اصلی مرد


ویسے تو مرد ہونے کے مرد کو اتنے فائدے نہیں ہیں جتنے کہ عورت کو مردوں کی وجہ سے نقصانات ہیں اور عورت کو پہنچنے والے نقصانات کا بالواسطہ اور بلاواسطہ فائدہ بھی مرد کو ہی پہنچتا ہے۔ خیر موضوع بحث یہ نہیں ہے بلکہ بحث ہے ہی نہیں کیونکہ بحث کرنا عورت کا خاصہ ہے مگر وہ مرد سے بحث میں جیت نہیں سکتی وجہ سیدھی سی ہے کہ عورت اونچا نہیں بول سکتی، گالی نہیں دے سکتی اور اگر ہمت کر کے اونچا بولے بھی تو ”تیسرا“ برداشت نہیں کر سکتی، ارے بھئی سعید اجمل سپن باولر کے دوسرے تیسرے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ اس سے بھی خطرناک ہتھیار ”تھپڑ“ کی بات ہو رہی ہے اور یہ تھپڑ ایسا فیصلہ کن ہتھیار ہے جو امریکہ نے جاپان کے خلاف دوسری جنگ عظیم میں استعمال کیا تھا اور فیصلہ ظاہر ہے امریکہ کے حق میں ہوا تھا۔ خیر اگر عورت ہمت کر لے تو تیسرے پر چھکا بھی مار سکتی ہے ویسے کرس گیل صفت عورت ہو تو۔ میڈیا پر آپ نے ایسی عورتیں ضرور دیکھی ہوں گیں جو کرس گیل کی طرح تیسرے پر چھکے مارتی نظر آتی ہیں، ان میں سے فردوس عاشق اعوان صاحبہ قابل ذکر ہیں۔

بات کوئی بھی ہو کرکٹ کا ذکر ایک سچے پاکستانی ہونے کے ناتے بیچ میں آ ہی جاتا ہے اور ویسے بھی کیوں نہ آئے، کرکٹر کا ہی تو راج ہے ہمارے ملک پر۔ واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں یعنی مرد ہونے کے فوائد، فوائد بتانے سے پہلے ایک خوف کا ذکر بھی کرتا چلوں وہ یہ کہ جب سے تحریک نسواں نے قدم جما لیے ہیں تب سے بحیثیت پیدائشی مرد عورت کے متعلق کوئی بھی بات چاہے اس کے حق میں ہی کیوں نہ ہو، کہنے یا لکھنے سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں جاہل، بنیاد پرست، انتہا پرست، پرانے خیالات کا مالک یا روایتی مرد جیسے طعنے نہ سننے پڑ جائیں۔

خیر ڈرے وہ جو اصلی مرد نہ ہو، ہم تو اصلی مرد ہیں اور اصلی مرد کو ڈر نہیں لگتا اور عورت سے تو بالکل بھی ڈر نہیں لگتا خاص کر اپنی عورت سے جو ظاہر ہے اصلی مرد کی ملکیت ہوتی ہے یعنی اپنی پہلی بیوی، دوسری اس لیے نہیں لکھا کیونکہ دوسری کا بندوبست پہلی والی کے سپرد ہوتا ہے۔ مرد کی ملکیت میں صرف اس کی بیویاں ہی نہیں بلکہ ماں، بہن اور بیٹی بھی شامل ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ ملکیت کس طرح ثابت ہوتی ہے تو صاحب دلیل یہ ہے کہ مالک ہی اپنی ملکیت کو جلا سکتا ہے، مار سکتا ہے، کاٹ سکتا ہے، بیچ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

بات سے بات چل نکلی ہے تو ایک بات مردوں کی نذر کرتا چلوں کہ مرد ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ غریب سے غریب مرد بھی اپنی ملکیت میں ایک آدھی عورت تو رکھتا ہی ہے، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آدھی عورت سے کیا مراد ہے؟ یہ ایک قانونی مسئلہ ہے۔ ہمارے ہاں دو عورتیں مل کر ایک پوری گواہ بنتی ہیں جبکہ مرد اکیلا ہی کافی ہے۔ قانونی نکتہ ہے ہماری سمجھ سے بالاتر ہے مگر قانون جانے اور قانون کو ماننے والے جانیں۔

ویسے قانون تو اندھا ہوتا ہے اگر آنکھیں رکھتا تو ہمارے معاشرے کی ہیجانی کیفیت کی پیروی کرتے ہوئے آدھی عورت کی گواہی بھی پوری سمجھتا اور اگر منہ رکھتا تو یقیناً رال بھی ٹپکتی اور گواہ کے سچا یا جھوٹا ہونے کا دار و مدار گواہ کی شکل و صورت اور ”رضامندی“ پر ہوتا۔ بھئی اب آپ ہم سے ”رضامندی“ کی وضاحت مت طلب کیجئے گا کیونکہ یہ وضاحت یا تو منٹو اور امریتا پریتم کے افسانوں میں ملتی ہے یا فہمیدہ ریاض کی شاعری میں۔

ویسے بحیثیت مرد منٹو، فہمیدہ ریاض اور امریتا پریتم جیسے لکھاریوں سے ہماری کچھ خاص بنتی نہیں کیونکہ یہ لوگ مرد کو ذلیل ہی بہت کرتے ہیں۔ خیر تھوڑا قصور ہم مردوں کا بھی ہے کیونکہ اب مردانگی کا معیار اتنا گر گیا ہے کہ اصلی مردانگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے اب ہمیں مینار پاکستان پر چار سو مردوں کے ہجوم کا سہارا لینا پڑتا ہے حالانکہ اصلی مرد اکیلا ہی کافی ہوتا ہے۔

خیر بات پھر کہیں اور جا نکلی، یہاں مرد ہونے کے فائدے بیان کرنا مقصود تھا مگر بات سے بات نکلتی نکلتی جانے کیا بن گئی۔ مگر ایک بات تو طے ہے کہ عورت نے مکمل طور پر مرد پر بے اعتباری کا اظہار کیا ہے خاص کر کے سسرال کے مردوں پر کیونکہ مولٹی فوم کے ایک اشتہار میں دلہن بنی لڑکی رخصتی کے وقت اپنے بابا جانی سے کہتی ہے کہ ”گھبرائے مت کیونکہ مولٹی میرا خیال رکھے گا“

ویسے میڈیا اور عورت مارچ والے اصلی مردوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں، انہیں اصلی مردانگی سے جلن ہوتی ہے۔ لیکن اصلی مردوں کی نمائندگی کرتے ہوئے چند سورمے میدان میں موجود ہیں جن میں خلیل الرحمن قمر، اوریا مقبول جان اور عمران خان ریاض سرفہرست ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments