تعلیم عام ہو رہی ہے لیکن کیسے؟


یہ 2012 کی بات ہے جب میں ایک نجی سکول میں پڑھاتا تھا جس میں طلباء کی کل تعداد تقریباً 250 تھی اور تقریباً 12 اساتذہ تھے۔ مجھے پڑھاتے ہوئے ابھی 3 ماہ ہوئے تھے کہ ششماہی امتحانات شروع ہو گئے۔ پیپر چیک کرنے کے بعد طلباء کو دکھائے جاتے اور جن طلباء کے نمبر کم ہوتے ان کی اچھی خاصی چھترول کی جاتی اور اس کے بعد والدین کو طلباء کی کارکردگی دکھانے کے لئے رزلٹ تیار کیا جاتا۔ رزلٹ کمپیوٹر پر تیار کیا جاتا تھا اور پرنسپل کی نگرانی میں رزلٹ کارڈ پرنٹ ہوتے۔ جب پرنسپل نے بچوں کا رزلٹ دیکھا تو کہا کہ اسے فوراً تبدیل کرو اور ان کے تمام مضامین میں نمبر بڑھا دو۔ میں نے کہا کہ جناب ہم بچوں کو پیپر دکھا چکے ہیں اور بچے کیا سوچیں گے؟ تب پرنسپل صاحب نے تاریخی کلمات بولے اور وہ سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل تھے۔

“جاوید صاحب اگر ہم نے ان تمام بچوں کو فیل کر دیا تو کل رزلٹ کے دن والدین رزلٹ کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی اس سکول سے لے کر جائیں گے اور یہاں کون پڑھے گا اور کیا آپ ایسا چاہتے ہیں؟”

میں خاموش ہو گیا اور دفتر سے باہر نکل آیا لیکن ایک بھاری بوجھ کے ساتھ جو آج بھی مجھ پر ہے اور میں سوچتا ہوں کہ اس نظام کو کون تباہ کر رہا ہے؟ طلباء، والدین، اساتذہ، حکومت یا پالیسی ساز؟

یہ حال صرف ایک تعلیمی ادارے کا نہیں بلکہ میرے خیال میں پورے ملک کے تمام تعلیمی اداروں کا یہی حال ہے۔ جہاں یا تو اساتذہ طلباء کو خود پاس کر دیتے ہیں نہیں تو سکول انتظامیہ کروا دیتی ہے۔ کیونکہ اب تعلیم تعلیم نہیں رہی بلکہ ایک کاروبار بن چکا ہے جو جتنا زیادہ لگائے گا اتنا زیادہ کمائے گا۔ بچے کو چاہے اپنا نام نہ لکھنا آتا ہو وہ سالانہ امتحانات کے بعد اگلی کلاس میں لازمی جائے گا۔ اس والدین اس کی عمر بڑھنے کا رونا رونے لگ جاتے ہیں اور اگر اساتذہ اور انتظامیہ بچے کو اگلی جماعت میں نہ جانے دیں تو پھر وہ سفارش لے آتے ہیں اور بعض اوقات مجبوراً اس کو اگلی جماعت میں بٹھانا پڑتا ہے۔

کیا وہ نجی ادارے جو گلی محلوں میں کھلے ہوئے ہیں ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے؟ وہاں پر اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟ انہوں نے پڑھانے کے لئے کہاں سے تربیت حاصل کی ہے؟ ان سکولوں میں بعض اوقات صرف مڈل پاس لڑکے یا لڑکیوں کو بھی رکھ لیا جاتا ہے جو صرف اپنی جیب خرچ پورا کرنے کے لئے پڑھاتے ہیں ان کو بچوں کے مستقبل سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور غرض ان سکول مالکان کو بھی نہیں ہوتی جو ان کو اپنے پاس ملازمت کے لئے رکھتے ہیں کیونکہ ان کا مشن صرف پیسہ بنانا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال میں آپ کو بتاتا ہوں۔ میں یہ سکول چھوڑنے کے بعد ایک اور سکول میں چلا گیا تو مجھے میرے پرانے ساتھی نے بتایا کہ

ہم نے جماعت نہم اور دہم سے بورڈ کی داخلہ فیس اکٹھی کی اور بچوں کے داخلہ فارم بھر کر پرنسپل کو دے دیے کیونکہ آگے کی کارروائی وہ خود کرتے تھے۔ ساری فیس بھی ان کو جمع کروا دی۔ وقت گزرتا گیا اور امتحانات قریب آ گئے ہمارے سکول کے بچوں کی رول نمبر سلپس نہیں آئیں تھیں جبکہ باقی سکولوں کے بچوں کی رول نمر سلپس آ چکی تھی۔ امتحانات سے دو دن پہلے بچوں کے والدین سکول میں آ گئے اور رول نمبر سلپس کا مطالبہ کیا اس وقت سکول سے پرنسپل صاحب غائب ہو گئے۔ والدین نے بورڈ سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ ان کے تو داخلہ فارم ہی بورڈ میں نہیں پہنچے کیونکہ جناب پرنسپل صاحب فیس خود ہضم کر چکے تھے۔ اس طرح کے واقعات کئی سکولوں میں پیش آ چکے ہیں جس سے بچوں کا تعلیمی سال ضائع ہو جاتا ہے۔

اس طرح کے سکولوں میں صرف فیس بٹوری جاتی ہے۔ بس اور کچھ نہیں۔

جب اس طرح کے سکولوں سے پڑھے ہوئے طلباء نویں یا دسویں جماعت میں پہنچتے ہیں تو یقین مانیں کہ یہ لڑکی کو لکڑی اور تقریباً کو تقریبن لکھتے ہیں۔ اگر ان سے اردو یا انگلش کے جملے بنانے کا کہیں تو جملوں کو چیک کرتے ہوئے ہنسی نہیں رکتی۔ ایسے طلباء اور ان کے والدین بورڈ کے امتحانات میں پاس ہونے کے لئے بھی حل نکال لیتے ہیں۔ جو کہ آپ اکثر خبروں میں بھی سنتے ہیں۔ امتحانی مراکز میں کتابوں کی مائیکرو کاپیاں لے جاتے ہیں یا پھر کھڑکیوں سے دوستوں کو نقل کے رقعے پھینکے جاتے ہیں جہاں پر امتحانی عملہ بھی بے بس نظر آتا ہے۔ یا پھر جیسے ہی امتحانی عملہ پیپر ختم ہونے کے بعد ڈاکخانے لے کر جائے تو چھین کر آگ لگا دو بات ختم۔ آج کل کچھ طلباء تو اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ بورڈ کے پیپر میں اپنا رابطہ نمبر کے ساتھ لکھتے ہیں کہ کیش کے لئے رابطہ کریں۔

یہ سب نجی تعلیمی اداروں میں ہی نہیں بلکہ سرکاری اداروں میں بھی ہوتا ہے جہاں اساتذہ اپنے (جی پی اے ) کو بہتر کرنے کے چکر میں یہ سب کرتے ہیں۔ اب اگر ان پالیسی ساز سے پوچھا جائے کہ بھائی 6 میں سے 5 (جی پی اے ) لینا اتنا آسان نہیں کیونکہ ہر بچے کا ذہنی معیار ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ہر بچے کی ذہنی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ اور دیہاتوں میں رہنے والے بچے شہروں میں رہنے والے بچوں سے مقابلہ تو کر سکتے ہیں لیکن ان کے پاس وہ سہولیات نہیں ہیں جو شہروں میں ہیں۔

ایک بچہ پانچ سطروں کا سوال یاد کرنے کے لئے پانچ منٹ لیتا ہے جبکہ وہی سوال کمزور بچہ ایک گھنٹے میں بڑی مشکل سے یاد کر پاتا ہے۔ پالیسی ساز کو ان سب باتوں کا علم ہونا بھی ضروری ہے نہ کہ صرف دفاتر میں بیٹھ کر پالیسیاں بناتے رہیں۔ ورنہ اساتذہ پاس کرتے جائیں گے اور طالب علم پاس ہوتے جائیں گے لیکن وہ سکول چھوڑنے کی درخواست بھی ٹھیک سے نہیں لکھ سکیں گے۔

ایک چھوٹے سکول سے لے کر یونیورسٹی تک کا یہی حال ہے۔ میرا ایک دوست جو پنجاب کی مشہور و معروف یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے بتا تا ہے کہ جب میں (ایم ایس سی) کا طالب علم تھا تو سمیسٹر کے فائنل امتحانات کے وقت صبح پروفیسر صاحب پیپر لے کر آ جاتے اور پیپر تقسیم کرنے کے بعد خود اپنے دفتر میں چلے جاتے اور درجہ چہارم کا عملہ نگرانی کرتا اور ہماری موجیں لگ جاتی۔

یہاں سے اصل کرپشن شروع ہوتی ہے جو کہ نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے جس کا کوئی سد باب نہیں کیا جا رہا ہے۔ جب اس طرح کے طلباء کو روزگار نہیں ملتا ہے تو یہ پھر اپنا پرانا حربہ استعمال کرتے ہیں اور لاکھوں روپے دے کر مختلف محکموں میں بھرتی ہوتے ہیں اور عوام سے اپنے پیسے پورے کرتے ہیں۔ جس کی مثال چند ماہ پہلے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے زیر اہتمام ایف آئی اے، تحصیلدار اور لیکچرر کی تقرریاں ہونی تھی اور امتحانی پرچہ جات بیچے گئے تھے۔ اگر یہ سکینڈل منظرعام پر نہ آتا تو پتہ نہیں کتنے رشوت خور سرکار منتخب کر چکی ہوتی اور شاید کتنے امیدوار اس سے پہلے اس طریقے سے منتخب ہو چکے ہیں۔

اگر یہ حکومت ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتی ہے تو اس کو تعلیمی نظام کو بدلنا ہو گا ورنہ کرپشن بھی ہو گی اور نا انصافی بھی ہو گی اور وہی پرانی ڈگر پر زندگی رواں دواں گزرتی جائے گی اور ہر کوئی ایک دوسرے کا گریباں پکڑ رہا ہو گا۔

اسی وجہ سے ہی تعلیم بہت عام ہو رہی ہے لیکن لوگوں میں تعلیم کی پھر بھی بہت کمی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments