بگلہ کورٹس


آرڈر، آرڈر، آرڈر

بگلے نے لکڑی کے ہتھوڑے کو اپنی میز پر مارا۔ عدالت میں جانوروں نے شور مچایا ہوا تھا۔ گزشتہ کئی دنوں سے عدالت میں ایک مقدمے کی سماعت چل رہی تھی۔ ہرنوں کا موقف تھا کہ حالیہ انتخابات کے بعد جنگل کی حکومت جو کہ اژدھوں سے بھیڑیوں کو منتقل ہو گئی تھی ان کی پالیسیوں سے جنگل کی معیشت بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے۔ ہرنوں نے معزز عدالت کو استدعا کی تھی کہ ایک تو بھیڑیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی ضرورت کے تحت ان کا شکار کریں نہ کہ تفریح کی خاطر۔

”گزشتہ کئی ماہ سے بھیڑیوں نے وتیرہ بنا لیا ہے کہ تفریح کی خاطر بھی معصوم جانوروں بشمول ہرنوں، خرگوشوں اور دیگر کو ہلاک کرتے ہیں“ ، عدالت کو بتایا گیا۔

”دوسرا یہ کہ بھیڑیا راج کی طرف سے بنائی گئی نئی پالیسیوں خاص طور پر محصولات کے نئے نظام سے جنگل کے جانور کئی مسائل کا شکار ہو گئے تھے جن میں خوراک کے ذخائر کا کمزور جانوروں کی پہنچ سے باہر ہو جانا بھی شامل ہے“ ، عدالت کو بتایا گیا۔

”جنگل کے تالابوں میں پانی کم ہو رہا ہے اور گھاس بھی غائب ہو رہی ہے جس کے پیچھے کوئی سازش کارفرما لگ رہی ہے“ ، درخواست کے ذریعے بیان داخل کیا گیا۔

بھیڑیوں نے سرکاری طور پر کوے کو اپنے حق میں دلائل دینے کے لیے نامزد کیا ہوا تھا۔ کوے نے اپنے کلائنٹس جو کہ اب جنگل کے نئے حکمران تھے، کے اوپر لگائے جانے والے الزامات کے جواب میں عدالت کو بتایا کہ جنگل میں آئے معاشی بحران، امن وامان کی بگڑتی اور بے یقینی کی صورتحال کی اصل وجہ سابقہ سرکار جو کہ اژدھوں پر مشتمل تھی کی جانب سے کی جانب والی میگا کرپشن ہے۔

ہد ہد نے جو ہرنوں کی طرف سے وکیل نامزد ہوا تھا، جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر چہ اژدھوں نے بھی ہرنوں، خرگوشوں اور دیگر جانوروں کے بچوں کو اپنی خوراک بنایا ہوا تھا اور ساتھ ساتھ جنگل کے وسائل کو جنگل سے باہر بھی کہیں اپنی خفیہ کمین گاہوں میں منتقل کیا تھا، تاہم ان کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کو وہ آٹھ آنے کھانے اور آٹھ آنے لگانے کی پالیسی کو اپنائے ہوئے تھے تاکہ اپنے اقتدار کو جاری رکھ سکیں۔

کوا فوراً اپنی سیٹ سے کھڑا ہوا اور بگلے کو مخاطب کرتے ہوئے ہوئے کہا،

”آنر ایبل جج صاحب، اژدھوں نے جنگل میں جو لوٹ مار مچائی ہوئی تھی، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اژدھوں نے نہ صرف جنگل کے وسائل کو سمندر پار کے ایک جزیرے میں منتقل کیا بلکہ وہاں اپنی اولاد کو ان وسائل پر بطور نگران بٹھا دیا۔ اژدھے کئی دہائیوں سے جنگل پر حکمران چلے آرہے تھا، اس کے لیے انھیں چیتوں کا تعاون بھی حاصل تھا۔ میرے کلائنٹس بھیڑیوں کے پاس تو جنگل سے بدعنوانی کو جڑ سے ختم کرنے اور لوٹے ہوئے وسائل کو واپس جنگل میں لانے کا وژن ہے“ ۔

بگلے نے اپنی آبزرویشن میں کہا،

”بادی النظر میں اصل مسئلہ جنگل کی کمزور ہوتی ہوئی معیشت، گھاس کی بڑھتی ہوئی قیمت اور تالابوں کے پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کا ہے۔ اگر چہ لگڑ بگوں کو جنگل میں امن وامان کو قائم رکھنے کا فریضہ سونپا گیا لیکن پھر بھی جانوروں کی کئی کمزور اقسام کی طرف سے لٹیروں کے ہاتھوں لوٹے جانے اور عدم تحفظ کی شکایت آ رہی ہیں بلکہ خود لگڑ بگوں پر بھی کمزور جانوروں پر بلا جواز تشدد کرنے اور جرائم پیشہ جانوروں کا ساتھ دینے کے الزامات ہیں“ ۔

بگلے نے اپنے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے کہا کہ شیروں نے بھی طویل عرصہ جنگل پر حکومت کی لیکن جنگل میں کئی سال تک چلنے والی تحریک کے نتیجے میں وہ اقتدار سے دستبردار ہو کر جنگل کی حفاظت کی ذمہ داری تک محدود ہو گئے۔ ”شیروں پر ابھی بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ جہاں جنگل کے وسائل سے اپنا پورا پورا حصہ وصول کرتے ہیں وہاں پس پردہ رہتے ہوئے جنگل کے معاملات پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں بلکہ قریبی جنگلات کی حکومتوں کا ساتھ ہونے والے تمام معاملات شیروں کی مرضی سے ہی طے ہوتے ہیں“ ۔

”عدالت آئندہ سماعت جنگل کی ندی کے کنارے کرے گی اور مقدمے کا فیصلہ سنا دے گی۔ تب تک عدالت برخاست کی جاتی ہے۔ تمام فریقین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ آئندہ سماعت پر اپنی حاضری کو یقینی بنائیں“ ، جج کے ان ریمارکس کے ساتھ ہی عدالت برخاست ہو گئی۔

۔

کبوتروں نے جو جنگل کے حالات پر گہری نظر رکھتے تھے انھوں نے جنگل کے باسیوں کو بتایا کہ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ گینڈوں نے جنگل کے مرکز میں احتجاجی دھرنا دینے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ سفید کبوتر نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ گینڈوں کا خیال ہے کہ جنگل کے جانوروں میں آزاد خیالی بڑھتی جا رہی ہے جس کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ سنہری رنگ والے کبوتر نے اپنے تجزیاتی پروگرام میں دعوٰی کیا کہ گینڈے اقتدار میں آنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

۔ ۔

پھلوں سے لدے اس درخت پر طوطا اور مینا روزانہ آ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے اور جنگل کے اندرون اور بیرون ہونے والی سیاست پر بھی بات چیت کرتے۔ مینا نے طوطے کو کہا، بھائی، سنا ہے کہ ہمارے جنگل اور ساتھ والے جنگل کے درمیان وجہ تنازعہ بنے گھاس اور پھل دار درختوں والے قطعۂ اراضی کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے، اب وہاں کے باسیوں کو بھی آزادی کا سانس لینا نصیب ہو گا۔

طوطے نے جنگلی سیب کو دانتوں سے کاٹنے اور ایک چھوٹا ٹکڑا کھانے کے بعد کہا، ”میڈی گالہی بہن، تیکوں ہالی تک وڈے جنگلاں دے عقاباں دی پالیسیاں دی سمجھ نی آئی۔ اوہ کداں وی نہ چاہسن جو سادے تے سادے نال آلے جنگل دی لڑائی ختم تھیوے بلکہ اوہ ایہو جیا کھیڈ کھیڈسن جواوں زمین دے سر سبز تے سوہنڑے ٹکڑے تے خود آ تے بہ ویسن“ (میری بھولی بہن، تمہیں ابھی تک بڑے جنگلوں کے عقابوں کی پالیسیوں کی سمجھ نہیں آئی۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہمارے اور ہمارے ہمسائے جنگل والوں کی لڑائی ختم ہو بلکہ عقاب ایسا کھیل کھیلیں گے کہ وہ ہمارے اور ساتھ والے جنگل کے درمیان وجہ تنازعہ بنے زمین کے خوبصورت ٹکڑے پر خود آ کر بیٹھ جائیں گے ) ۔

۔ ۔

غار میں اندھیرے اور تاریکی جیسی کیفیت تھی تاہم باہر سے سورج کی تھوڑی سی روشنی اندر آ رہی تھی۔ غار کے اندر چیتے دائرہ بنا کر بیٹھے جنگل اور سرحدوں کی صورتحال پر بات چیت کر رہے تھے۔ ایک جوان چیتے نے کہا آج کل کبوتروں کی طرف سے خبروں اور جھوٹے تجزیوں میں جنگل کے باسیوں کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جنگل میں جانوروں کے اغوا اور ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے چیتوں کا ہاتھ ہے۔

”یہ ٹھیک ہے کہ ہم جنگل کے اندر کسی بھی غدار کو برداشت نہیں کر سکتے اور جنگل سے غداری کرنے والے کو چیر پھاڑ کر جنگل سے باہر پھینک دینے کا عزم رکھتے ہیں لیکن یہ بھی کیا کہ ہر بات کا الزام ہمارے اوپر لگایا جائے، اب کسی جانور کے سر میں درد ہو رہا ہو تو کہا جائے کہ سر درد کے پیچھے چیتوں کی سازش ہو سکتی ہے، کم ازکم ہم پر الزام لگانے والوں کو کچھ تو سوچنا چاہیے“ ، ایک دوسرے چیتے نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔

سردار چیتے نے کہا، یہ سب باتیں تو چلتی رہیں گی، اصل مسئلہ جس پر بات کرنے کے لیے آج کا اجلاس بلایا گیا تھا، وہ یہ کہ بڑے جنگلوں کے عقاب ہمارے اور ہمارے ہمسایہ جنگلوں کو براہ راست کنٹرول کرنے کے لیے اس خطے میں خود آ کر اپنے گھونسلے بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔ ہمیں اس کا تدارک کرنا ہو گا۔ ورنہ ایک بار پھر سب عقابوں کے غلام بن کر رہ جائیں گے۔

کونے میں بیٹھے چیتے نے کہا کہ ریچھوں کی شکست کے بعد عقاب کچھ زیادہ ہی جنگلات کے اندرونی معاملات میں دخل دینے لگ گئے ہیں۔ خیر اگر ریچھ شکست کھا گئے تو عقاب بھی اپنے تسلط کو لمبے عرصہ تک قائم نہ رکھ پائیں گے۔

۔ ۔

رنگ برنگے پھولوں والے پودوں کے پاس واقع پتھر اور مٹی کے ملاپ سے بننے والے ٹیلے میں مکوڑوں (بڑے چیونٹوں ) نے اپنا بل (گھر) بنایا ہوا تھا۔ آج مکوڑوں کی برادری سارے جنگل سے آ کر وہاں سر جوڑ کر بیٹھی اس مسئلہ کا حل ڈھونڈنے میں لگی تھی کہ جنگل کے تاجر جانور عبادت بھی بہت کرتے ہیں لیکن ان کی اکثریت جانوروں کی خوراک کی تجارت میں کھلم کھلا بے ایمان کیوں بنی ہوئی ہے۔

ایک چھوٹے مکوڑے نے سوال اٹھایا، ”تاجر جانوروں کے رویوں کو تو دیکھ کر لگتا ہے، مذہب صرف لباس اور ظاہری طور طریقوں تک اپنا اثر دکھاتا ہے، من کے اندر پائی جانے والی ہوس پر مذہب کا کوئی اثر نہیں ہوتا“ ۔

بوڑھے مکوڑے نے مسکراتے ہوئے کہا، ”جو جانور مذہبی نہیں ہوتے تو کیا وہ فرشتے ہوتے ہیں۔ وہ بھی کئی طرح کی خرابیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ رویوں کو تبدیل کرنے کے لیے جنگل کے باسیوں کی سوچ کو بدلنا ہو گا“ ۔

۔ ۔

جنگل کے درمیان سے گزرنے والی ندی پر آج جنگل کے سارے جانور جمع تھے۔ بگلا کورٹ نے ہرنوں کی طرف سے دائر کیے جانے والے اہم مقدمے کا فیصلہ سنانا تھا۔ جیسے ہی بگلا اڑتا ہوا سامنے آیا، سب جانور احتراماً کھڑے ہو گئے۔ بگلے نے فیصلہ سنانے سے پہلے حکم دیا کہ ندی کی مچھلیوں کو اس کے اور دیگر جانوروں کے سامنے بطور ضیافت پیش کیا جائے۔ مچھلیوں میں جو یہ حکم سن رہی تھیں، یک دم بے چینی سی پھیل گئی۔

بگلے نے فیصلہ پڑھنا شروع کیا،

”جنگل میں دہائیوں تک شیروں کی حکومت رہی، پھر اژدھے، بھیڑیے اور دیگر جانور بھی حکومت کرتے رہے لیکن ایک بات سامنے آئی کہ جانوروں کی کوئی بھی حکومت جنگل کے باسیوں کے دکھوں کو کم نہ کر سکی۔ جنگل کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی رہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ رہے کہ یہ سب حکومتیں ناکام ہو گئیں لیکن یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ یا تو یہ مسائل کا ٹھیک طریقے سے ادراک نہیں کر سکیں یہ ان کے اندر ان کو حل کرنے کی صلاحیت نہ تھی۔

تمام تر صورتحال کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب جنگل کے معاملات کو بگلے سنبھالیں گے۔ جنگل کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کی کمی کا ہے۔ اگر جنگل میں برسوں پہلے ہی بڑے تالاب کی تعمیر کر لی جاتی تو آج جنگل باسیوں کو یہ مسئلہ درپیش نہ ہوتا۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جنگل میں چیف بگلا کی زیر نگرانی پانی کا ایک بڑا تالاب بنایا جائے گا۔ ظاہر ہے اس کے لیے بہت زیادہ وسائل چاہیے جس کے لیے جنگل کے تمام باسیوں کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا“ ۔

ابھی بگلا فیصلہ سنا رہا تھا کہ شور بلند ہونا شروع ہو گیا۔ بگلے نے اپنے نائبین سے پو چھا یہ شور کیسا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جناب ندی کی مچھلیاں احتجاج کر رہی ہیں کہ پہلے ہی ان کا بے دریغ شکار کیا جا رہا تھا اب بگلے کے طرف سے جاری ہونے والے احکامات کے بعد تو ندی میں ان کی نسل کو بڑے خطرات درپیش ہو گئے ہیں۔

یہ سنتے ہی بگلا غصے سے لال پیلا ہو گیا اور بولا، ”ان ناہنجار مچھلیوں کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ معزز عدالت کے حکم کے خلاف احتجاج کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ لگڑ بگوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ سب مچھلیوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے“ ۔

بگلے نے کوے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب چونکہ عدالت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ امن و امان اور دیگر مسائل کو بر وقت اور تیزی سے نمٹانے کے لیے عدالت خود براہ راست اپنا کردار ادا کرے گی تو اس کے لیے ماڈل بگلا کورٹس بنائی جائیں۔

کوے نے معزز عدالت کو یقین دلایا کہ وہ ان کا یہ حکم بھیڑیا سرکار تک پہنچا دے گا اور یہ کہ بہت جلد ماڈل بگلا کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments