بیوروکریسی میں شاہی نہیں عوامی بابو لائیں


حکومت تین سال سے بیورو کریسی کی کارکردگی سے ناخوش ہے اور ہر روز تبادلوں کی ایسی لہر چلتی ہے جو کئی نامی گرامی افسران کو منظر سے ہٹا دیتی ہے حکومت بیورو کریسی کی کارکردگی سے مطمئن کیوں نہیں ہو سکی کیا حکومت اپنی مرضی کے فیصلے چاہتی ہے یا کارکردگی کا مسئلہ ہے حکومت نے اپنے تین سالہ دور حکومت میں ایک سے ایک بڑھ کر ایک لائق فائق افسر تعینات کیے لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ بار بار افسروں کی تبدیلی سے حکومت کو سبکی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور اس افسروں کو تبدیل کرنے کی وجوہات بھی عوام کے سامنے رکھنی پڑتی ہیں میڈیا پر بھی سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اب تو ایسا لگتا ہے کہ حکومتی ترجمان بھی افسروں کی تبدیلی کے معاملے پر جواب دیے کر تھک گئے ہیں وہ ابھی کسی ایک افسر کے تبدیل ہونے کی وجوہات بتا رہے ہوتے ہیں کہ وہ افسر دوبارہ تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو مشورہ دینے والے بھی صرف اپنا وقت پاس کر رہے ہیں اور جو گائیڈ لائن حکومت کی جانب سے ملتی ہے ترجمان وہ بیان کر دیتے ہیں خود سے نہ بات کر سکتے ہیں اور نہ ہی بہتری کے لیے تجویز دیے سکتے ہیں کچھ ایسا منظر نامہ بن گیا ہے کہ وزیراعظم وزرا سے لے کر افسروں تک کسی کی کارکردگی سے خوش نہیں۔ بار بار حکومتی ٹیم میں تبدیلی کے باوجود افسران کی طرح ان وزیروں اور مشیروں کی کارکردگی وزیر اعظم کو خوش نہ کر سکی۔

وزیر اعظم کو سب سے زیادہ تشویش پنجاب میں گڈ گورنس کی خراب صورتحال پر ہے یہاں ہر محکمے میں تیزی سے تبادلے کیے گئے لیکن اس کے مثبت نتائج نہ مل سکے سب سے زیادہ جن تبادلوں پر اظہار خیال کیا گیا وہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب ہیں ان دونوں عہدوں پر فائز رہنے والے افسران چار سے چھ ماہ اوسطا اپنی سیٹوں پر موجود رہے یہ افسران حکومت نے بہت سوچ بچار کے بعد تعینات کیے ان کے کئی انٹرویو بھی لیے گئے لیکن حکومت ان افسران سے وہ نتائج حاصل نہ کر سکی جس کا ٹارگٹ ان کو دیا گیا تھا۔

افسران کی جانب سے کارکردگی بہتر نہ ہونے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ یہ سابقہ حکومت کے وفادار ہیں اس وجہ سے وہ جان بوجھ کر کام نہیں کر رہے وہ اپنی وابستگی سابق حکومت کے ساتھ ظاہر کرنے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کرتے ہیں دوسرا نقطہ نظر کچھ اس طرح ہے کہ نیب کی سرکاری افسران کے خلاف انکوائریوں کے باعث افسران اور ماتحت عملے میں خوف پایا جاتا ہے یقینی طور پر حکومت کو بھی ان تمام باتوں کا علم ہو گا اسی وجہ سے حکومت اور نیب کی جانب سے متعدد بار بیوروکریسی کو باور کروایا گیا کہ ان کے خلاف غیر قانونی طور پر کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

ان تمام طفل تسلیوں کے باوجود حالات سدھر نہ سکے اور بیورو کریسی حکومت کی خواہش کے مطابق عوام کو ریلیف نہ دیے سکی عوام مہنگائی اور بیروز گاری کے طوفان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ ریت کی دیوار اس لیے کہا کہ اگر عوام مہنگائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تو حکومت بھی مہنگائی کو روکنے کے لیے کوئی نسخہ نکال لاتی لیکن عوام شاید گزشتہ کئی حکومتوں کی عوام دشمن پالیسیوں کو سہتے سہتے تھک سے گئے ہیں اب مہنگائی سے عوام کے رونگٹے کھڑے نہیں ہوتے اور وہ مسلسل سسکنے پر ہی گزارہ کرنا چاہتے ہیں۔

جیسا کہ میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ عوام سیاسی رہنماؤں سے توقع نہ رکھیں کہ وہ عوام کے مسائل پر لانگ مارچ کریں گے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو عوام کی بد دعا لگ چکی ہے ایک زمانہ تھا جب عوام حکومت کو بد دعا دیتے تھے اب دور بدل چکا اب ساتھ ہی اپوزیشن کو بھی کوستے ہیں۔ اب بھی اگر حکومت وقت کے کان کھلے اور انکھیں دیکھ رہی ہوں تو عوام کے لیے بیورو کریسی میں ایسے بندے کو لگائیں جو عوام کے درد کو سمجھتا ہو اس کے لیے کوئی مشکل فارمولا نہیں ماضی میں کئی ایسے افسر تعینات رہے جو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کے مسائل کو حل کرتے تھے حکومت جب تک شاہی سوچ رکھنے والے افسران مقرر کرتی رہے گی عوام تکلیف میں رہیں گے۔

ماضی میں چیف سیکرٹری پنجاب کی اہم سیٹ پر جاوید محمود تعینات رہے ہیں ان کا انداز ایسا مثالی تھا کہ سول سیکرٹریٹ کے در و دیوار بھی اس بات کی گواہی آج بھی دیتے ہیں کہ انہوں نے سرکاری افسر ہونے کے باوجود عوام کے حقوق پورے کرنے کا ذمہ اپنے سر لیا اور ایسے کام کر گزرے جو کوئی طاقتور حکمران بھی نہ کر سکا انہوں نے نہ صرف سرکاری افسران کو عوام کے مسائل کے فوری حل کرنے کا پابند بنایا بلکہ خود بھی صبح سے لے کر شام تک اپنے اپ کو عوام کے لیے وقف کر دیا ان کے اہم کارناموں میں پنجاب سول سیکرٹریٹ اور وحدت کالونی کو اصل حالات میں بحال کرنا تھا وہ جتنی دیر چیف سیکرٹری رہے یہاں پر ہر افسر کے دروازے عوام کے لیے کھلے رہے کسی افسر کی جرات نہیں تھی کہ وہ عوامی مسائل کے حل میں کوتاہی کرے۔

اور جب جاوید محمود صوبائی محتسب پنجاب مقرر ہوئے تو انہوں نے عوام اور اپنے درمیان تمام دیواروں کو گرا دیا حالانکہ اس وقت ملک میں دہشت گردی کی لہر تھی حکومت کو چاہیے جاوید محمود جیسے دلیر ایماندار اور عوامی درد رکھنے والے افسر کو ڈھونڈ کر لائے جو صرف حکومتی اقدامات ہی پورے نہ کرے عوام کے درد کا بھی علاج کرنا جانتا ہو اگر حکومت عوامی افسر مقرر کرنے میں کامیاب ہوئی تو مسائل حل ہوں گئے ورنہ حکومت تو چل ہی رہی ہے

رہ گئی رسم اذاں، روح بلا لی نہ رہی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments