگہ اپنے دشمنوں کو ایک اہم پروپیگنڈا فتح سے نوازا ہے۔ بھارت اس خطے میں اپنا ایک ابھرتا ہوا اتحادی کھو چکا ہے اور پاکستانی آئی ایس آئی اس زعم میں مبتلا ہے کہ انہوں نے ایک بڑی فتح حاصل کر لی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اس حد تک کہ رہا ہے کہ طالبان کی اس فتح سے مراد ہے کہ افغانستان اب غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزاد ہو چکا ہے۔ دریں اثنا چین نے دعوٰی کیا ہے کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ تجارتی معاہدے کرے گی، اور تانبے کی ان مشہور ٭ میس آئینک کانوں کو از سر نو کھولے گی جو کہ سلک روڈ پر واقع بدھ مت کے آثاریاتی مقام کے ساتھ ہی ہے۔ جس سمت کی ہوائیں چل رہی ہیں اس سے بہت کچھ واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

پہلی افغان جنگ کی طرح، برطانیہ کی چوتھی افغان جنگ کا خاتمہ بھی ذلت و رسوائی اور ہزیمت پر ہو چکا ہے۔ آج کابل ائرپورٹ کے باہر ہونے والے دھماکوں یا پھر امریکی سی 130 طیارے میں موجود ایک دوسرے کو روندتے اور کچلتے ہوئے ان مایوس لوگوں کی تصویریں بنانے کے لیے کوئی لیڈی بٹلر یا ولیم بارنز وولن موجود نہیں ہیں۔ اب کی بار کسی لیڈی بٹلر یا وولن کی ضرورت کچھ یوں بھی زیادہ محسوس نہیں کی جا سکی کہ اب تک یہ تصاویر سوشل میڈیا کے ذریعے آدھی دنیا میں پھیل چکی ہیں۔ پہلی افغان جنگ کے مورخ جی۔ آر۔ گلیگ کے الفاظ 1843 کی طرح 2021 میں بھی ویسے ہی درست معلوم ہوتے ہیں : ”اس جنگ سے کوئی ایک بھی سیاسی یا عسکری فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا۔ اس ملک سے ہمارا حتمی اخراج ہمیشہ ایک فوج کی پسپائی سے ہی مشابہ ہوتا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments