امریکی یاروں کے قصے!


ایک انسان کی زندگی کے گرد کئی دائرے ہوتے ہیں اور وہ انہی دائروں میں مقید اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ پہلا دائرہ خاندان، پھر اردگرد کا ماحول اور وسیب، پھر اس کا اپنا وطن اور سب سے بڑا دائرہ انسانیت کا رشتہ ہے جو عالمی سطح پر محیط ہوتا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ بس ایک یا پھر چند دائروں تک محدود رہنا پسند کرتے ہیں اور کنویں کے مینڈک کی طرح بس اسی کو اپنی کل کائنات سمجھنے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ ان دائروں سے باہر قدم رکھنے سے ڈرتے ہیں اور کچھ بہادر اپنے مخصوص سرکل سے باہر نکل کر تعلقات اور سماجی رشتوں کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہو کر اپنے آپ کو امر کر لیتے ہیں۔

انسان کو سماجی جانور اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ تنہا اپنی تمام ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا، اسے جینے کے لیے دوسروں کے سہارے کی دائمی ضرورت رہتی ہے لیکن ضرورتوں کے تحت بننے والے تعلق کو کسی رشتے، دوستی یا یاری کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اکثر لوگ تب ہمارے پاس آتے ہیں جب انہیں ہماری ضرورت ہو۔ ہم دن میں کتنے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں، شاید ہمیں ان میں سے کسی ایک کا نام بھی یاد نہیں ہو گا۔ کسی کا نام یاد رکھنا تو درکنار، ہم ان کا نام پوچھنا تک گوارا نہیں کرتے۔ کیا آپ کو اپنے خوبصورت لباس سینے والے درزی کا نام یاد ہے، شاید ہو لیکن اکثریت بس ان کی دکان کا ٹائٹل اور نمبر یاد رکھتی ہے۔ ہمیں نام سے نہیں ان کے کام سے غرض ہوتی ہے۔

ہمارے قریب رہنے اور خدمت سر انجام والے کتنے ہی دکاندار ہیں، کتنے ٹیکسی ڈرائیورز ہیں، کتنے عام مزدور جو ہماری روز مرہ کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں مگر ان میں سے کتنے ہیں جن کے نام اور چہرے ہمیں یاد رہتے ہیں، قوی امکان ہے کسی ایک کا بھی نہیں۔ یہ اس لیے کہ ہمارا ان سے تعلق بس ایک ضرورت تک محدود ہوتا ہے۔ ہمارا ان سے کوئی قلبی رشتہ استوار نہیں ہو پاتا یا ہو سکتا ہے ہمیں اس کی طلب بھی نہیں ہوتی۔ یہ جو کہتے ہیں کہ دوست وہ جو ضرورت میں کام آئے تو کیا دوستی کو پرکھنے کا معیار فقط ضرورت کے وقت کام آنا ہے اور بس!

بے لوث محبت، پر خلوص خدمت، بغیر طمع کے کسی کے کام آنا، بغیر کسی کے پکارے اس کے ساتھ مدد کے لیے کھڑے ہو جانا، یہ بھی تو دوستی، یاری اور رشتے داری کا معیار ہونا چاہیے۔ بچے کو دودھ کے لیے رونا ہی کیوں پڑے، کیا وہ بھوک سے چیخے چلائے تو تب ہی اسے خوراک ملے گی، وہ تو فرض کی ادائیگی ہو گی جو ایک ماں یا والدین مل کر پورا کرتے ہیں۔ مزہ تو تب ہے کہ لب فریاد کے لیے ہلنے اور ہاتھ مانگنے کے لیے اٹھنے سے پہلے ہی جان لیا جائے کہ کسی کی ضرورت کیا ہے۔ یہی انسانیت کی معراج ہے، یہی سچی دوستی کا معیار ہے اور اسی کو برصغیر کے لوگ یاری کہتے ہیں۔

دلپذیر خان بھی جب امریکہ گیا تو وہ پریشان تھا کہ اس تیز دوڑ دھوپ والی دنیا میں اسے اچھے دوست کہاں ملیں گے مگر وہ خوش نصیب رہا کہ اسے کچھ ایسے امریکی دوست مل گئے جن پر وہ آج بھی فخر کرتا ہے۔ اسے امریکہ کی چکاچوند روشنیوں والے شہر، سپیڈی ہائی ویز، آسمان کو چھوتی عمارتیں، خوش لباس لوگ، بڑی بڑی موٹریں، کچھ بھی یاد نہیں۔ ہاں یاد ہیں تو وہ امریکی یا ر لوگ جنہوں نے اسے بے پناہ محبت اور پیار دیا۔

دلپذیر خان کے وہ عظیم دوست، وہ انسانی عظمت کے مینار، امریکہ میں بنائی گئی سیمنٹ اور اینٹوں کی کسی بھی بلڈنگ سے زیادہ بلند ہیں جنہیں دیکھنے لاکھوں لوگ امریکہ جاتے ہیں۔ خان اگر دوبارہ امریکہ گیا تو صرف اپنے یاروں سے ملنے جائے گا جو نہ صرف امریکہ بلکہ انسانیت کا اصل چہرہ ہیں۔ وہ سیاہ فام امریکی، جو یخ بستہ رات میں اس کے ساتھ آسمان تلے سویا، وہ گورا، جس نے اس کے لیے اپنا بستر خالی کرد یا اور خود کاؤچ پر لیٹ گیا، وہ مسلمان گھرانا جس نے کبھی اسے پردیس کا احساس نہیں ہونے دیا، وہ پاکستانی باس جس نے اس پر اندھا اعتماد کیا، وہ بوڑھی جس نے اسے اپنا بیٹا کہا۔

دلپذیر جب امریکہ جا رہا تھا تو اس کی ماں پریشان تھی کہ اس کے بیٹے کو تو چائے بنانی بھی نہیں آتی، اپنے کپڑے دھونا تو درکار، وہ تو انہیں صحیح استری کرنا بھی نہیں جانتا، ماں نے اسے جاتے ہوئے دعا دی کہ جا بیٹا تیرے راستے آسان ہوں۔ ماں کی دعا رنگ لائی اور امریکہ جیسے مادہ پرست معاشرے میں اس کے لیے رہنے، کھانے، روزی کمانے اور زندگی کی تمام راہیں کھلتی گئیں۔ وہ امریکہ چلا تو گیا لیکن اپنی سب متاع پیچھے اپنے وطن چھوڑ کر۔ بس ایک بریف کیس کے ساتھ، پرانے کپڑوں کے دو تین سوٹ اور ایک جوتوں کا جوڑا، گھر والوں کی تصویریں، وہ ایسے ہی اپنے گھر سے نکلا جیسے کسی لٹے پٹے مہاجر کو اپنا وطن چھوڑنا پڑے۔

امریکہ پہنچتے ہی دلپذیر خان کو ایک مسلمان گھرانے نے اپنا مہمان بنا لیا۔ وہ گھرانا جس کے ایک بزرگ نے فرمایا، ”شالا مسافر کوئی نہ تھیوے، ککھ جنہاں توں بھارے ہو“ (خدا کرے کوئی مسافر نہ ہو، جن کی حیثیت گلیوں کے تنکوں سے بھی کم ہوتی ہے ) ۔ ہاں ہاں یہ حضرت سلطان باہوؒ کا فرمان بالکل سچ ہے، ایک مسافر کی حیثیت گلی کوچوں کے تنکوں کی طرح ہوتی ہے جنہیں ہوا کے تھپیڑے کبھی ادھر اڑا کر لے جاتے ہیں تو کبھی ادھر پھینک دیتے ہیں۔ اور اسی صوفی با صفاؒ کے بقول، ”گلیاں دے وچ پھرن نمانے“ ، وہ گلیوں میں مسکینوں کی طرح پھرتے ہیں۔

خیر کوئی کسی کی ایک آدھ دن میزبانی اور دیکھ بھال کرے تو بات سمجھ آتی ہے، بھلا مہینوں تک کوئی اپنے مہمان کو کیسے برداشت کر سکتا ہے۔ وہ بھی امریکہ جیسی جگہ پر جہاں یہ محاورہ مشہور ہو کہ یہاں کوئی کسی کو فری لنچ آفر نہیں کرتا۔ یہ تو دلپذیر خان کے میزبانوں کی عظمت تھی کہ وہ اپنے مہمان کو چھ ماہ تک گھر کا پکا ہوا تازہ کھانا پیش کرتے رہے اور وہ بھی جا کر اس کی قیام گاہ پر جو ان کے گھر سے پندرہ بیس کلو میٹر دور تھی۔ بندہ اس بے لوث خدمت کو کیا نام دے؟ خاص طور پر جب وہ کسی دنیاوی غرض کے بغیر جاری رکھی جائے۔

امریکہ میں گھر کا کھانا ایک بڑی نعمت تصور ہوتا ہے۔ وہاں زندگی گھڑی کی سوئی کو دیکھ کر گزاری جاتی ہے۔ اسی لیے اکثر امریکی کہتے ہیں کہ Time is Money۔ وہ گھر میں کھانا پکانے پر وقت ضائع کرنے کی بجائے بازار سے پکا پکایا کھانا کھاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے آج امریکہ میں جدید ٹیکنالوجی کے بعد کھانے کے ریسٹوران کا کاروبار سب سے زیادہ ترقی پا رہا ہے۔ دلپذیر خان اس لحاظ سے خوش قسمت رہا کہ اسے امریکہ میں گھر کا پکا تازہ کھانا نصیب ہوتا رہا، وہ بھی کسی ماں جیسی مقدس ہستی کے ہاتھوں کا۔ یہاں تک خان نے خود کھانا پکانا سیکھ لیا۔

امریکہ میں مقیم دلپذیر کا باس بھی اس کے کسی بھائی سے کم نہیں تھا۔ وہ کام کے وقت اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتا، ورکرز سے خوب کام لیتا، ان سے پیشہ وارانہ انداز میں گفتگو کرتا مگر آفس ٹائمنگ کے بعد اس کی آنکھوں کا رنگ اور چہرے کے تاثرات بالکل بدل جاتے تھے۔ وہ وحید مراد والی خوبصورت آنکھیں جو دفتری اوقات میں سرخ رہتی تھیں اور وہ مرادنہ وجاہت والا چہرہ جو کام کے وقت بالکل بے تاثر دکھائی دیتا، دفتر کلوز ہوتے ہی وہ مشینی طرز عمل رکھنے والا انسان بدل جاتا۔ اس کی آنکھوں میں شرارت، چہرے پر تبسم اور لہجے میں نرمی در آتی تھی۔

ایک دن دلپذیر خان اپنے دفتر دیر سے پہنچا تو اس کے باس نے دیر سے آنے کی وضاحت طلب کی۔ خان نے کہا آج پہلی میٹرو بس چھوٹ گئی، اس لیے دفتر پہنچنے میں آدھ گھنٹہ دیری ہوئی۔ باس اس وقت اپنے کمپیوٹر پر مصروف تھا، بنا دیکھے بولا، بس کیوں چھٹ گئی۔ دلپذیر کھسیانا ہو کر بولا، جی وہ آج صبح دیر سے آنکھ کھلی، کل رات پا رٹی سے واپس گھر آتے ہوئے لیٹ ہو گیا۔ اب باس نے دلپذیر سے آنکھیں ملاتے ہوئے پوچھا، پارٹی سے لیٹ کیسے ہو گئے۔ دلپذیر نے باس سے آنکھیں چراتے ہوئے کہا، وہ دوست کی گاڑی پر گئے تھے، اس نے دیر کروا دی۔

یہ سن کر باس کی آنکھیں اور لال ہو گئیں اور وہ کرخت لہجے میں بولا، تو تم اپنی کار کیوں نہیں لے لیتے۔ دلپذیر اپنے منہ کی ڈولیاں بناتے ہوئے اور نمانا ہو کر کہنے لگا، جی میں امریکہ میں نیا ہوں ناں، میرا کریڈٹ سکور ابھی بن رہا ہے، اس لیے کسی بنک سے لون ملنا مشکل ہے اور میں پرانی کار نہیں خریدنا چاہتا۔ خان کی بات سن کر اس کے باس نے کہا، چلیں آپ اپنے ڈیسک پر جائیں اور کام شروع کریں، آپ چاہیں تو پورے دن کی چھٹی لے کر گھر بھی جا سکتے ہیں اور اچھی طرح اپنی پارٹی کی تھکن اتاریں، لیکن کمپنی کے رولز کے مطابق، آج آپ کے آدھے دن کی تنخواہ کٹے گی۔

دلپذیر خاموشی کے ساتھ اپنے ڈیسک پر چلا گیا اور افسردہ ہو کر کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ سو چتا رہا کہ، اسے صرف آدھا گھنٹہ لیٹ آنے کی اتنی بڑی سزا کہ پورے آدھے دن کی تنخواہ کاٹ لی گئی جو پاکستان جیسے ملک میں ایک غریب گھرانے کے مہینہ بھر کی آمدن کے برابر تھی۔ وہ دل ہی دل میں کڑھتا رہا کہ کاش اس کے پاس اپنی کار ہوتی، اس کا کریڈٹ بھی اچھا ہوتا تووہ جا کر ابھی نئی کار خریدتا۔ یہ کریڈٹ سسٹم بھی کیا بلا ہے، سہو کاروں نے انسانوں کو قابو رکھنے کا کیا غضب کا طریقہ ایجاد کیا ہے۔

امریکہ میں اگر آپ کا کریڈٹ سکور اچھا ہے تو آپ بنکوں سے کوئی بھی لین دین کر سکتے ہیں۔ بنیادی طور یہ کریڈٹ سسٹم اس لیے متعارف کروایا کہ گاہکوں اور قرض لے کر اپنا کام چلانے والوں میں احساس ذمہ داری بڑھائی جائے اور ایسا نہ ہو کہ وہ کہیں قرضہ لے کر واپس کرنا بھول جائیں۔ سنا ہے کہ کچھ ایشائی ممالک نے تو معاشی شعبے کے علاوہ سماجی کریڈٹ کا نظام بھی متعارف کروا رکھا ہے جہاں شہریوں کے اچھے رویے پر ان کا کریڈٹ سکور بڑھتا ہے اور اگر خدا نخواستہ وہ کسی جرم یا قانون توڑنے کے مرتکب ہوں تو ان کے کریڈٹ پر سرخ نشان لگ جاتا ہے جس کے بعد وہ اچھی ملازمت کے حصول کے ساتھ ساتھ کسی پبلک ٹرانسپورٹ یا ہوائی جہاز میں سفر کرنے کے قابل بھی نہیں رہتے۔

خیر آئیے دلپذیر خان کے باس کی کہانی پر بات جاری رکھتے ہیں۔ جس دن باس نے اسے ڈانٹا، اسی شام پانچ بجے دفتر کلوز ہونے کے بعد باس اس کے ڈیسک پر آیا۔ اس کی آنکھوں میں حسب معمول نشیلا پن اور شرارت واپس آ چکی تھی۔ اس نے دلپذیر کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا اور سیدھا نسان کمپنی کے مرکزی آٹو سیل سنٹر لے گیا۔ وہاں جاکر دلپذیر کے باس نے اسے بتایا کہ آج میں تمہارے لیے ایک نئی کار خرید رہا ہوں۔ کار کی قسطیں تم دو گے، میں اپنا کریڈٹ سکور استعمال کروں گا اور تمہارے ساتھ جائینٹ سگنیٹری ہوں گا۔

دلپذیر خان اپنے باس کے اس حیران کر دینے والے رویے اور سر پرائز دینے پر ہکابکا رہ گیا۔ اس نے کہا آپ میرے لیے اتنا بڑا رسک اٹھا رہے ہیں اور میری ضمانت کا بوجھ اپنے کندھوں پر کیوں لے رہے ہیں۔ باس بولا، ہاں یار، جب میں امریکہ آیا تھا تو کسی نے میری گارنٹی بھی دی تھی۔ اب وہ قرض لوٹانے کا وقت آ گیا ہے۔ بس یاد رکھنا گاڑی کی قسطیں بروقت ادا کرتے رہنا ورنہ میرا کریڈٹ سکور خراب ہو جائے گا جس سے میرا لاکھوں ڈالرز کا کاروبار بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

وہ دونوں کار سیل کے آفس گئے، وہاں کچھ رسمی لکھت پڑھت ہوئی، چند کاغذوں پر دونوں دوستوں سے سائن لیے گئے اور بس دو گھنٹوں کے اندر اندر دلپذیر خان کے ہاتھ میں بیس ہزار ڈالرز سے اوپر والی زیرو میٹر نسان آلٹما کار کی چابی تھی۔ اس نے اپنے باس کو سینے سے لگایا اور شکریہ ادا کیا۔ امریکی باس بھی پیچھے سے اندورن لاہور کا رہنے والا تھا، اس نے دلپذیر کو ہنستے ہنستے گہری چوٹ لگائی، یار ہن روز ای لیٹ آنڑا شروع نہ کر دیویں۔ (اب روز لیٹ آنا شروع نہ کر دینا)

خان بھی پہنچی ہوئی چیز تھا، وہ ہنس کر بولا، لالہ ہالی تاں تساں میکوں گھر وی قسطاں تے چا کے دینوا ہہ (بھائی ابھی تو آپ نے مجھے گھر بھی قسطوں پر لے کر دینا ہے ) ۔ باس نے اسے گٹ لاسٹ کہا اور ہنستے ہوئے بولا، یو آر فائرڈ۔ اس کے بعد وہ دونوں اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر گھر چلے گئے لیکن اس دن کے بعد خان کبھی اپنے دفتر سے ایک منٹ بھی لیٹ نہیں ہوا۔ دلپذیر خان کے لیے، امریکہ میں یوں کسی کا اس پر اندھا اعتماد کر نا اور اس کا گارنٹر بننا بڑی بات تھی۔ وہ زندگی بھر اپنے بھائیوں جیسے باس کا ممنون رہا۔ اس نے اپنی کار کا قرض بھی جلد چکتا کیا لیکن یاری کا قرض ابھی تلک باقی ہے جسے شاید، خان کی کئی پشتیں ادا کرتی رہیں گی۔

اب سنیئے دلپذیر خان کے ایک کالے، کرماں والے امریکی یار کا قصہ۔ اس کا نام مسٹر جے جی تھا۔ وہ اپنا کاروبار چلاتا، اس کے پاس پرانی انگلش موویز میں استعمال ہونے والی ایک بیڑا نما کار تھی۔ وہ زندگی بھر کنوارہ رہا، معصوم بچوں والی طبعیت کا مالک، پچاس سالہ یہ افریقی امریکی اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتا اور اس کی خدمت کر تا تھا۔ بظاہر دنیا میں اسے کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ جے جی نے زندگی میں دوست بہت کم بنائے۔ لیکن جس انسان کو وہ اپنا دوست سمجھتا، اس پر اپنی جان بھی چھڑکتا تھا۔

ایک مرتبہ یوں ہوا کہ دلپذیر خان امریکہ میں رہتے ہوئے اپنی کسی بے وقوفانہ مہم جوئی کی وجہ سے ایک بڑی مصیبت میں پھنس گیا۔ اسے تین دن لگاتار آسمان کے نیچے گزارنا پڑے۔ ان دنوں نارتھ ویسٹ امریکہ میں موسم سرما کا پیک سیزن چل رہا تھا۔ روز آسمان سے روئی برستی اور پہاڑوں نے جیسے سفید چادر اوڑھ لی ہو۔ رات کو درجہ حرارت منفی 15 سے بھی نیچے گر جاتا۔ بغیر اچھی خوراک اور مناسب موسمی لباس کے یوں باہر رہنا کسی بڑے خطرے سے کم نہیں تھا۔

جب جے جی کو پتہ چلا کہ اس کا دوست کسی مصیبت میں ہے تو وہ برف باری کے دوران اپنی گاڑی لے کر دوست کو بچانے نکل کھڑا ہوا۔ یوں اپنا گرم بستر اور رات کو گھر چھوڑ کر کسی کی تلاش میں نکلنا، بڑی بہادری اور عظمت کا کام تھا۔ رات کے ایک بج چکے تھے۔ شہر میں ہو کا عالم تھا۔ آخر جے جی نے اپنے دوست کو ڈھونڈ لیا جو ایک دکان کی شلٹر کے نیچے بے سدھ پڑا سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔ جے جی نے اسے اٹھا کر اپنی کار میں ڈالا لیکن اس وقت تک شہر میں کئی فٹ تک برف پڑ چکی تھی اور کہیں اور جانا ممکن نہ تھا۔ اس لیے ساری رات ان دونوں دوستوں کو اپنی کار میں گزارنا پڑی۔

کار میں مسلسل ہیٹر آن رہنے اور باہر سردی کی وجہ عجیب و غریب گھٹن کا ماحول بن جاتا۔ لہذا جے جی ساری رات اپنی کار کو آن آف کرنے اور اس کی ونڈوز اوپر نیچے کرنے کی ڈیوٹی دیتا رہا جبکہ دلپذیر خان پسجنر سیٹ پیچھے کر کے پچھلے بہتر گھنٹوں کی نیند پوری کر تا رہا۔ جب صبح ہوئی، میونسپلیٹی والوں نے سڑکوں سے برف ہٹائی تو گاڑیاں چلنا شروع ہوئیں۔ جے جی بھی برف میں پھنسی اپنی کار نکال کر Denny ’sریسٹورنٹ کے سامنے لے گیا۔ وہاں اس نے دلپذیر کو زبردست قسم کا امریکن ناشتا کروانے کے بعد اسے اس کی رہنے کی جگہ ڈراپ کر دیا۔

جے جی اتنا زندہ دل انسان تھا کہ اس نے اپنے دوست سے یہ تک نہیں پوچھا کہ وہ اتنی سرد رات باہر کیا کر رہا تھا۔ بس اسے جونہی خبر ملی کہ اس کا یار مصیبت میں ہے تووہ اپنی بیڑہ نما کار لے اس کی مدد کرنے کو پہنچ گیا۔ اس نے یہ بہانہ بھی نہیں بنایا کہ اس کی بوڑھی ماں کی طبعیت خراب ہے۔ دلپذیر خان اپنی زندگی کی وہ خوفناک رات یاد کر کے آج بھی اپنے امریکی یار کو دعائیں دیتا ہے اور اپنے بچوں کو بتاتا ہے تمہارا ایک انکل امریکہ میں بھی رہتا ہے جس نے مشکل میں اس کی جان بچائی تھی۔ بچے بھی اپنے امریکہ میں رہنے والے چاچو سے ملنے کے لیے بے تاب ہیں جس کے مزے مزے کے قصے وہ روز اپنے گھر میں سنتے ہیں۔

اسی طرح دسمبر کی ایک خوشگوار صبح، دلپذیر خان کو اپنے ایک دوست مسٹر ڈیوڈ کی کال موصول ہوئی، وہ اسے کہہ رہا تھا آج کرسمس نائٹ ہے، یہ شام ہر کوئی اپنے پیاروں کے ساتھ گزارتا ہے، تم امریکہ میں اکیلے ہو اس لیے آج رات میرے پاس آ جاؤاور یہی قیام کرو۔ خان اپنے دوست کے خلوص کو ٹھکرا نہ سکا اور اس سے آنے کا وعدہ کر لیا۔ اب جب دلپذیر اپنے دوست کے گھر پہنچا تو حیران رہ گیا کہ وہ بوڑھا ایک جھونپڑی نما گھر میں رہ رہا ہے۔ جس آبادی میں اس کا گھر تھا وہ امیروں کی بستی تھی اور اس کے اردگرد سب بڑے بڑے مکان تھے۔

دلپذیر پہلے تو ذرا پریشان ہوا کہ شاید وہ غلط جگہ پر آ گیا ہے لیکن اس کا جی پی ایس اسے کہہ رہا تھا۔ You have Arrived on Your Destination۔ اس نے اپنے دوست کی لینڈ لائن نمبر پر کال ملائی کیو نکہ وہ موبائل فون اپنے پاس نہیں رکھتا تھا۔ اس کے دوست نے ریسویر اٹھا یا اور بولا بڈی آر یو ہیر۔ دلپذیر نے کہا ہاں مگر یہ تو کوئی پرانا گھر لگتا ہے۔ اس کا دوست ہنس کر بولا ہاں یار، یہی میرا گھر ہے دیکھو تمہیں اس کی چھت پر امریکی جھنڈا پینٹ ہوا نظر آ رہا ہے۔ دلپذیر نے کہا ہاں۔ تو اس نے کہا کہ اپنی کار اندر لے آؤ اور میری آر وی کے ساتھ پارک کر دو۔

دلپذیر اپنے اس دوست کو ایک Baptist Church کے لنگر خانے میں ملا تھا جہاں وہ دونوں بے گھر افراد کے لیے کھانا پکانے اور لنگر تقسیم کرنے میں چرچ انتظامیہ کی مدد کیا کرتے تھے۔ ڈیوڈ اپنے ساتھ والنٹریز کا پورا ایک ریوڑ لے کر آتا تھا جس میں اس چھوٹے بڑے نواسے نواسیاں اور ایک بیٹی شامل ہوتی تھی۔ وہ سب مل کر اتوار کے دن بے گھر افراد کے لیے بنائے گئے لنگر خانے میں بطور والنٹیرز کام کرتے۔ یہیں سے دلپذیر کی اس گھرانے سے دوستی ہو گئی لیکن ڈیوڈ اپنے گھر میں اکیلا رہتا تھا۔ اس کی بیٹی الگ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ بڑے گھر میں رہتی تھی۔

دلپذیر خان نے جب کار سے اتر کر اپنے بوڑھے دوست کے گھر قدم رکھا تو وہاں ایک پریشان کر دینے والا منظر تھا۔ اس کے گھر میں ایک پرانا بیڈ روم، ساتھ ایک چھوٹا سا سٹور نما کمرہ، ایک باتھ روم، ایک چھوٹا سا کچن جس کے ساتھ جڑا ہوا ٹی وی لاؤنج جہاں اس کا پرانا وکٹوریہ طرز کا صوفہ رکھا ہوا تھا۔ صوفے کے ساتھ ایک آرام دہ کرسی اور اس کے سامنے لکڑی والا ایک ٹیبل۔ کچن میں چند پلیٹیں، ایک مائیکرو ویو، چولہا اور چھوٹا سا فریج بھی تھا۔

دلپذیر کے اس دوست نے جس گرم جوشی سے اپنے دوست کا استقبال کیا وہ اسے کبھی نہیں بھولے گی۔ بوڑھے میزبان نے اپنے مہمان کے لیے گوشت بھون رکھا تھا جس کے ساتھ طرح طرح کے دوسرے لوازمات بھی تیار تھے۔ دونوں دوستوں نے کرسمس کی اداس شام اکٹھے گزاری، رات کا کھانا کھایا اور شب بھر ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگی کے قصے سناتے رہے۔ خان نے اپنے دوست سے جھونپڑا نما گھر میں رہنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ چاہے تو ایک نیا گھر بنا سکتا ہے جیسے اس کے ادر گرد رہنے والے دوسروں کے بنگلے ہیں لیکن میں اپنے اسی گھر میں رہنا پسند کرتا ہوں۔

اس گھر کی در و دیوار سے میری یادیں وابستہ ہیں، میری پہلی، دوسری اور تیسری دلہن بھی اسی گھر میں بیاہ کر لائی گئی۔ میری بڑی بیٹی بھی اسی گھر میں جوان ہوئی، میں سادہ طرز زندگی پسند کر تا ہوں۔ اس گھر میری ضرورت کی سب چیزیں موجود ہیں۔ جب میرا اس در و دیوار سے جی بھر جاتا ہے تو میں اپنی آر وی لے کر جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں اور کئی کئی دن وہیں فطرت کی آغوش میں گزارتا ہوں۔

دلپذیر اپنے بوڑھے دوست کی زندگی کی کہانیاں بڑی دلچسپی سے سنتا رہا اور حیران تھا امریکہ میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس دور میں اپنی مرضی سے بغیر کیبل، انٹر نیٹ اور موبائل فون زندگی گزار رہے ہیں۔ بوڑھے نے کہا، مجھے اپنا کچن چلانے، بجلی اور فون کا بل ادا کرنے کے لیے چند سو ڈالرز چاہیے ہوتے ہیں، میں چھتوں کی مرمت کا اچھا کام کر لیتا ہوں جس کی کمائی سے میرا بہترین گزارا ہو جاتا ہے۔

اس نے کہا، میں اتنا ہی کام کرتا ہوں جتنی میری ضرورت ہوتی ہے باقی سارا وقت میں اپنی ذات، اس کائنات اور دنیا کے حالات پر غور و فکر کرتا رہتا ہوں، میرے اپنے پاس پڑھنے کے کوئی کتاب رکھتا، یہ زندگی اور ہمارا معاشرہ ایک کھلی کتاب ہے، بس اسے پڑھنا آنا چاہیے۔ میرا زیادہ دل اداس ہو تو میں اپنے نواسے نواسیوں کے پاس چلا جاتا ہوں اور مجھے اپنی زندگی میں کوئی پچھتاوا نہیں۔

جب رات کا پچھلا پہر ڈھلنے لگا تو دلپذیر نے جمائیاں لینا شروع کر دیں، ویسے بھی گوشت کھانے کے بعد نیند خوب آتی ہے۔ اس کے بوڑھے دوست نے کہا، چلو تم میرے بستر پر جا کر سو جاؤ، میں یہیں صوفے پر لیٹ جاتا ہوں۔ خان نے صوفے پر سونے کی ضد کی مگر اس کا بوڑھا دوست نہ مانا۔ اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ تم میرے مہمان ہو اور ہم امریکی لوگ اپنے مہمانوں کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔ دلپذیر اپنے امریکی میزبان کی باتوں سے بہت متاثر ہوا اور یہ سوچنے لگا کہ اپنے مہمان کی قدر کرنا کسی خاص تہذیب کی میراث نہیں بلکہ یہ ایک آفاقی قدر ہے۔

رات سونے کے لیے جا نے سے پہلے، دلپذیر خان نے اپنے بوڑھے دوست سے پوچھا تمھاری زندگی کا سب سے بڑا سبق کیا ہے، وہ بولا، غربت، جس بچنے کی دعا کر نی چاہیے کیونکہ غریبی سب سے بڑا عیب ہے جو انسان کے سب گن کھا جاتی ہے۔ خان نے پوچھا کہ اس عیب کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے، وہ دانشمند بوڑھا گویا ہوا، اپنی خواہشات پر قابو پانے سے۔ اور ان خواہشات کو کیسے کنٹرول کیا جائے، دلپذیر نے پوچھا۔

بوڑھے نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا میرے یار خواہش رکھنے کا تعلق انسانی جبلت سے ہے۔ اگر ہم فطرت کے قریب رہنا سیکھ جائیں تو خواہشات بھی قابو میں رہیں گی۔ دیکھو ناں میرا امریکہ کیا سے کیا بنتا جا رہا ہے۔ ہم لوگ فطرت سے کتنے دور ہو گئے ہیں۔ اس لیے یہاں کسی کو سکون نصیب نہیں، ہر کوئی اپنی خواہشات کا غلام بنتا جا رہا ہے۔ کاش میرے ہم وطن واپس فطرت سے رجوع کر لیں۔ بوڑھا اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہیں خیالوں میں گم ہو گیا اور دلپذیر اسے گڈ نائٹ بول کر اس کے بستر پر سونے چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments