تھالی کا بینگن – ایک ثقافتی استعارہ


ہر تخلیق چاہے وہ کسی بھی نوعیت کی ہو اپنے اندر ایک خاص طرح کا اظہار لیے ہوئے ہوتی ہے جس کو کہانی کار اپنے الفاظ کی صورت میں ایک منفرد رنگ عطا کرتا ہے اور پھر اس رنگ سے سماج کی اس انداز میں منظر کشی کرتا ہے جو عام فرد کے بس کی بات معلوم نہیں ہوتی یہی رویہ ہمیں کرشن چندر کے افسانے تھالی کا بینگن میں نظر آتا ہے جو آج بھی گزرے اور موجود سماج میں پائے جانے والی خرابیوں کی دہائی دے رہا ہے

ہمارا سماج بھی تھالی کے بینگن کی طرح زندگی گزارنے والوں سے بھرا پڑا ہے ہر انسان وہی بیچ رہا ہے جو سماج میں بکتا ہے فرق صرف اتنا ہے کے آج کا بیچنے والا نفسیاتی حربوں سے خوب واقف ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے کرشن چندر کا افسانہ ”تھالی کا بینگن“ پڑھتے ہوئے برصغیر کا وہ منظر نامہ دیکھنے کو ملا جس میں مذہب اور مذہبی ٹھیکیداروں کا ایسا چہرہ دکھایا گیا جو آج بھی قدرے فرق کے ساتھ موجود ہے

دیکھا جائے تو کسی بھی کلچر کی تشکیلی عناصر میں مذہب، جغرافیہ، معیشت اور حکومتی نظام وہ بنیادی عناصر ہیں جن سے کلچر تشکیل پاتا ہے ان سب عناصر کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن خاص طور پر متحدہ برصغیر اور تقسیم کے بعد بھی مذہب کو کلچر کی تشکیل میں ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے

”تھالی کا بینگن“ میں بھی اس دور کے کلچر میں مختلف مذہبی رہنما اور اس کے عقیدت مندوں کی نفسیات کو پیش کیا گیا ہے کس طرح ایک عام فرد ان مذہبی عقیدت مندوں کو بے وقوف بنا کر دولت کا حصول آسان بناتا ہے اس افسانے میں متحدہ برصغیر کا مذہبی کلچر، ضعیف الاعتقادی اور مذہب کے نام پر بے وقوف بنانے کے عمل کو بڑی مہارت سے کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے

سب سے اہم بات یہ کہ اس کہانی میں مذہب کے نام پر کسی ایک مذہب کے پیروکاروں کو بیوقوف نہیں بنایا گیا بلکہ اس کھیل میں مختلف مذاہب کے لوگ شامل ہیں لیکن اس کا آغاز مسلمانوں سے کیا جاتا ہے جو کے اپنے اندر ایک بھرپور معنویت لیے ہوئے ہے جب کہانی میں ایک خاتون کردار بینگن کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے جس کا بیان کہانی میں یوں ملتا ہے

رسوئی میں بیٹھ کر اس نے پہلا بینگن کاٹا ہی تھا کہ اسے اندر سے دیکھ کر ٹھٹھک گئی۔ ”ارے“ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ”کیا ہے؟“ میں رسوئی کے اندر گیا اس نے مجھے کٹا ہوا بینگن دکھایا۔ ”دیکھو تو اس کے اندر کیا لکھا ہے؟“

میں نے غور سے بینگن دیکھا۔ بینگن کے اندر بیج کچھ اس طرح ایک دوسرے سے جڑ گئے تھے کہ لفظ اللہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ”ہے بھگوان“ میں نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: ”یہ تو مسلمانوں کا اللہ ہے۔“ محلہ پور بیاں جہاں میں رہتا تھا، ملا جلا محلہ ہے یعنی آدھی آبادی ہندوؤں کی اور آدھی مسلمانوں کی ہے۔ لوگ جوق در جوق اس بینگن کو دیکھنے کے لیے آنے لگے۔ ہندوؤں اور مسیحیوں کو تو اس بینگن پر یقین نہ آیا لیکن حاجی میاں چھنن اس پر ایمان لے آئے اور پہلی نذر نیاز انہوں نے ہی دی ”1

مسلمانوں سے اس کھیل کا آغاز کرنا اپنے اندر بذات خود ایک اہمیت لیے ہوئے ہے یعنی مسلمان مذہبی حوالے سے جلدی بے وقوف بن سکتے ہیں

”تھوڑی دیر میں ایک مسلمان نے اس کے نیچے ہرا کپڑا بچھا دیا۔ منن میاں تمباکو والے نے قرآن خوانی شروع کر دی۔ پھر کیا تھا شہر کے سارے مسلمانوں میں اس بینگن کا چرچا شروع ہو گیا۔ جناب! سمتی پورہ سے میمن پورہ تک اور ہجواڑے سے کمانی گڑھ تک اور ادھ ٹیلا میاں کے چوک سے لے کر محلہ کوٹھیاراں تک سے لوگ ہمارا بینگن دیکھنے کے لیے آنے لگے۔ لوگ باگ بولے ایک کافر کے گھر میں ایمان نے اپنا جلوہ دکھایا ہے۔ نذر نیاز بڑھتی گئی“ 2

ہرے کپڑے کا بچھانا، قرآن خوانی کا ہونا یہ عمل اس کلچر اور مذہب میں ایک خاص معنویت رکھتے ہیں اس کے ساتھ یہ جملہ ”کافر کے گھر میں ایمان نے اپنا جلوہ دکھایا ہے“ اس تجسس کو جنم دیتا ہے جس تجسس کے تحت لوگ جوق در جوق اس بینگن کو دیکھنے آرہے تھے یہی بینگن کسی مسلمان گھر میں ہوتا تو شاید سماج میں اس بات کو زیادہ اہمیت نہ دی جاتی لیکن ایک کافر کے گھر میں اس عمل کا ہونا سماج میں ایک نئے رنگ سے پھیل گیا

”پہلے پندرہ دنوں میں سات ہزار سے اوپر وصول ہو گئے۔ جس میں سے تین سو روپے سائیں کرم شاہ کو دیے جو چرس کا دم لگا کر ہر وقت اس بینگن کی نگرانی کرتا تھا۔“ سماج کا ایک عام فرد بھی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ کوئی چیز بھی آپ خود سے نہیں بیچ سکتے اس کے لیے آپ کو ان لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو پہلے اس چیز کو بیچتے ہو یا کسی چیز کو بیچنا جانتے ہو ”سائیں کرم شاہ“ اسی لیے بینگن کی نگرانی کے لیے مقرر ہوا کے لوگ اس کو دیکھ کر نفسیاتی طور پر متاثر ہوں گے لیکن جیسے ہی بینگن کے مالک نے دیکھا کے اب مسلمانوں کا جوش ایمان ٹھنڈا پڑتا دکھائی دے رہا ہے تو اس نے ایک نیا کھیل کھیلا ایک رات میں نے آہستہ سے اپنی بیوی کو جگایا اور میں نے کٹے ہوئے بینگن کا رخ ذرا سا سرکایا اور پوچھا: ”اب کیا دکھائی دیتا ہے؟“ ”اوم، ارے یہ تو اوم ہے۔“ میری بیوی نے انگلی ٹھوڑی پر رکھ لی۔ اس کے چہرے پر استعجاب تھا۔ راتوں رات میں نے پنڈت رام دیال کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسے بلا کر کٹے ہوئے بینگن کا بدلا ہوا رخ دکھایا۔ پنڈت رام دیال نے چیخ کر کہا: ”ارے یہ تو اوم ہے اوم۔ اتنے دنوں تک مسلمانوں کو دھوکا دیتے رہے۔“ 3

بینگن کا مالک جانتا تھا کے اس کی بات کو پذیرائی پنڈت کے ذریعے ملے گی اس لیے اس بار بھی اس نے مذہبی رہنما کو ہدف بنایا

’بس پھر کیا تھا سارے شہر میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ کٹے ہوئے بینگن کے اندر دراصل ”اوم“ کا نام کھدا ہوا ہے۔ اب پنڈت رام دیال نے اس پر قبضہ جما لیا۔ رات دن آرتی ہونے لگی۔ بھجن گائے جانے لگے، چڑھاوا چڑھنے لگا۔ میں نے رام دیال کا حصہ بھی رکھ دیا تھا کہ جو محنت کرے اسے بھی پھل ملنا چاہیے، لیکن بینگن پر ملکیت میری ہی رہی۔ اب شہر کے بڑے بڑے سنت جوگی اور شدھ مہاتما اور سوامی اس بینگن کو دیکھنے کے لیے آنے لگے ”4

اس پیراگراف سے اس کلچر میں مذہبی رہنماؤں کی اہمیت کا اندازہ خوب ہوتا ہے یعنی لوگ کس قدر اندھی تقلید میں گم ہیں ایک فرد کی دسترس سے اس مذہب کے لوگوں کو آرام سے کسی بھی عمل کی طرف دھکیلا جاسکتا ہے

”پچیس دنوں میں کوئی پندرہ بیس ہزار کا چڑھاوا چڑھا اور سونے کی انگوٹھیاں اور سونے کا ایک کنگن بھی ہاتھ آیا لیکن آہستہ آہستہ لوگوں کا خمار پھر ڈھلنے لگا۔ تو جناب! میں نے سوچا اب کوئی اور ترکیب لڑانی چاہیے۔ سوچ سوچ کر جب ایک رات میں نے اپنی بیوی کو جگا کر میں نے اوم کا زاویہ ذرا سا اور سرکا دیا! اور پوچھا“ اب بتا کیا دکھائی دیتا ہے؟ ”وہ دیکھ کر گھبرا گئی۔ منہ میں انگلی ڈال کر بولی:“ ہے رام یہ تو عیسائیوں کی صلیب ہے۔ ”5

یہاں بیچنے والی کی نفسیات کس قدر واضح انداز میں سامنے آتی ہے کے جب وہ اپنا کاروبار ٹھنڈا ہوتا محسوس کرتا ہے وہ ایک نئے انداز میں نئے مذہب کے لوگوں کو اپنا ہدف بنا کر دکانداری چمکا لیتا ہے

”کٹے ہوئے بینگن میں مسیحی صلیب کو دیکھنے کے لیے پادری ڈیورنڈ اپنے ساتھ گیارہ عیسائیوں کو لے آئے اور بینگن کی صلیب دیکھ کر اپنے سینے پر بھی صلیب بنانے لگے۔ اور عیسائیوں کے بھجن گانے لگے اور سر پر جالی دار رومال اوڑھے خوب صورت فراک پہنے سڈول پنڈلیوں والی عورتیں اس معجزے کو دیکھ کر نہال ہوتی گئیں۔“ 6

اب کی بار بینگن کی اجارہ داری پادریوں نے سنبھال لی تھی لیکن اس بار سماج میں اس مذہبی کھیل سے شہر میں تناؤ بڑھ گیا۔ جس کا بیان کہانی میں یوں ملتا ہے

” ہندو کہتے تھے اس بینگن میں اوم ہے، مسلمان کہتے تھے اللہ ہے، عیسائی کہتے تھے صلیب ہے۔ بڑھتے بڑھتے ایک دوسرے پر پتھر پھینکے جانے لگے۔ اکا دکا چھرے بازی کی وارداتیں ہونے لگیں۔ سمتی پورہ میں دو ہندو مار ڈالے گئے اور مستری محلے میں تین مسلمان۔ ایک عیسائی شہر کے بڑے چوک میں ہلاک کر دیا گیا۔ شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ جس دن میری گرفتاری عمل میں آنے والی تھی اس سے پہلے دن کی رات میں نے بینگن کو موری میں پھینک دیا۔“ 7

اس آخری لائن میں بینگن کی حقیقت کو بڑی بے رحمی سے بیان کیا گیا اور اس کے ساتھ جڑے مذہبی فراڈ کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے کہانی کے آخری حصے کی جانب جانے سے پہلے ایک سوال ذہن میں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہانی میں موجود بینگن کے مالک کو مذہبی بیانیے کی ہی ضرورت کیوں پڑی؟

اس سے صاف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ مذہب کے ذریعے کسی بھی فرد کو بھی بہت جلدی بے وقوف بنا سکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اس جگہ اور سماج کا کلچر بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کے وہاں کیا بک سکتا ہے اور کتنا آسانی سے بک سکتا ہے وہ کردار جو میرم پور میں مذہبی کھیل، کھیل کر پکڑے جانے کے خوف سے ممبئی بھاگ آیا تھا یہاں ٹیکسی چلاتے ہوئے جب ایک بار اسے پھر وہی سوجھی تو ساتھی کردار کس طرح اس کو شہروں کا فرق بتاتا ہے

”یکایک میری نگاہ میز کی اس سطح پر گئی جہاں میرے گلاس کے شیشے کے پیندے نے ایک گیلا نشاں بنا دیا تھا میں نے اپنے دوسرے ساتھی ٹیکسی ڈرائیور محمد بھائی سے کہا:“ محمد بھائی دیکھو تو اس گلاس کے پیندے کے نیچے جو نشان بن گیا ہے یہ اوم ہے کہ اللہ؟ ”محمد بھائی نے غور سے نشان کو دیکھا، مجھے دیکھا پھر میری پیٹھ پر زور سے ہاتھ مار کر کہا:“ ابے سالے! یہ بمبئی ہے یہاں اوم ہے نہ اللہ نہ صلیب۔ جو کچھ ہے روپیہ ہے بس روپیہ۔ ”اتنا کہہ کر محمد بھائی نے میز پر ہاتھ پھیر کر پانی کے نشان کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔“ 8

اس آخری پیراگراف میں کرشن چندر نے وہ مقصد اور فرق بڑی فنی مہارت سے بیان کیا ہے جو میرم پور اور ممبئی کے لوگوں کے درمیان اور ان کے کلچر میں موجود تھا یہاں مذہبی بیانیے اور اندھی عقیدت کی وہ شکل موجود نہ تھی بلکہ اس شہر اور کلچر میں دولت کو بنیادی اہمیت حاصل تھی اور یہ بات ٹیکسی ڈرائیور بھی بڑے واضح انداز میں جانتا ہے آج بھی ہم اسی بینگن کا شکار ہیں اور مسلسل اندھی تقلید کرنے کے نتائج بھگت رہیں ہیں آج بھی سب سے آسان ہدف مذہب ہے لوگ اس آڑ میں اپنے مفادات کی تسکین کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں

حوالہ جات
1۔ کرشن چندر کے شاہکار افسانے، انتخاب وترتیب، شبنم شاہد، ممتاز اینڈسنز، اپریل 2015، ص 183
2۔ کرشن چندر کے شاہکار افسانے، انتخاب وترتیب، شبنم شاہد، ممتاز اینڈسنز، اپریل 2015، ص 183
3۔ کرشن چندر کے شاہکار افسانے، انتخاب وترتیب، شبنم شاہد، ممتاز اینڈسنز، اپریل 2015، ص 184
4۔ کرشن چندر کے شاہکار افسانے، انتخاب وترتیب، شبنم شاہد، ممتاز اینڈسنز، اپریل 2015، ص 184
5۔ کرشن چندر کے شاہکار افسانے، انتخاب وترتیب، شبنم شاہد، ممتاز اینڈسنز، اپریل 2015، ص 185
6۔ کرشن چندر کے شاہکار افسانے، انتخاب وترتیب، شبنم شاہد، ممتاز اینڈسنز، اپریل 2015، ص 185
7۔ کرشن چندر کے شاہکار افسانے، انتخاب وترتیب، شبنم شاہد، ممتاز اینڈسنز، اپریل 2015، ص 185
8۔ کرشن چندر کے شاہکار افسانے، انتخاب وترتیب، شبنم شاہد، ممتاز اینڈسنز، اپریل 2015، ص 186


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments