شہباز گل، خناس، اور لباس



شہباز گل صاحب

امید ہے اب آپ کو لگے جذبات کے ٹیکے اور تعویذ کا اثر کم ہو گیا ہو گا۔ اور اس وقت آپ خود کو مترادف فاتح روم سمجھ رہے ہوں گے ۔ مگر سر بات کچھ یوں ہے کہ ہم نے بھی ایک ورلڈ کپ انیس سو بانوے میں جیت لیا تھا۔ جس کے کیڑے لگے ثمرات ہم آج بھگت رہیں ہیں۔ لہذا خیال باطل سے محتاط رہئے گا۔

آپ کی جذباتی تقریر نے مجھے بہت ہی متاثر کیا۔ سوچا جیسے آپ نے گوگل کر کر ہمیں دو چار ولایتی یونیورسٹی کے ڈریس کوڈ کے بارے میں آ گہی دی۔ ہم بھی آپ کی ذات گرامی کے بارے میں کچھ معلومات کا ثواب حاصل کر لیں۔ کہ بھئی ہمیں بھی تو پتا لگے جناب من نے کس گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے۔ تو سوائے ایک عدد پی ایچ ڈی، پی ٹی آئی اور فیصل آ باد کے گوگل نے ہمارے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔

پہلی بات تو یہ کہ جناب شہباز صاحب دو خواتین کے سامنے بولنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ کبھی اس کو بھی گوگل کر کیجیے گا۔

اب آپ کو پھر جذبات کی الٹی آ نے والی ہو گی۔ تو صبر کریں۔ آپ کی اس بد تمیزی سے دو یا تین دن قبل محترمہ شرمیلا فاروقی نے آپ کی بات کا جواب اسمبلی میں کھڑے ہو کر دیا تھا۔ یاد ہے ناں اور بات ہو رہی ہے لباس کی تو انہوں نے علامتی طور پہ شاید کالا یا نیلا رنگ ہی پہنا ہوا تھا۔ جو مرنے کے بعد خون کا ہو جاتا ہے۔

چلیں یاد کرواتے ہیں شرمیلا فاروقی نے کیا کہا تھا

” آپ کو شاید گھر میں بھی خواتین سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ انٹرپٹ کرتے ہیں۔ تحمل، سنا کرو۔ جب ایک عورت بات کر رہی ہوتی ہے تو تحمل سے سنا کرو۔ آپ لوگوں کو تمیز نہیں ہے عورتوں سے بات کرنے کی نہ ہاؤس میں، نہ ہاؤس کے باہر۔ سو پلیز بات سننے کا حوصلہ رکھیں۔ اور اپنی باری پہ جواب دیں۔ ،

(ویسے انسانی آداب گفتگو بھی یہی ہیں۔ مرد ہوں یا عورت تحمل سے بات سنا کرو اور اپنی باری پہ بولا کرو۔ )

باقی کی تقریر آپ سب، اور شہباز صاحب آپ بھی گوگل کر لیجیے گا۔ کیونکہ حکومت کا سارا علم و اعداد و شمار گوگل ہیں۔ کیونکہ علم و معلومات ایک معیار پہ آ چکے ہیں۔

شہباز گل صاحب، اب ہم آتے ہیں نکات آپ طرف

اول، جناب اخلاقیات کا جنازہ یا پیدائش صرف وفاق میں ہی کیوں؟ باقی ملک میں کیوں نہیں؟

جس روز یہ ڈریس کوڈ عوام کو عطا کیا گیا۔ اسے ایک دن پہلے جو خبر چل رہی تھی۔ کیا یہ اخلاقیات اس کو دبانے کے لئے تھیں؟

خبر دب گئی۔ لوگ بھول گئے۔ اور آپ کی اس محبوب حکومت کی ایک پالیسی تین سال میں ہم جیسے کم عقل لوگوں کو بھی سمجھ آ ہی چکی ہے۔ جب کوئی حکومتی بات اچھلے۔ عورت کے لباس کی بات چھیڑ دو۔ یہ لوگوں کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اور لباس ویسے کی عیب کا پردہ بھی ہے۔ کیا خیال ہے۔ یہ خناس کا متضاد بھی ہو سکتا ہے۔

دماغ ہے ناں جیسے مرضی گما لو۔ میرا آج کل ویسے ہی آ دھا خراب ہے۔ بیمار چل رہی ہوں۔ باقی سکھوں کے لطائف صحت یابی کی دوا کے طور پڑھ رہی ہوں۔ سمجھ تو گئے ہوں گے آپ۔ آخر فیصل آبادی ہیں۔

اس بار بات مرد کے لباس پہ بھی ہوئی۔ کہ وہ بھی جینز، ٹی شرٹ اور چادر نہیں لیں گے۔ اچھا ہے۔ دو چار کوٹ جو اپنے یا بھائیوں کے ولیمے پہ سلوائے تھے کام آ جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تیس سال کی عمر کے بعد ویسے ہی جینز شرٹ کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔

آپس کی بات ہے۔ ہمارے چنیدہ وزیر اعظم ایچی کالج سے ہیں۔ یہاں کے ڈریس کوڈ کے بارے میں یہ احکامات کیوں نہیں آئے؟ کراچی، لاہور، پشاور اور انگریز کے پرانے کنٹونمنٹس و کونوینٹس کے تعلیمی اداروں کے ڈریس کوڈز بھی ایک بار چیک کیجئے گا۔ جو استادوں اور شاگردوں دونوں کے لئے ہیں۔ یہ احکامات اس کلاس کے لئے کیوں نہیں ہیں؟ باقی شہر آپ خود گوگل کر لیجیے گا۔

اجازت دیجئے ذرا فیصل آ باد کی جگت ہو جائے ”جا اوئے غریبا، غریباں نوں پاغل نہ بنا”

یعنی کہ یکساں تعلیمی نظام میں اب بھی سب سے پہلا حملہ آپ نے غریبوں پہ کیا۔ کہ کپڑے ہماری پسند کے چلیں گے۔ اور وفاق سے یہ لباسی حملہ آ وار چھوڑے ہیں۔ تاکہ باقی ملک سے آپ رد عمل دیکھ سکیں۔ تو جناب کیا نو سو چھ مربع کلو میٹر کے کپڑے کنٹرول کرنے سے اٹھاسی لاکھ ایک ہزار نو سو تیرہ مربع کلو میٹر کے نظام تعلیم وتربیت میں فرق پڑے گا؟

سر آپ نے دو بار مہر بخاری کو بتایا کہ آپ جب بھی ان کے گھر گئے وہ زمین پہ ہی بیٹھیں ہوئیں تھیں۔ اور میاں جانی ٹانگیں آسمان کی طرف کر کے صوفے پہ لیٹے ہوئے تھے۔ سر جی، حوصلہ اور تحمل۔ جب بات سمجھ نہیں آتی۔ چپ کر جاتے ہیں۔ اب جو بچے کاشف صاحب کی آسمانی ٹانگوں کا منظر سو چیں گے۔ ان کے دماغ میں کیا خناس آئے گا؟ ہم بھی اپنے بچوں کو ایسی زبان سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔

آپ کا لب و لہجہ اور الفاظ کی ادائیگی بتا رہی تھی کہ آپ کہاں سے بول رہے تھے؟ آپ نے کہا
”یہ جو یہاں پہ دھنیا بیچا جاتا ہے کہ ہائے ہائے۔ ، یقین کیجئے خالصتاً کوئی بغض ماضی لگتا ہے۔
“ہائے ہائے” کی ادائیگی نے تو کمال ہی کر دیا۔ جیسے خناس کی پارلیمانی تشریح کر دی گئی
آپ کی اردو شناسی اور فلم سٹار میرا جی کی شعر شناسی کا کوئی جواب ہی نہیں۔

سر آپ نے بات کی خناس کی، کہ یہ کوئی برا لفظ نہیں ہے۔ یہ پارلیمانی لفظ ہے۔ سر پلیز اردو میں ایک اور پی ایچ ڈی کر لیں۔ جس کا موضوع رکھئیے گا۔ ”اردو میں خناس کا ماخذ” ۔ تو آپ کو معلوم ہو گا یہ منفی لفظ ہی ہے۔ اور اس کے سب ماخذ او ر معانی منفی ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک کی پارلیمانیت میں منفی اور برا الگ معانی رکھتے ہوں۔ مگر لغت کے اپنے اصول ہیں۔

چلیں سر گوگل کر لیں۔ کیونکہ معلوم ہوا ہے کہ آپ مکمل گوگلی ہیں۔ راز کی بات ہے۔ لسانیات والے کسی لفظ کے مطلب کو سمجھنے کے لئے اس کے مترادف تلاشتے ہیں۔ تو اس لفظ کے مترادفات بھی منفی ہیں۔ جیسے بھوت، پریت، دیو، شیطان، فسادی، مردود، بد روح۔ دیکھا کتنا پارلیمانی لفظ ہے۔ ؟

مگر سر یہ دماغ کے اندر کا کیڑا ہے۔ اگر آپ نہ بتاتے کو کتنے ہی لوگوں کو علم نہ ہوتا کہ رہتا کہاں ہے۔

آپ نے تو اس کی جائے رہائش ہی بتا دی۔ ہر عاقل و بالغ اب خناس کے گھر تک پہنچ جائے گا۔

مہر بخاری اور غریدہ پلیز آپ دونوں بھی خناس کو گوگل کر لیجیے گا۔ اور اس کے گھر تک آپ دونوں خود ہی پہنچ جائیں گی اول تو شرمیلا فاروقی گھر تک چھوڑ کے آئیں ہیں۔

شہباز صاحب، یہاں ہم غریدہ کی بات سے اختلاف کر سکتے ہیں کہ حکومت کو حق نہیں۔ جناب حق ہے ضرور ہے۔ لیکن جناب حکومت کا حق وفاق تک ہی کیوں؟ اور وفاق میں بھی سرکاری تعلیمی اداروں تک ہی کیوں؟

یہاں سرکاری، نیم سرکاری، پرائیویٹ اور اس سے اگلا بھی ایک نظام تعلیم ہے۔

اس ملک میں مڈل کلاسیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو پیٹ کاٹ کر پرائیویٹ سکولوں میں پڑھا رہی ہے۔ جنہیں امیر طبقہ ہی افورڈ کر سکتا ہے۔ جہاں استانی کا ڈریس کوڈ سکول جاب کے دستخط کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ وہاں آپ کا اختیار کیوں نہیں چلتا؟ کہ آپ کو شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا کہ یہ مجبور لوگ نہیں ہیں۔ یہ ووٹ ہیں۔ اس ملک کا نظام چلانے والی سب سے اہم اکادمیز آکسفورڈ ڈریس کوڈ کے مترادف ہے۔ اس بارے میں بھی چپ کیوں؟

یہاں اگر استانی کی ماں مر جاتی ہے تو کہا جاتا ہے آپ نے سرخی لگا کر آنی ہے والدہ آپ کی رخصت ہوئیں ہیں۔ بچوں کی نہیں۔ جہاں موسیقی ٹیچر، آرٹ ٹیچر، سبجیکٹ ٹیچر کے الگ ڈریس کوڈ ہوتے ہیں۔

وہاں آپ کی اخلاقیات کہاں جاتی ہیں۔ وہاں کے بچوں کو بچانے کی ذمہ داری حکومتوں کی کیوں نہیں ہے؟

آپ کا پورا حق سرکاری اداروں اور وفاقی سر کاری اداروں تک ہی کیوں محدود ہے۔ منسٹر نے آنا ہو تو استقبال کے لئے پرائیویٹ سکول کے بچے، اور اگر نہر صاف کروانی ہو تو سرکاری سکول کے بچے۔ یہ دماغ کا خناس نہیں ہے؟ لیکن آپ نے اسے منفی لفظ نہیں سمجھنا۔ برا تو بالکل نہیں سمجھنا۔ اور گھبرانا نہیں ہے۔ اس سب بکواس کو تحمل سے سوچنا ہے۔

خناس نہ ہوا تو سمجھ آ جائے گی۔ اور ظاہر ہے خناس ہوا تو نہیں آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments