زندگی کا شکوہ ؟


زندگی بنی آدم کے لئے ایک سوال ہے نہ کوئی اس کا شروع ہے اور نہ آخر، بلکہ نسل در نسل ایک بہاؤ ہے جو روز اول سے چلا رہا ہے اور جب تک دنیا قائم و دائم ہے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری و ساری رہے گا۔ اگر ہم روئے زمین پر نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آج دنیا میں زندگی کی بدولت ہی گہما گہمی ہے۔ اس کا وجود آفتاب صداقت کی مانند ہے اور جدائی غم جیسی۔ بلاشبہ زندگی ہمارے جسم و روح کی ملکہ ہے اور جب تک انسان میں دم ہے یہ ہمارا ساتھ دیتی ہے۔ انسان اسی زندگی کے سہارے وہ تمام رونقیں، بہاریں، کرشمے، اور معجزے دیکھتا ہے جس کا خدا نے بنی آدم سے وعدہ کیا ہے۔ البتہ یہ تمام باتیں اس وقت وقوع پذیر ہوتی ہیں، جب ہم خدا کے ساتھ چلنے کا عہد و پیماں کرتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو پوری دلجمعی کے ساتھ جان لینا چاہیے، کہ جب تک ہم خدا کی وفاداری سے نہیں چلتے اس وقت تک زندگی ہمیں اپنا حاصل بھی نہیں دیتی ہماری غیر ضروری توقعات ہماری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔ پھر ہم پر مایوسی کے بادل چھا جاتے ہیں اور وسوسے ہماری سرشت میں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں۔

یاد رکھیں!

قدرت کے اصول و قوانین یکساں ہوتے ہیں، نہ ان میں ترمیم کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ ہی تغیر و تبدل کے راستے۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ ہمارا جسم زمین بوس ہوتا ہے اور روح آسمان پر پرواز کر جاتی ہے۔

لیکن زندگی اپنی پرواز سے پہلے ہم سے چند سوالات پوچھتی ہے۔ اور اپنی صحت و صداقت کا پرچار ہم سے یوں کرتی ہے۔ دیکھو میں بے زبان بن کر تمہارے جسم و روح کا حصہ بن کر رہتی ہوں۔ تم میرے ساتھ جیسا بھی سلوک کرو، میں اسے خاموش تماشائی بن کر دیکھتی ہوں۔ لیکن میری قوت برداشت دیکھو، میں چپکے سے سارے ماجرے کو دیکھتی ہوں۔ تم مجھے رسوا بھی کرتے ہو اور میرے جذبات کو ٹھیس بھی پہنچاتے ہو۔

مجھ سے گلے شکوے بھی کرتے ہو، حیران بھی ہوتے ہو اور پریشان بھی، سوالات بھی کرتے ہو اور جواب بھی تلاش کرتے ہو، رشوت لیتے بھی ہو اور دیتے بھی ہو، اپنے ہاتھوں سے دوسروں کا خون بھی باتیں ہو اور پھر برکت کا تصور کرتے ہو، ٹیڑی چال چلتے ہو اور پھر کہتے ہو میں لڑکھڑا تا کیوں ہوں؟ اور تم اس بات کو بھی بخوبی جانتے ہو کہ میرے جانے کے بعد تمہارا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ نا تم اپنے خیالات کا دفاع کر سکتے ہو اور نا اپنی جائیداد کی حفاظت کر سکتے ہو۔

میں نے خود اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بلکہ اس بات کی دنیا بھی گواہ ہے، تم خالی ہاتھ ملتے اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہو۔ نا تم اس دنیا میں کچھ لائے اور نہ تم اپنے ساتھ کچھ لے جا سکتے ہو۔ دنیا کا مال دنیا پر ہی رہ جاتا ہے وہ تمہارے ساتھ سپرد خاک نہیں ہوتا۔ ذرا اس بات کو سوچو تمہاری تمام خواہشات تمہارے ساتھ دفن ہو جاتی ہیں اور تمہارا دنیا سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ تمہارے سب رشتے ناتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ کوئی بھی تمہارا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے۔

کیونکہ یہ ایک قدرتی امر ہے اور ہم میں سے ہر ایک نے اسی راہ سے گزرنا ہے اور اپنے خدا کے سامنے جواب دے ہونا ہے۔ اب ہماری آخرت کا فیصلہ خدا کی عدالت میں شروع ہو جاتا ہے۔ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ہم بہتر جان سکتے ہیں۔ میں جانتی ہوں تمہاری سرد آہوں نے میرا ستیاناس کر دیا۔ اب میرے پاس غمگین صورت اور ارد گرد غموں کا ہجوم ہے۔

کاش!

تم میرے آنے کے مقصد سے واقف ہوتے اور جانتے کہ میں تمہارے وجود کا حصہ کیوں بنی؟ لیکن تمہارے کردار نے مجھے داغدار کیا۔ حالاں کہ میں تو آسمان سے پاکیزگی کا تصور لے کر اتری تھی، پر تمہارے گناہوں نے میری روح کو اس قدر رنجیدہ اور آلودہ کر دیا کہ اب میں واپس جانے سے شرمسار ہوتی ہوں۔ تم نے اپنے دنیاوی اہداف و مقاصد کے لیے میرا حلیہ بگاڑ دیا۔ تم اپنی خواہشات کے غلام بن کر میرا حشر نشر کرتے رہے۔

تمہارے ارادوں اور خیالوں نے میری تصویر تک بگاڑ دی، اب میرا چہرہ بدصورت ہے، لیکن جس خاک نے مجھے گندا کیا ہے، وہ آلودگی کی کثافتیں اور برے خیالات کی ریت ہے۔ یہ ہوا جس طرح بھی چلے گی اس کی گرد دوسروں کو آلودہ ہی کرے گی۔

لہذا ان باتوں سے میرے اوپر خوف کی فضا طاری ہو گئی ہے۔ مجھے تو اس بات پر بھی حیرانی ہے کہ میں تمہارے نتھنوں میں زندگی کا دم بن کر چلتی ہوں۔ میں نے تمہارے کانوں میں بھی سرگوشیاں کی ہیں۔ لیکن شاید تمہارے کان بہرے تھے اور میری آواز تمہارے کانوں تک نہ پہنچ سکی۔

میں نے اس بات کو بھی محسوس کیا کہ تمہاری قوت شامہ جاتی رہی نا تم نے میرے پیار کی خوشبو لی اور نہ تم نے اپنے اندر جذبات کا دیا جلایا۔

میں زندگی کے آخری دم تک تمہارے ساتھ رہی۔ اس کے باوجود بھی تم نے مجھے پیار نہیں کیا، بلکہ تم جسم و روح کی لڑائی میں پڑ کر بکھر گئے، تم نے آزادی کا نعرہ لگا کر غلامی کی زنجیریں باندھ لیں۔

کاش!

تم اس بات کو جان پاتے کہ میں نسلوں، قبیلوں، گروہوں اور مذاہب میں بلاتفریق اتری۔ لیکن میں اس ماجرے کو لگاتار دیکھتی رہی کہ تمہاری ترجیحات نے مجھے ہمیشہ لہولہان کیا۔ میرے جذبات کو ٹھیس پہنچائی اور میرے ساتھ ایسے کھیل کھیلے کہ مجھے اپنی آدمیت بشریات اور انسانیت پر ندامت محسوس ہوتی ہے۔ میں تمہیں کیا بتاؤں کہ تم نے میرا شیرازہ بکھیر دیا۔ اب مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے اب میرے محسوسات اور احساسات کا دروازہ کھل گیا اور میں نے جان لیا کہ تم نادان نکلے۔

مجھے افسوس ہے نہ تم نے اپنی کتاب کے اوراق میں اپنے اعمال لکھے اور نہ کبھی اپنا احتساب کیا۔ مجھے تم سے بارہا یہ شکوہ رہا ہے کہ تم نے میرے ساتھ ایسا کھیل کھیلا ہے کہ اب میں اپنی وراثت کے حقوق سے محروم ہو گئی ہوں۔ میری اصل جائے پیدائش تو آسمان تھی، اب میں واپس لوٹ کر کہاں جاؤں؟ اب میرے لیے فردوس کا دروازہ بھی بند ہو چکا ہے۔ اب میں زمین پر بھٹکتی پھر رہی ہو۔ اب میں اپنا ٹھکانا کہاں ڈھونڈو؟ زمین پر رہتے ہوئے تم نے میرا ستیاناس کر دیا۔ نا تم نے مجھے زمین کی مٹی کے قابل چھوڑا اور نہ آسمان کے وارث بننے کا۔ کاش تم اس بات کو یاد رکھتے ہیں کیونکہ گناہ اور پاکیزگی کا کبھی ملاپ نہیں ہو سکتا۔ یہ میرے ارمانوں کا شکوہ ہے، جس کا براہ راست میں نے تذکرہ کیا ہے۔ جس کے کان ہوں وہ سن لیں اور جن کی آنکھیں ہیں وہ دیکھ لیں۔

کاش!

تم جیتے جی میرا شکوہ سنتے اور اپنے آپ کو بہتر بنا لیتے تاکہ میں اپنے اصلی مقام پر واپس جانے کے قابل ہوتی۔ لیکن میں جاتے جاتے تمہیں ایک مخلصانہ مشورہ ضرور دیتی ہوں

” اگر کوئی زندگی سے خوش ہونا اور اچھے دن دیکھنا چاہے تو وہ اپنی زبان کو بدی سے اور ہونٹوں کو مگر کی بات کہنے سے باز رکھے“

یہ سب کچھ تمہارے اختیار میں ہے، اگر تم چاہو تو ضبط کر کے سب لوگوں کی باتیں برداشت کر کے اپنی آنے والی زندگی سنوار سکتے ہو، اور اس غضب الہی سے بچ سکتے ہو جس کی سزا نہ ختم ہونے والی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments