خواتین کی سماجی، سیاسی و معاشی حیثیت


نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار گلگت کا تفصیلی دورہ کر کے واپس روانہ ہو گئی۔ نیلوفر بختیار نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد تمام صوبوں اور علاقوں کا دورہ کیا ہے۔ گلگت میں انہوں نے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید، قائد حزب اختلاف امجد حسین ایڈوکیٹ، وزراء اور اراکین اسمبلی کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ نیلوفر بختیار سے ملاقات کے دوران ہی وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے خواتین کے لئے کمیشن کے قیام کا اعلان کر دیا جبکہ قائد حزب اختلاف کی جانب سے یقین دہانی کو بھی انہوں نے سراہا۔

اسی سلسلے میں سول سوسائٹی، غیر سرکاری اداروں اور سرکاری اداروں کے نمائندوں سے مشاورتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ اس اجلاس کا بنیادی مقصد خواتین کو سیاسی اور معاشی میدان میں مستحکم کرنے اور خواتین پر تشدد کے خلاف روک تھام کے لئے تجاویز طلب کرنا تھا۔ مشاورتی اجلاس میں نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کے لئے جی بی سے رکن سوسن عزیز، پارلیمانی سیکریٹریز کنیز فاطمہ، ثریا زمان، کلثوم فرمان، دلشاد بانو و دیگر شامل تھے۔

اس موقع پر نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن نیلو فربختیار نے اپنے خطاب میں مطالبہ کیا کہ چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان نے ڈگری کالج کے عمارت پر قبضہ کیا ہوا ہے جبکہ نیب گلگت بلتستان کا علاقائی دفتر خصوصی افراد کے ہاسٹل پر قابض ہے اسی طرح جوٹیال پولیس سٹیشن کو ایجوکیشن کالج کی عمارت پر قائم کیا گیا ہے جس کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد چیف الیکشن کمشنر، نیب آفس اور جوٹیال تھانہ کو کسی اور مقام پر منتقل کر دیا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب میں وزیر تھی اس وقت بھی گلگت بلتستان کے چپہ چپہ کا دورہ کیا اور اب بھی میں نے مفصل دورہ کیا ہے، جی بی کے خواتین کے مسائل سے مکمل باخبر ہوں اور ان کے حل کے لئے اقدامات تیز کریں گے۔ آئندہ کوئی بھی سیشن ہوٹل میں نہیں بلکہ کمیونٹی کے ساتھ متعلقہ علاقوں میں ہوں گے اور اس سلسلے میں جو تنظیم ہمارے ساتھ تعاون کرے گی ہم ان کے ساتھ تعاون کریں گے۔ گلگت بلتستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان کے استحکام کے لئے سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

گلگت بلتستان میں کچھ ایسی شکایات ملی ہیں کہ خواتین کو ہر قسم کے مشقت طلب امور پر لگا کر مرد خود آرام سے بیٹھے رہتے ہیں جس کی مذمت کرتے ہیں، یہ گلگت بلتستان ہے کوئی افریقہ کا جنگل نہیں ہے۔ خواتین سے کم از کم براں ر کا کام لیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے جیل کا دورہ کر کے آئی ہوں جہاں تین خواتین قید ہیں اور ابھی ملزم ہیں لیکن خواتین کے لئے الگ جیل نہیں ہے ابتدائی طور پر بارک الگ بنانے کی ضرورت ہے۔

خواتین یونیورسٹی کے قیام کی اشد ضرورت ہے ابتدائی طور پر کالجوں میں خواتین کے لئے صنفی تعلیم دی جائے۔ 8 مارچ، 12 فروری اور ایکٹیوازم کے 16 ایام میں مجھے سرگرمیاں چاہیے بیشک کسی قانون کے متعلق آگاہی ہی کیوں نہ پھیلائیں۔ اس موقع پر انہوں نے بہبود خواتین کے ڈیپارٹمنٹ پر تنقید کی اور کہا کہ ہم نے ان کے ساتھ پورا دن گزارا ہے اور وہ یہاں ہماری بات سننے کو بھی گوارا نہیں کرتے ہیں۔

نیلوفر بختیار کا نام سیاسی افق میں تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ خاتون ہونے کے باوجود جیلوں اور تھانوں کی زیارت نصیب ہو چکی ہے۔ سڑکوں پر نکلنے اور حقوق کے لئے احتجاج کی عادی ہے۔ ان چند خواتین میں سے ایک ہے جو ملکی سطح پر سیاسی میدان میں تسلسل سے سامنے رہی ہیں۔ تین گھنٹے سے زائد دورانیہ کے سیشن کو بڑے خوبصورت طریقے سے چلایا اور سیاسی نکتہ چینی کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کر لیا۔ مشاورت کے دوران جن جن مسائل کی نشاندہی ہوئی ان سب کو اپنے رپورٹ میں شامل کر لیا اور میڈیا کو تاکید کردی کہ اس پر فورم کی طرف سے مذمت کی جائے جن کا ذکر اوپر گزرا ہے۔ نیلو فربختیار کے علاوہ گلگت بلتستان سے کمیشن میں نمائندگی کرنے والی سوسن عزیز بھی اس حوالے سے کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ بڑے اداروں کے اچھے پوزیشنز پر اپنی خدمات سرانجام دے چکی ہیں، بیرونی دنیا سے تعلیم یافتہ ہیں اور خواتین کے مسائل اور حقوق کے لئے ہمیشہ سے پیش پیش رہی ہیں۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ خواتین کے حقوق کا معاملہ ابھرتا ہوا ایک مسئلہ ہے اور حالیہ کچھ سالوں میں اس مطالبے نے شدت پکڑ لی ہے۔ متعدد ممالک میں حقوق کے لئے احتجاجی مظاہرے بھی شروع کیے جا رہے ہیں جن کا بنیادی مقصد سیاسی دباؤ بڑھانا ہے تاکہ ارباب اختیار اس شعبے کی جانب توجہ دے سکے۔ یہ وہ معاملات ہیں جہاں بین الاقوامی سطح پر ایک تصویر دکھائی جاتی ہے لیکن اندرونی سطح پر مسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں اور حکومتوں کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ ان پر پردہ ڈال کر سب اچھا کی رپورٹ پیش کریں، یوں بھی ہماری حکومتیں سب اچھا کے الفاظ کو بہت معتبر اور خوش گوار سمجھتے ہیں۔

خواتین کی سیاسی استحکام کی صورتحال دیکھنے سے پہلے گلگت بلتستان کی اپنی سیاسی عدم استحکام کو دیکھنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے باوجود یہ محدود معاملات میں بھی خواتین کا سیاسی استحکام سوالیہ نشان ہے۔ غالباً جنرل ضیاء الحق کے دورہ ہنزہ کے موقع پر رانی عتیقہ نے ایک قرارداد میں اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ خواتین کے لئے بھی نشستوں کا اہتمام کرنا چاہیے اور اسی کی بنیاد پر خواتین کو نمائندہ فورمز میں نمائندگی کا تصور شروع ہوا۔

1991 میں بننے والی اسمبلی یوں پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کی خواتین کو نمائندگی کا موقع ملا جس میں رانی عتیقہ اور فوزیہ سلیم کو ناردرن ایریاز کونسل کے اراکین بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ بعد ازاں ڈاکٹر پروین اشرف گلگت، شائستہ شمیم حمزہ دیامر، عقیلہ خاتون گلگت، فریدہ بتول سکردو، ناصرہ بیگم گانچھے، کنیز زہرا غذر، گل میرا دلپذیر دیامر، نور العین غذر، آمنہ انصاری گانچھے، شاہدہ یوسف استور، سعدیہ دانش گلگت، شیریں فاطمہ شگر، یاسمین نظر غذر، مہناز ولی گلگت، ثوبیہ مقدم دیامر، نسرین بانو استور، ریحانہ عبادی سکردو، شیرین اختر گانچھے، بی بی سلیمہ گلگت کو بھی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا۔

موجودہ اسمبلی میں سعدیہ دانش، کنیز فاطمہ سکردو، کلثوم فرمان سکردو، ثریا زمان دیامر، دلشاد بانو ہنزہ، اور صنم بی بی (فریاد) گلگت کو خواتین کی مخصوص نشست میں اسمبلی پہنچنے کا موقع ملا ہے۔ ان خواتین میں رانی عتیقہ، سعدیہ دانش، آمنہ انصاری، گل میرا دلپذیر، آمنہ انصاری کو ایک سے زائد مرتبہ اسمبلی پہنچنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ گلگت بلتستان کی سیاست 1994 میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات سے شروع ہوئی اور آج 6 انتخابات کے بعد تک بڑے ارتقائی منازل طے کرچکی ہے لیکن خواتین کی سیاست اب تک 1991 والی ہی ہے۔

اس ضمن میں یہ بات ضروری ہے کہ خواتین کو سیاسی استحکام کی طرف لانے کے لئے جنرل نشستوں پر مقابلہ کرانے کی جانب حوصلہ افزائی کرنی ہوگی کیونکہ آج کی اسمبلی کی نہ کل پتہ تھا اور نہ ہی کل پتہ ہو گا اسی طرح کل کی اسمبلی (خواتین) کا نہ آج پتہ ہے نہ اس سے پہلے پتہ چل سکا تھا۔ اس کوٹے کے نظام نے خواتین کو سیاسی میدان میں سامنے آنے میں رکاوٹ پیدا کردی ہے۔ مرد کارکنوں کو نوازنے کے لئے بھی خواتین کی نشست دی جاتی ہے تو اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے؟

اور یوں بغیر محنت کے اسمبلی میں آنے والی خاتون ان خواتین کی نمائندگی کیسے کرے گی جس کو ووٹ کی طاقت اور حق کا بھی علم نہیں ہے؟ غیر سرکاری تنظیموں کے تیار کردہ چند قانون سازی کے پلندوں کے علاوہ کارکردگی اپنی نوعیت کا سوالیہ نشان ہے۔ کنفرم ہارنے والی نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ دے کر خانہ پری کرنا سیاسی جماعتوں کی اس ضمن میں سب سے بڑی ناکامی ہے۔

معاشی استحکام کے حوالے سے خواتین کافی آگے آ چکی ہیں۔ آج کے دور میں روایتی ہنر سلائی کڑھائی سے لے کر جدید ہنر یعنی کمپیوٹر، فری لانسنگ وغیرہ تک کے میدان میں خواتین نظر آتی ہیں۔ البتہ تشدد کے معاملے میں بھی نتیجہ صفر ہے کیونکہ اس کا شکار خواتین اور ایسے مردوں تک اب تک کسی ضابطے کے تحت نہیں لایا جا سکا ہے۔ گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر تھانہ کچہری اور عدالت تک پہنچنا بڑا مشکل ترین مرحلہ ہے اور وہاں پہنچنے کے بعد واپس اسی گھر میں جانا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے جس کے لئے اب تک کوئی نظام وضع نہیں ہے۔

ان اعشاریوں کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ خواتین کی سیاسی و سماجی حیثیت میں اضافے کے لئے کام کرنے کی بھرپور گنجائش اور ضرورت ہے جو کہ صرف سرینا ہوٹل کے سیمینارز یا غیر سرکاری تنظیموں کے دفاتر سے مکمل نہیں ہو گا بلکہ ان مقامات تک پہنچنا پڑے گا جہاں پر مسائل ہیں اور وہاں کے سماجی ڈھانچے میں اس بات کو شامل کرانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments